پاکستان جائے قرار ہے ،جائے فرار نہیں،ضلع وسطی کے تحت خواتین کنونشن

157

اس دن جب صبح کے وقت میں اٹھی تو خاصی پُرجوش تھی۔ جلدی جلدی بچوں کو اسکول اور شوہر صاحب کو آفس بھیجا اور گھر کے کام مکمل کیے۔ میری پھرتیوں اور جوش و جذبے کی وجہ آج کا پروگرام تھا جو کہ جماعت اسلامی ضلع وسطی کے تحت ’’خواتین کنونشن‘‘ تھا جو بارہ دری گرائونڈ میں رکھا گیا تھا۔

حافظ صاحب جیسے لیڈر جس قوم میں پیدا ہوتے ہیں اس کی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ کراچی جذبوں کا شہر ہے، یہاں کے رہنے والے وسیع سوچ، اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ معیار رکھتے ہیں۔ یہاں کوئی کمزور شخصیت لیڈر کے طور پر کھڑی نہیں ہوسکتی، نہ ہی لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ صرف یہاں کا رہنے والا ہی کراچی کے اصل مسائل کو سمجھ سکتا ہے، ان کے مسائل کو زیر بحث لا سکتا ہے اور حل کرنے کا دل گردہ رکھتا ہے، اور یہ کام صرف حافظ نعیم الرحمن نے کیا ہے۔ لیڈر کی خوبی ہوتی ہے کہ پہلی ملاقات میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے، ان کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرے، اور یہی خوبی حافظ نعیم صاحب میں پائی جاتی ہے۔ اتنا مدلل اور صاف جواب دیتے ہیں کہ دشمن کے دانت کھٹے ہوجاتے ہیں، اتنا میٹھا اور مسکرا کر بولتے ہیں کہ بچے گرویدہ ہوجائیں، اور اخلاق ایسا کہ گرے ہوئے دشمن پر وار نہیں کرتے۔

جب مجھے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب ہماری یو سی سے الیکشن کے لیے کھڑے ہوئے ہیں یعنی قومی اسمبلی کی سیٹ 250 سے اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ 129 سے، تو ہماری خوشی دوبالا ہوگئی۔

دوپہر کے وقت ہم جوش و جذبے کے ساتھ بچوں سمیت کنونشن میں پہنچ گئے۔ اندر جاتے ہی دل خوش ہوگیا۔ ایک بہت بڑے ہال میں ایک طرف استقبالیہ کا کائونٹر تھا جہاں خواتین کا اندراج کیا جا رہا تھا، پورے ہال میں مختلف قسم کے اسٹال کپڑے، جوتے، جیولری کے لگے ہوئے تھے اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود تھا، یعنی خواتین کی تفریح کا پورا بندوبست تھا۔ اندر پنڈال کی طرف گئے تو ایک ترتیب سے کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ بچوں کا کارنر الگ سے بنایا گیا تھا۔ تقریباً دو ہزار خواتین کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ بہت بڑا اسٹیج تھا جسے خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ دو طرف بڑی بڑی اسکرین لگی ہوئی تھیں۔ ہم تو جلدی سے جاکر پہلی نشستوں پر بیٹھ گئے تاکہ قریب سے پروگرام دیکھ سکیں۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی سورۃ نور کی آیت تلاوت کی گئی ’’اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے، اوراللہ ہر چیز سے بہ خوبی واقف ہے۔‘‘

اس کے بعد نعت پیش کی گئی:

مقام اونچا ہے میرے نبیؐ کا
مثال اسوہ میرے نبیؐ کا
ہوئے ہیں جتنے نبی سبھی نے
پڑھا قصیدہ میرے نبیؐ کا

سبحان اللہ! نعت سن کر دل خوش ہوگیا۔ کمپیئرنگ کے فرائض فریدہ گلزار نے ادا کیے اور پورے پروگرام میں بہترین شعر سنا سنا کر جذبات کو گرماتی رہیں۔ سب سے پہلے ناظمہ کراچی جاوداں فہیم نے اپنی بات رکھی۔ ان کا موضوع تھا ’’کراچی بدل رہا ہے‘‘۔ ان کا اشارہ کراچی کی90 یوسیز میں جیتنے والے جماعت اسلامی کے اُن چیئرمینز کی طرف تھا جو فنڈ نہ ملنے کے باوجود اپنے اپنے علاقوں میں بہتری لا رہے ہیں۔ کچرا کنڈیاں صاف کروا رہے ہیں، سیوریج کا نظام ٹھیک، ٹوٹی سڑکیں بن رہی ہیں اور پارکس کا نئے سرے سے افتتاح ہورہا ہے۔ بہت سے عوام کا یہ سب سن کر سوال ہوتا ہے کہ یہ سب تو الیکشن سے پہلے ساری پارٹیاں کرتی ہیں، اس میں ایسا نیا کیا ہے؟ تو ان خوابیدہ لوگوں کے لیے جواب ہے کہ اِس بار تو کراچی کے عوام کو الیکشن سے پہلے پوچھنے بھی نہ آئیں دوسری پارٹیاں، ان کو عوام کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ اپنے جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ بدمعاشی اور بددیانتی سے سارے کام چلتے ہیں۔ پھر بھی نہ چلیں تو آخر میں آزاد امیدوارکو خرید لیتے ہیں۔

لیکن ان کا موضوع ’’کراچی بدل رہا ہے‘‘سن کر ہم کسی اور دنیا میں چلے گئے۔ ہماری نظر میں کراچی کی سوچ واقعی بدل رہی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے کٹّر لوگوں کو جب یہ بولتے دیکھتی ہوں کہ ’’اب صرف جماعت اسلامی‘‘ تو حیران رہ جاتی ہوں۔ ایم کیو ایم کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ پی پی پی نے کراچی ہی نہیں، سندھ کو بھی کھا پی کر ہضم کرلیا ہے، اور پی ٹی آئی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔

جاوداں صاحبہ کے بعد نویں جماعت کی طالبہ زینب صفدر نے ’’پاکستان جائے قرار ہے، جائے فرار نہیں‘‘ کے موضوع پر تقریر کی جس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ پاکستان اس وقت معیشت کی بدترین سطح پر ہے لیکن پھر بھی اس سے امیدیں وابستہ ہیں، کیوں کہ یہاں 70 فیصد نوجوان ہیں اور قوموں کی تقدیر نوجوان ہی بدلتے ہیں۔ اس کے بعد ایک بہت مزے کا پروگرام ہوا جس میں ہال میں بیٹھے لوگوں سے کچھ سوالات پوچھے گئے جن کا خواتین نے بڑھ چڑھ کر جواب دیا اور انعام بھی حاصل کیا۔ ان سوالات میں کچھ سوالات یہ ہیں:

-1 ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

-2خیبر پختون خوا کو سود سے پاک کس نے بنایا؟

-3 مشرقی پاکستان کس تاریخ کو بنگلہ دیش بنا؟ (قومیں اپنی تاریخ سے خوب واقف رہتی ہیں)

-4 الیکشن کے دوران کون سے دو فارم پولنگ ایجنٹ کے لیے حاصل کرنا ضروری ہوتے ہیں؟

-5 ٹرانس جینڈر بل کے خلاف اسمبلی میں کس نے آواز اٹھائی؟

میرا خیال ہے کہ ان تمام سوالات کے جوابات آپ کو معلوم ہوں گے، اور اگر نہیں، تو جلدی جلدی معلوم کرلیں۔ اس کے بعد ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب صاحبہ کو بلایا گیا جنہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ پندرہ سال سے کراچی اور اندرونِ سندھ کے دورے کررہی ہیں اور حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، گائوں تو دور کی بات، بڑے بڑے شہروں جیسے جیکب آباد، میاں چنوں وغیرہ میں سیوریج کا انتظام نہیں۔ گیس کا بحران، بجلی کا بحران، تعلیم کا فقدان۔ لیکن اندرونِ سندھ کے لوگوں کی سوچ میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ کہتے تھے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں، اب وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نہ کھاتی ہے نہ کھانے دیتی ہے۔ اور سوچ میں یہ تبدیلی الخدمت کے ریلیف کے کاموں کی وجہ سے ہوئی۔ سیلاب کے دنوں میں جتنی انتھک محنت اور جذبوں کے ساتھ الخدمت نے اہلِ سندھ کی مدد کی، لوگ اس کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ رخشندہ منیب صاحبہ کا مطالبہ تھا:

اے قوم! اگر تُو دے ساتھ ہمارا
ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا

اس کے بعد یوتھ کی نمائندہ اریبہ صفدر نے ’’تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے‘‘ کے موضوع پر دھواں دھار تقریر کی۔ اتنی دیر میں ہمارے برابر میں بیٹھی خاتون بے چین ہوکر پوچھنے لگیں کہ حافظ نعیم الرحمن کب آئیں گے؟ ان کی بات سن کر احساس ہوا کہ صرف ہم ہی انتظار نہیں کررہے، دوسرے لوگ بھی ہماری طرح حافظ نعیم الرحمن صاحب کو سننے آئے ہیں۔ پروگرام میں اس کے بعد جماعت اسلامی کا منشور پیش کیا گیا جس پر تمام میڈیا پرسن اور صحافی تبصرے کررہے ہیں کہ اتنا مکمل اور جامع منشورکوئی پارٹی اب تک پیش نہیں کرسکی جتنا جماعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ سما نیوز نے تو جماعت اسلامی کے منشور پر ایک پورا پروگرام بھی کیا۔ جماعت اسلامی کے منشورکے کچھ اہم نکات:

٭ تعلیم سب کے لیے

٭ انصاف سب کے لیے

٭ روزگار سب کے لیے

اس کے بعد آخرکار جن کا ہم سب کو انتظار تھا وہ آہی گئے، اور کیا شاندار استقبال ہوا۔ آگے آگے دس بارہ سالہ بچے جماعت اسلامی کے جھنڈے اور بینر اٹھائے ہوئے، جن میں جماعت اسلامی کے منشور کے کچھ سلوگنز جیسے معاشی ترقی، زرمبادلہ میں اضافہ، غیر سودی مضبوط معیشت لکھے ہوئے تھے، اور سبھی کے جھرمٹ میں حافظ نعیم الرحمن صاحب تشریف لائے، ان کے ساتھ ضلع وسطی سے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار بھی آئے۔ سب نے مختصراً اپنا تعارف پیش کیا اور سید وجیہ حسن نے کراچی کا نعرہ بتایا کہ اس بار حافظ نعیم الرحمن کا وعدہ ’’کراچی کا نشان ترازو، جیت کا نشان ترازو‘‘۔

حافظ نعیم الرحمن صاحب نے بتایا کہ انتخابات کے حوالے سے اہم رابطہ مہم ہے، عوام میں شعور رابطوں کی وجہ سے بحال ہوا ہے اور اس میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی انتھک محنت شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن مہم صرف انتخاب میں کامیابی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دعوتِ اسلام، جدوجہد اور استقامت کے ساتھ غلبۂ دین کے لیے ہماری تمام تر کوششیں ہیں۔ ہمارا اصل مقصد لوگوں کے دماغ اور پھر دل بدلنا ہے۔ اس پر مولانا موودیؒ کا قول انہوں نے بتایا کہ ’’جب انقلاب ایک گولی سے آتا ہے تو دوسری گولی سے چلا بھی جاتا ہے‘‘۔ اس لیے لوگوں میں سمجھ اور شعور اجاگرکرنا ہماری اصل کامیابی ہے۔

بعدازاں تمام خواتین اسٹالزکی طرف شاپنگ کرنے اورکھانے پینے کے لیے روانہ ہوگئیں، اور ہم نے بچوں سمیت گھر کی راہ لی اس جذبے کے ساتھ کہ 8 فروری کو اِن شاء اللہ صرف ترازو پر مہر لگانی ہے۔

حصہ