پربت کی رانی کا انجام قسط12

227

ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ان تینوں کو اس وادی سے کافی فاصلے پر اتار دیا گیا۔ وادی کے چاروں جانب کیونکہ جنگل تھا اور جنگل میں محکمہ جنگلات کے اہل کار ہیلی کوآپٹر کے ذریعے بھی آیا جایا کرتے تھے اس لیے ان کے وہاں بھیجے جانے پر شاید ہی کسی کو شک گزر سکتا تھا۔ گوکہ کسی بھی مہم پر اس طرح جانا جمال اور کمال کے لیے پہلا تجربہ تھا اس لیے کچھ نہ کچھ وسوسوں کا دل میں جنم لینا ایک فطری عمل تھا لیکن وہ پھر بھی فاطمہ کی طرح زیادہ پریشان نظر نہیں آ رہے تھے کیونکہ وہ اس سے قبل کافی مہمات میں عملاً شریک رہے تھے۔ فاطمہ کے لیے کیونکہ کسی بھی مہم میں شریک ہونے کا پہلا اتفاق تھا اور وہ تھی بھی لڑکی، اس لیے کچھ زیادہ مضطرب تھی لیکن ان علامتوں کو خوف یا ڈر کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ جمال اور کمال سے اس کی کیفیت ڈھکی چھپی نہیں تھی اس لیے وہ اسے ماضی کے واقعات، خصوصاً پربت کی رانی کی گزشتہ مہم کے بارے میں مسلسل آگاہ کئے جا رہے تھے جس کی وجہ سے فاطمہ اپنی حالت پر کافی حد تک قابو پاتی جا رہی تھی۔ جمال اور کمال سوچ رہے تھے کہ جب ہیلی کاپٹر ہی سے یہاں تک آنا تھا تو پھر براہِ راست اس وادی میں کیوں نہیں لے جایا جا رہا جہاں ہیلی کوآپٹر سے اترنے کے بعد ان کو جانا تھا۔ شاید ان کی اس بات کو پائلٹ اور کو پائلٹ سن رہے تھے جس پر کو پائلٹ نے جواب دیا کہ محکمہ جنگلات کا کبھی کوئی ہیلی کوآپٹر وادی کی بستی میں نہیں اترا۔ اگر وہاں کے بڑوں سے ملنا بھی ہوا تو وہاں کے بڑے کو جنگل میں بنے ہیلی پیڈ پر بلا لیا جاتا تھا یا پھر جیپوں کے ذریعے از خود وہاں جایا جاتا تھا۔ ممکن ہے کہ سیدھے وادی میں اترنے پر کسی کو کوئی تشویش ہوجائے اور وہ تشویش کسی پریشانی کا باعث بنے، اس لیے احتیاط کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ آپ کو اسی طرح معمول کے مطابق ہیلی پیڈ پر ہی اتارا جائے۔ کو پائلٹ کے منہ سے یہ جواب سن کر تینوں نے فائل ہونے والے انداز میں گردن ہلائی۔ جمال نے بیچ میں بولتے ہوئے ایک سوال اور کرنے کی اجازت چاہی، اس نے کہا کہ جب آپ ہم تینوں کو اتار کر واپس جارہے ہونگے، تب بھی تو دشمنوں کو تشویش ہو سکتی ہے۔ اگر وہ باخبر ہیں تو، کہ ہیلی کوآپٹر تین بچوں کو یہاں چھوڑ کر خالی کیوں گیا۔ جمال کی یہ بات سن کر کو پائلٹ مسکرایا اور کہا کہ مجھے توقع تھی کہ آپ لوگ یہ سوال ضرور کرو گے۔ آپ لوگوں کے متعلق جو کچھ ہمیں بتایا گیا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم میں یہ ضرور سوچ رہا تھا کہ آپ کی جانب سے یہ سوال ضرور اٹھایا جائے گا۔ بہت خوب۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہاں سے ہم بالکل آپ کی عمر اور قد و کاٹھ کے مطابق دو لڑکے اور ایک لڑکی اپنے ساتھ واپس لائیں گے اور جب آپ اپنی مہم سے واپس آئیں گے تو ہم ان بچوں کو ہمراہ لیکر آئیں گے اور آپ کو واپس لے آئیں گے۔
ہیلی کاپٹر لینڈ کر چکا تھا۔ ایک بڑی سی جیپ ہیلی پیڈ کے قریب ہی کھڑی تھی جس پر ان کا ذاتی و سرکاری سامان بار کردیا گیا تھا۔ وہ جیپ ان کو کچھ فاصلے پر بنی ایک چھوٹی سے مگر خوبصورت عمارت میں لے گئی تھی جس کی پارکنگ ایریا میں اور بھی کئی جیپیں گھڑی تھیں۔ ایک ہال نما کمرے میں وادی کے کچھ بڑے موجود تھے جن کے ساتھ ان تینوں کی عمر اور قد کاٹھ کے دو بچے اور ایک بچی موجود تھے۔ ان سب نے ان استقبال کیا۔ وہ تینوں بچے ان تینوں سے گلے ملے۔ مشروبات پیش کئے گئے۔ عمائدین نے ان تینوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور تھوڑی دیر بعد ہال میں موجود تینوں بچے ان کو لائی ہوئی جیپ میں بیٹھ کر ہیلی پیڈ کی جانب روانہ ہوگئے اور اس کے پرواز کرنے کے تھوڑی دیر بعد عمائدین ان تینوں کو لیکر وادی کی جانب روانہ ہو گئے۔
وادی قدرت کے حسین مناظر میں سے ایک تھی، ہر جانب اونچے اونچے پہاڑ اور چشمے بہتے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سب دل فریب مناظر اپنی جگہ لیکن ظاہر ہے کہ جمال، کمال اور فاطمہ صرف ان مناظر سے تو لطف امدوز ہونے نہیں آئے تھے اسی لیے ان کے پیش نظر وہ مہم تھی جس کے لیے انھیں یہاں بھیجا گیا تھا۔
عام آبادی سے ذرا ہٹ کر انھیں ایک چھوٹی سی مگر بہت خوبصورت عمارت میں بھیج دیا گیا تھا جہاں صرف یہ تینوں ہی تھے البتہ طلب کرنے پر وہ کسی کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا سکتے تھے، یہ عمارت کافی بلندی پر تھی اور یہاں سے ہر جانب کا جائزہ لیا جا سکتا تھا۔ یہ تینوں جس موسم میں یہاں آئے تھے اس کو وادی والے خوشگوار موسم کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس موسم کے یہی دو ڈھائی ماہ ہی ایسے تھے جس میں نہ تو برف باری ہوا کرتی تھی اور نہ ہی شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا البتہ اکثر بادل چھا جایا کرتے، پھوار پڑ جاتی یا ہلکی بارش ہو جایا کرتی تھی وہ بھی بہت مختصر وقت کے لیے۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جمال، کمال اور فاطمہ نے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ کر ایک بڑا سارا نقشہ نکال کر پھیلا دیا۔ اس نقشے کے مطابق یہاں سے پربت کا راستہ شمال مشرق کی جانب کوئی 10 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا لیکن یہ زمینی راستہ تھا جبکہ ایریا ڈسٹنس زیادہ سے زیادہ 5 کلو میٹر تھا۔ یہ 5 کلو میٹر کا راستہ بہر لحاظ ناقابلِ عبور تھا جبکہ پختہ راستے سے وہاں تک جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا البتہ ایک کچا راستہ اور بھی تھا جہاں سے اس وادی کے لوگ چند سال قبل تک پربت تک آیا جایا کرتے تھے لیکن جب سے وہاں پربت کی رانی نے ڈیرہ ڈالا ہے وہ راستہ بند ہو چکا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کسی زبردست سلائیڈنگ کی وجہ سے اس جگہ ایک پورا پہاڑی تودہ آن گرا ہو جس کی زد میں کئی گھر اور ان کی رہائشی آ گئے تھے لیکن اب اعلیٰ حکام کا خیال ہے کہ یہ سلائیڈنگ ممکن ہے قدرتی نہیں ہو بلکہ پربت کی رانی کی کوئی تخریب کاری کا نتیجہ ہو۔(جاری ہے)

حصہ