احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مرجاتی ہے

445

احساس افراد اور قوموں کے ضمیر یعنی باطن کو زندہ رکھتا ہے اور حق گوئی اور بے باکی پر آمادہ کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

احساسِ زیاں ہو یا احساسِ ظلم ، احساسِ عزت و آبرو ہو یا دین دشمنوں کی ریشہ دوانیاں یا احساسِ شکست… جب یہ بدرجۂ اتم فرد اور قوموں میں موجود ہوتا ہے تو وہ پھر نفع اور نقصان سے ماورا ہوکر میدان کارِزار میں کود پڑتے ہیں۔ دراصل یہ احساس ہی زندگی ہے۔

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مُردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

احساس کی موت غلامی اور بے غیرتی کے دروازے کھول دیتی ہے اور پھر قوم پانی پت کا میدان بن جاتی ہے جس کو جو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے روندتا رہتا ہے۔ فاتح قومیں سب سے پہلے شکست خوردہ اور بے غیرت قوم کی عورتوں کی آبرو ریزی کرتی ہیں، پھر مال و اسباب لوٹ کر غلام بناتی ہیں۔ جب غیرت مر جاتی ہے تو انسان بزدل ہو جاتا ہے اور وہ ادنیٰ سے ادنیٰ دشمن کے خلاف بھی مزاحمت نہیں کر سکتا۔ موت سے خوف زدہ ہوتا ہے اور مال و متاع لٹ جانے کا خطرہ اس پر منڈلاتارہتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا کی دیگر قومیں تم کو دستر خوان پر رکھے کھانوں کی طرح چن لیں گی۔‘‘ صحابہؓ نے پوچھا ’’کیا اُس وقت ہماری تعداد کم ہوگی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں تم سمندر کے جھاگ کے برابر ہوگے مگر تم کو وہن لگ جائے گا۔‘‘صحابہ کرامؓ نے پوچھا ’’یہ وہن کیا ہوتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم دنیا سے محبت کرو گے اور موت سے ڈرو گے۔‘‘

یہ دونوں کیفیات بے حس اور بے غیرت فرد اور قوم میں پائی جاتی ہیں۔

آپؐنے فرمایا ’’شیطان تمہیں بھوک اور موت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور عریانی کی طرف بلاتا ہے۔‘‘

مجموعی طور پر بے حسی اور بے غیرتی عالم اسلام پر گزشتہ کئی صدیوں سے طاری
ہے۔ آج کا شیطان عالمی طاغوت ہے۔ یہ یہود ونصاریٰ اور اہلِ ہنود کا اتحادِ خبیثہ ہے جو شرق تا غرب عالمِ اسلام کی عزت و آبرو سے کھیل رہا ہے اور مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے۔

جب ہم مسلمانوں کے قرونِ اولیٰ کے دور کا جائزہ لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ مسلمان اپنی عزت و وقار، آزادی، حرمت ِرسولؐ کے بارے میں اتنے حساس اور غیرت مند تھے کہ کافر اور مشرک‘ مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرتے تھے۔ مدینہ کے ابتدائی دور میں جب ایک یہودی نے رات کے اندھیرے میں ایک مسلم خاتون کو چھیڑنے کی جرأت کی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس کا سر قلم کردیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروقؓ کا کوئی محاسبہ نہیں کیا۔

جب روم کے بازار میں ایک عیسائی نے ایک مسلمان خاتون کو تھپڑ مارا تو روم پر حملہ ہو گیا۔ جب راجا داہر کی جیل سے ایک مظلوم بہن کا خط حجاج بن یوسف کو موصول ہوا تو محمد بن قاسم کا لشکر چڑھ دوڑا اور دیبل تباہ ہوا اور سندھ ’’بابل الاسلام‘‘ بن گیا۔ لیکن جب مسلمان عیش و عشرت میں مبتلا ہوئے اور دنیا کے طالب ہوئے تو چنگیز خان کے لشکر اور بعد میں ہلاکو نے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مگر آج قوم کی بیٹی، حافظِ قرآن اور سائنسی علوم میں درجنوں بین الاقوامی انعامات حاصل کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فوجی سربراہ پرویزمشرف نے امریکا کے ہاتھوں بیچ دیا اور پوری مسلم دنیا بالعموم اور پاکستانی فوج و قوم بالخصوص اس مظلوم بیٹی کی آہ و بکا پر خاموشی کا زہر پی کر بیٹھی ہے۔

بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے

پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے

علامہ اقبال نے ’’بانگ ِ درا‘‘ میں عبدالقادر روہیلہ کے مظالم کا ذکر نظم کی صورت میں کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ روہیلہ نے مغل بادشاہ کی آنکھیں نکال کر اس کے حرم کی خواتین کو رقص کرنے کو کہا، مگر انہوں نے جب انکار کیا تو اس نے اپنا خنجر تخت پر رکھ کر سونے کا بہانا کیا اور کسی بھی عورت نے اُس کو مارنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نظم کا آخری شعر یہ ہے:

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

اسی طرح کا ایک واقعہ ہلاکو سے بھی منسوب ہے کہ بغداد کو پامال کرنے کے بعد اس نے بھی موقع دیا، مگر جب خواتین نے اس کو کچھ نہیں کہا تو اس نے یہ کہتے ہوئے سب کو قتل کروا دیا کہ ان سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ بھی بے غیرت ہوگا۔

پوری عرب دنیا آج اسرائیل کے مظالم کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے صحن میں بیٹیوں کی ردائیں اسرائیلی درندے تار تار کرتے ہیں مگر یہ بے غیرت، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔

قربان جایئے حماس اور غزہ کے غیور مسلمانوں پر کہ وہ ہزاروں جانیں قربان کرکے اسرائیل کو شکست سے دو چار کرکے پوری مسلم دنیا کا قرض ادا کر رہے ہیں۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

کے مصداق عالمِ ِ اسلام کے حکمرانوں پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے، کم ہے۔ پوپ اربن کے اعلان کے بعد آج ہزار سالوں سے صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری ہے۔اورنگ زیب عالمگیر کے بعد مغل بادشاہوں کی عیاشی نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور انگریزوں کی حکمرانی قائم ہوئی۔ طویل جدوجہد اور قربانی کے بعد پاکستان بنا، مگر مسلمانوں کی بڑی اکثریت ہندوستان میں رہی جو مسلسل ہندوتوا کے شدت پسند عَلم برداروں کے ظلم کا شکار ہے۔ اب تک بڑے چھوٹے مسلم کُش فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کا بے دردی سے قتلِ عام کیا گیا، ان کی بستیاں اجاڑی گئیں، املاک تباہ و برباد کی گئیں، عزت و آبرو پامال ہو رہی ہے۔ مسلمان نام سے نفرت کی ایسی ہوا چل رہی ہے کہ مسلمانوں سے منسوب ہر علامت کو مٹایا جا رہا ہے۔ بابری مسجد عدلیہ اور مودی سرکار کی ملی بھگت سے جب شہید کی گئی تو لال کرشن ایڈوانی نے کہا ’’ہم نے سومنات کا بدلہ لے لیا۔‘‘ 1971ء میں مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا تو اندرا گاندھی نے تقریر میں کہا کہ ’’ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا اور ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔‘‘ یہ ہندو قوم پرستی کا احساس تھا۔

مگر ہائے رے بے حسی کہ نہ ہم کو 1947ء کے فسادات میں لال قلعہ کے برجوں سے برہنہ اچھالی گئی بیٹیاں اور بہنیں یاد ہیں، نہ ہی اپنی آبرو بچانے کے لیے پٹنہ کے اندھے کنویں میں کود کر جان دینے والی بچیاں یاد ہیں، نہ ہی مشرقی پنجاب میں ہزاروں رضیہ جو رنجیتا کور بنا دی گئیں، وہ یاد ہیں۔ میرٹھ، گجرات، بھیونڈی، مالے گاؤں کلکتہ کی اجڑی بستیاں اور جلے ہوئے مکانات اور نہ ہی چیختی چلاّتی بیٹیاں اور معصوم بچے یاد ہیں۔ یاد ہے تو کون بریلوی، کون دیو بندی، کون شیعہ سنی یاد ہے۔

نہ جانے کتنی ذاتوں مسلکوں فرقوں گروہوں میں
یہ اپنی وضع میں بے حیا بے زار ہے آقا
بھلا کر نصِ قرآنی یہودی و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقا
مسلماں آج بھی دنیا میں بے پندار ہے آقا
ذلیل و خوار ہے مست مئے اغیار ہے آقا

پاکستان جس کو مملکتِ خداداد پاکستان بننا تھا آج اس کی شناخت ایک بھکاری کی ہے۔ 76 سال سے کشمیری لاکھوں جانوں کی قربانی اس لیے دے رہے تھے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ مگر آج ان کا بھی سودا ہوگیا جو ہندو انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ 1971ء کی شکست کا بدلہ کیا لیں گے کہ لاہور شاہی قلعہ میں راجا رنجیت سنگھ کا بڑا پورٹریٹ ہیرو آف پنجاب کے نام سے آویزاں ہے۔ جب انہوں نے ایک غیرت مند جانباز ایمل کاسی کو ڈالروں کے بدلے امریکا کے حوالے کیا تھا تو ایک امریکی وکیل نے کہا کہ ’’پاکستانیوں کو اتنے ڈالرز دینے کی کیا ضرورت تھی! یہ تو چند پیسوں میں اپنی ماں بہن بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں۔‘‘

تم ڈالر کی کھنکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی غیرت کو بیچ آئے ہو بازاروں میں

طوائفیں اور رقاصائیں درباروں کی زینت بنی بیٹھی ہیں تو خاک غیرت آئے گی!

احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے
یہ وہ موت ہے کہ جس کی خبر نہیں ہوتی

برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں تقریباً 75 کروڑ مسلمان آباد ہیں، بنگلہ دیش تو 1971ء کے بعد بھارت کی ایک طفلی ریاست ہے، ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمان گزشتہ 76 سال سے ہندوتوا کی جارحیت کا شکار ہیں اور اب اپنے اسلامی تشخص کو بچانے کے لے ناتواں سی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان پر NRC اور یکساں سول کوڈ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ بابری مسجد کے بعد بنارس اور ایودھیا کی مساجد نشانے پر ہیں۔ ’’گائو رکھشا‘‘ کے نام پر اجتماعی تشدد اور ہلاکتیں عام ہیں۔ کشمیر کے مسلمان اب اپنی خصوصی شناخت سے محروم کردیے گئے ہیں اور فلسطین کی طرح ان کی آبادی کو بھی اقلیت میں بدلنے کا سلسلہ جاری ہے، اور مسلمانانِ ہند آپس میں مسلکی چپقلش کا شکار ہیں۔ جنوبی اور شمالی ہندوستان کے مسلمان ایک دوسرے کے مسائل سے لاتعلق ہیں۔

پاکستان جو عالم اسلام کے مسلمانوں کی پشت پناہی کے لیے بنا تھا، ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امریکا اور I.M.F کا غلام اور بھکاری بنا ہوا ہے اور دنیا کے مسلمانوں کے مسائل سے بالکل لاتعلق ہوچکا ہے۔ اسلامی تنظیم میں شامل 57 ممالک عالمی جارحیت اور اسرائیلی درندگی کے سامنے بے بس ہیں اور درپردہ اسرائیل کے حامی و بہی خواہ ہیں۔ مغربی تہذیب کی یلغار کی مزاحمت کرنے کے بجائے وہ اس کو اپناتے جارہے ہیں۔ جس جزیرۃ العرب سے بتوں کو نکال دیا گیا تھا اب دبئی میں مندر کے افتتاح کے بعد بت داخل ہوچکا ہے، حرمین کا تقدس پامال ہونے جا رہا ہے۔

اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں۔سب کے ہونٹوں پر ہے یہ صدا :اب یہ میت اٹھائے گا کون!

مختصر یہ کہ پوری اسلامی دنیا طاغوتی طاقتوں کے سامنے بے بس ہے۔مگر زندگی کا پیغام تو یہ ہے:

اے دلِ زندہ کہیں تُو نہ مر جائے
یہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے

جوش ملیح آبادی نے کیا ہی غیرت بھرا پیغام دیا ہے:

زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو
دورِ حق ہو تو نسیم بوستاں بن کر رہو
عہدِ باطل ہو تو تیغِ بے اماں بن کر رہو
دوستوں کے پاس جاؤ نور پھیلاتے ہوئے
دشمنوں کی صف سے گزرو آگ برساتے ہوئے
دورِ محکومی میں راحت کفر، عشرت ہے حرام
مہوشوں کی چاہ، ساقی کی محبت ہے حرام
علم ناجائز ہے دستارِ فضیلت ہے حرام
انتہا یہ ہے غلاموں کی عبادت ہے حرام
کوئے ذلت میں ٹھہرنا کیا گزرنا بھی حرام
صرف جینا ہی نہیں اس طرح مرنا بھی حرام

حصہ