سوشل میڈیا پر الیکشن کی گرما گرمی

328

غزہ کو مت بھولیں:
اب رہ کیا گیا ہے بتانے کو! غزہ سے آنے والی وڈیوز و مواد نے مزید بے حس کردیا ہے، ظلم کی کون سی شکل ہے جو نظر نہیں آرہی! کل ہاتھ بندھی سو لاشیں دیکھی نہ گئیں۔ بھوک و قحط سے مجبورغزہ کے مسلمان بھائیوں کو جانوروں کا چارہ و دانہ کھاتے دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی۔ اب تو ٹوئٹر پر ٹرینڈنگ بھی نہیں ہورہی، کرب و بلا کی عجب داستان ہے یہ غزہ۔ 7 اکتوبر کے طوفان کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس سے پہلے 300 فلسطینیوں پر ایک یہودی مارا جاتا تھا، اب ہر 5 فلسطینیوں پر ایک یہودی مرنے لگا ہے، یہ ہے وہ عظیم مزاحمت جس کے پیچھے صبر و استقامت کی عظیم مثالیں کھڑی ہیں۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب اپنی سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے… جان، مال، اولاد، والدین، سب کچھ تو قربان کرچکے۔

امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ تو اسرائیل کی مدد کو آگئے کیونکہ وہ اُس کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر مسلم ممالک کا حال سب کے سامنے ہے۔ ترکی کو دیکھ لیں، اب تو اس نے بڑھکیں مارنا بھی چھوڑ دی ہیں کیونکہ وہ اپنے چکروں میں لگا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ سرد موسم، برسات اور قحط کی صورتِ حال اہلِ غزہ کیسے و کیونکر برداشت کررہے ہیں۔ کوئی قرارداد، کسی عالمی یا لوکل عدالت کا فیصلہ اسرائیل و امریکا کو نہیں روک پارہا۔

اسرائیلی فوجی 120 دنوں میں اپنا ایک قیدی بھی واپس نہیں لاسکے، بس یہی شرمناک شکست ان کو مسلم نسل کُشی پر مجبور کررہی ہے۔ عرب ممالک سے آنے والی خبریں بھی دلدوز ہیں۔ بہرحال ہم نہیں بھولیں گے۔ ہم کمزور ہیں، شرمندہ ہیں، کوئی ہمارے لیے بھی نہیں آئے گا ہم جانتے ہیں، مگر اے قبلۂ اوّل ترا معاملہ الگ ہے۔

بھارت پھیل رہا ہے:
ایک ملک کی 1.42ارب آبادی اپنا وزن رکھتی ہے، اس میں 47کروڑ لوگ اگر سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہوں تو یہ بھی خاصا وزن ہے۔ یہ تعداد امریکا کے 30کروڑ استعمال کنندگان سے بھی زیادہ ہے جہاں یہ سارا سوشل میڈیا پیدا ہوا۔ اس سوشل میڈیا کی اٹینشن اکانومی نے 2022ء میں تقریباً ایک ارب ڈالر آمدن کا تخمینہ لگایا تھا۔ یہی نہیں، وہاں سائبر جرائم کی شرح بھی ایسی ہی ہے، ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 2021ء سے دسمبر 2023ء تک 10319کروڑ روپے کے سائبر فراڈ ہوئے۔ بہرحال یہ ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع ’گیانواپی‘ کا ٹرینڈ ہے جو منگل اور بدھ کو لسٹ میں نمودار ہوا۔

اس ٹرینڈ سے بھارتی عدالتوں کا ہندوتوا کا بدترین چہرہ دیکھنے کو ملا کہ بھارت کی ایک عدالت نے مسجد میں بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ ہندوئوں کی جانب سے پچھلے ہفتے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا جشن تمام عملی مظاہر کے ساتھ طاری تھا۔ اِس ہفتے یہ حیران کن عدالتی فیصلہ آگیا۔

وارانسی شہر کی ایک عدالت نے ’’گیانواپی مسجد‘‘کے دیرینہ تنازعے میں ہندو فریق کو عجیب فیصلہ دے کر فتح دلادی۔فیصلے کے مطابق ہندوئوں کو مسجد کمپلیکس کے تہہ خانے میں بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تہہ خانہ جسے ’واس کا ٹیکانہ‘ کہا جاتا ہے، ہندوئوں کے خیال میں وہاں شرنگر گوری اور دیگر دیوتائوں کی مورتیاں موجود ہیں۔ عدالت نے مقامی انتظامیہ کو بھی حکم دیا کہ 355 سال سے قائم اس تاریخی مسجد کے اس حصے میں پوجا کے لیے باقاعدہ انتظامات کیے جائیں، تمام رکاوٹیں ہٹانے سمیت دیگر انتظامات ایک ہفتے میں مکمل کیے جائیں اور مسجد سے ملحق کاشی وشواناتھ مندر کے پنڈتوں سے مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کروائی جائے۔

وارانسی میں تاریخی حیثیت کی حامل ’’گیانواپی مسجد‘‘کو عدالتی حکم پر سیل کیا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے ایک ہندو پنڈت کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ یہاں کے موروثی پجاری ہونے کے ناتے اور یہاں مقیم ہونے کی بنیاد پر تہہ خانے میں عبادت کے لیے رسائی دی جائے۔ مسجد کے تہہ خانے کے اندر چار میں سے ایک حصہ ہندو پنڈت خاندان کے پاس ہے، جو یہاں کے موروثی پجاری اور مقیم ہیں۔ وہ 1993ء تک اس حصے میں پوجا کرنے آتے رہے تھے، تاہم پھر یہ حصہ سیل کردیا گیا تھا۔

2 سال قبل اسی مسجد کے وضو خانے سے ایک قدیم فوارہ ملنے پر انتہا پسندوں نے طوفان مچایا تھا کہ یہ ان کا مقدس شیولنگ ہے جس سے مسجد کے مندر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ جس جگہ سے یہ خودساختہ شیولنگ ملا تھا وہاں ہندوئوں نے داخل ہوکر پوجا پاٹھ کی کوشش بھی کی تھی اور معاملہ عدالت تک پہنچا، جس پر 2022ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر وضو خانے کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔ بابری مسجد کے بعد سے متعصب ہندو سرکاری پشت پناہی سے مساجد کو ختم کرنے کی مستقل بھونڈی اور بھیانک کوششیں کررہے ہیں۔ مسلمان مذہبی طور سے اقلیت ہیں، اور اب جب ریاست مذہبی لبادہ اوڑھ رہی ہے تو وہاں کے کروڑوں مسلمانوں کی سانسیں بھی گھٹنا شروع ہورہی ہیں۔ اب ایسے میں زندگی کی قیمت پر سب کچھ قربان کرکے عمر الیاسی (چیف امام، آل انڈیا امام آرگنائزیشن) کی طرح سب مسلمان مندروں کے افتتاح میں شریک ہوجائیں یا پھر ’مزاحمت میں زندگی‘کا نعرۂ مستانہ بلند کریں۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں عمر الیاسی کی شرکت پر ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے خاصا شور اُٹھا۔ مزے دار بات یہ ہوئی کہ جواب میں عمر نے فتویٰ دینے والے اپنے ہی ملک کے علما کویہ کہا کہ ’’جسے زیادہ تکلیف ہو رہی ہے وہ پاکستان چلا جائے‘‘۔ اَب پاکستا ن کو بیچ میں ڈالنے کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہندوستان میں اسلام پر عمل نہیں ہو سکتا ،اس کے لیے پاکستان جانا ہوگا۔ مگر پاکستان میںکیا ہورہا ہے یہ بھی ایک نظردیکھ لیں۔

’’چنو نئی سوچ‘‘:
پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلی مرتبہ ایسے الیکشن پوسٹردیکھنے کوملے جن میں صرف پارٹی چیئرمین کی تصویر تھی۔وگرنہ پہلے کم از کم 4-6چہروںکی موجودگی میںیہ بوجھنا مشکل ہوجاتاتھاکہ وہ کہناکیا چاہ رہے ہیں۔ڈیجیٹل کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی ایسے ہی اشتہار دیکھنے کو ملے۔اب پیپلز پارٹی بھی اپنے ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ بنا لیتی ہے۔ اس ٹرینڈ میں اپنے الیکشن منشور کے ساتھ نئی برانڈنگ بھی کی گئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری کی صورت 4 بار ملک کا اقتدار مل چکا ہے۔ اب اُن کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اقتدار کی لائن میں کھڑے ہوچکے ہیں۔ کم عمر ی میں وزارتِ خارجہ چلانے کا تجربہ بہرحال اہمیت کا حامل ہے۔ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کے چرچے سبھی کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کا منشور اپنے دعوے اور وعدے کے مطابق ہی بنایا گیا ہے۔ مجھے جو باتیں ان کے منشور میں اہم لگیں وہ ضرور بتانا چاہوںگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے صاف الفاظ میں ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ’’پاکستان کو سیکولر ڈیموکریسی‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے اُن کے منشور میں ایک بار بھی لفظ ’اللہ‘، حتیٰ کہ ’’اِن شاء اللہ‘‘ بھی نہیں لکھا ہوا۔ ہاں سیکولرازم کے نمائندہ خدا بنام ’ہیومن‘ کا ذکر 49 مرتبہ ہے۔ ویسے تو پاکستان میں لوگ سیاسی جماعتوں کا منشور کبھی پڑھتے ہی نہیں ہیں، لیکن یہ دستاویز ہر جگہ قانونی طور پر چیلنج کی جا سکتی ہے۔ الیکشن 2024ء کے لیے پیپلز پارٹی کے منشور سے صرف چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں:

1۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں صاف طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ’’سوشل اور عوامی ڈیموکریسی‘‘ بنانا چاہتے ہیں(صفحہ 5)۔ اس کا ترجمہ ’لادین جمہوریت‘ ہی کہلائے گا، کیونکہ یہاں صاف طور سے فیصلوں میں اللہ کو یا دین کو نکال کر صرف عوام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

2۔ منشور کے صفحہ 21 پر صاف لکھا ہے کہ فیملی پلاننگ کے لیے میل ویسیکٹامی کی سروس کو پھیلایا جائے گا۔ یعنی آبادی کم کرنے کے لیے مردوں کی نس بندی مہم چلائی جائے گی۔ سادہ الفاظ میں مرد کو خصی کرنا اُن کے منشور کا حصہ ہے۔ یہی نہیں، مسلمانوں کی نسل کو کم سے کم کرنے کے لیے خاصے اقدامات کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس میں مخصوص مانع حمل ادویہ کا استعمال عام کرنا بھی الگ شق کے طور پر شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ درآمد سے بچاتے ہوئے یہ ادویہ پاکستان میں ہی بنانے کا منصوبہ پی پی کے منشور کا حصہ ہے۔ یہ کیسی خوشحالی ہے جو ہم اپنی نسلوں کی قربانی دے کر حاصل کریں گے؟ کیا بلاول بھٹو کی ٹیم کو مانع حمل ادویہ اور مردوں کو خصی کرنے کے بدترین سائیڈ ایفیکٹس کسی نے نہیں بتائے؟ اتنی تعلیم کے بعد بھی یہ سادہ سی بات ہمیں بتانی پڑے گی؟

3۔ صفحہ 32 پر لکھا ہے کہ ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کرنے والے قانون ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کو نافذ رکھا جائے گا۔ نظر یہ آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی، فحاشی اورجنسی آزادی کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے اور اللہ سے جنگ کرنے کے لیے معاذ اللہ تیار بھی ہے۔

4۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اس لیے اس کے آئین میں لکھا ہے کہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف وغیرہ جیسے اہم عہدوں پر کوئی غیر مسلم تعینات نہیں ہوسکتا، لیکن پیپلز پارٹی چونکہ پاکستان کو ایک لادین ملک بنانے کی جدوجہد کررہی ہے اس لیے اپنے منشور کے صفحہ نمبر 33 پر صاف لکھا ہے کہ آئین میں موجود اس شق کو ختم کیا جانا چاہیے۔ بلکہ بلاول زرداری نے میڈیا پر بھی کھل کر یہ بات کی تھی۔ یعنی صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف اب غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ اس ارادے کے ذریعے قادیانیوںکے لیے عہدوں پر آنے کا راستہ بھی نکالا جارہا ہے۔

5۔ ناموسِ رسالت کے قانون کو غیر مؤثر کرنا بھی پیپلز پارٹی کا مشن ہے۔ یہ صفحہ نمبر 30 پر لکھا ہے۔ ’’ناموسِ رسالت کے قانون کاmisuse ختم کرنے کے لیے ہیومن رائٹس کی روشنی میں قانون سازی کرے گی‘‘۔ ہالینڈ، سوئیڈن اور فرانس میں جتنی گستاخیاں کی جاتی ہیں وہ سب اِسی فریڈم کے نام پر ہوتی ہیں اور ہیومن رائٹس مانی جاتی ہیں۔ جب ہیومن رائٹس کی روشنی میں قانون سازی کی جائے گی تو ظاہر ہے کہ کوئی گستاخ قرار ہی کب پائے گا! اس طرح ناموسِ رسالت کا قانون بے اثر کردیا جائے گا۔ ویسے تو 64 پیج کا پورا منشور ہی خلاف ِ اسلام ہے، لیکن کیا یہ چند باتیں کافی نہیں ہیں؟

ان کو ووٹ دینا ان سب باتوں کی حمایت کرنا ہے، یعنی اس مشن میں آپ ان کے ساتھ ہیں۔ کیا آپ اللہ اور دین کے دشمنوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں؟

الیکشن کی گہماگہمی:
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی، پھراگلے دن عمران خان اور ان کی اہلیہ کو تحائف کرپشن کیس میں 14 سال قید کی سزا سنادی گئی۔ یہ پاکستان کے پانچویں وزیراعظم ہیں جنہیں کسی عدالتی سزا سے گزرنا پڑا ہے۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد الیکشن سے منتخب ہونے والے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو جب پاکستان کی وزیراعظم بنیں تو اُن پر کرپشن کے مقدمات چلے، 2 بار تو حکومت ختم کی گئی، ایک سوئس عدالت نے منی لانڈرنگ کے جرم میں سزا بھی دی۔ یوسف رضاگیلانی کو بطور وزیراعظم عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی سزا بھگتنی پڑی جو صرف 30 سیکنڈ کی تھی مگر اُن کی وزارتِ عظمیٰ اس جرم پر چلی گئی۔ میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے سزا سنائی گئی تھی جو حالیہ دنوں ختم کردی گئی۔ اب عمران خان کو ایک کیس میں 10سال اور دوسرے کیس میں 14سال قیدکی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ تو وزیراعظم تھے، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اور بااختیار فوجی حکمران، جنرل پرویزمشرف کو بھی پاکستانی عدالت سے غداری کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سزاؤں کی ترتیب عدل و انصاف کی اعلیٰ مثال قرار نہیں دی جاتی۔ یہ جمہوریت کے خطرناک نظام کا ایک شاخسانہ ہے جو مستقل ایکسپوز ہورہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا عوام مستقل ایسے خراب لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو اعلیٰ عہدہ پاکر ایسا کام کرتے ہیں؟

حصہ