آخر شب کے ہم سفر قسط:07

282

’’پھر کیا ہوا…؟‘‘ ادما نے جو اب بڑے غور سے یہ داستان سن رہی تھیں، سوال کیا۔

’’تو بابا نے اس سے کہا کہ وہ ساری چیزیں بکسوں میں سے تلاش کرکے اس کے لئے نکال رکھیں گے اور اسے دو دن بعد آنے کے لئے کہا۔ اتنے میں میرے تینوں بھائی آگئے اور ایک عجیب سے مہمان کو اندر بیٹھا دیکھ کر کھڑکی میں سے جھانکنے لگے۔ تو فقیر نے یعنی نور الرحمن میاں نے مجھ سے کہا کہ میں دروازے بند کرکے کھڑکیوں کے پردے گرادوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اور بچوں کو بھگانے کے لئے باہر گئی۔ اتنی دیر میں نور الرحمن میاں… یعنی بائول فقیر بھی ایک تارہ بجاتا باہر آکر جھپاک سے پھاٹک پر پہنچ گیا۔ ہمارے برآمدے اور پھاٹک کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے… دو دن بعد وہ کاغذات اور تصویریں لینے کے لئے اسی وقت اندھیرا پڑے آیا۔ بابا کو کسی مریض کو دیکھنے کے لئے باہر جانا پڑ گیا تھا۔ اور وہ ساری چیزیں میرے حوالے کر گئے تھے۔ فقیر پھر بڑی بے تکلفی سے بیٹھک خانے میں آگیا۔ اور میں نے جلدی سے دروازے بند کرکے کھڑکیوں کے پردے گرا دیئے۔ صوفے پر بیٹھ کر وہ مجھے اس طرح دیکھتا رہا گویا بہت محظوظ ہو رہا ہو‘‘۔ اتنا قصہ سنا کر دیپالی پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’اس قدر ہنستی کیوں ہو؟‘‘ اُدما نے ناگواری سے کہا۔ وہ بھول چکی تھیں کہ اس عمر میں بات بے بات ہنسی کے فوارے چھوٹتے ہیں۔

’’سوری اُدما دی…‘‘

’’تم نے اتنے دُکھ اُٹھائے ہیں پھر بھی اتنی مسرور اور بشاش ہو‘‘۔ اُدما رائے کے لہجے میں رشک کی تلخی کے علاوہ بڑی عجیب سی آزردگی تھی جو دیپالی نے محسوس نہیں کی۔ وہ اپنی بشاشت پر نادم نظر آنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی۔

’’پھر کیا ہوا…‘‘ اُدما نے سختی سے پوچھا۔

’’بس پھر میں نے بابا کا دیا ہوا بڑا فائیل اس کے حوالے کردیا۔ اور وہ کہنے لگا کہ مجھے جو کچھ کاکا کے بارے میں یاد ہو اسے بتائوں۔ میں نے کاکا کا ذکر کیا تو ایک دم رونے لگی۔ وہ بہت گھبرا گیا۔ خیر پھر اس نے جلدی جلدی نوٹ لئے۔ اور اپنے رسالے میں میری دلچسپی دیکھ کر اس نے کہا کہ اگلے مہینے سے پرانا پلٹن کے فلاں مکان میں ایک اسٹڈی سرکل قائم ہورہا ہے میں اس میں ضرور جایا کروں۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے ایک بائول گیت سکھا دے۔ کیونکہ میں نے عباس دا سے بہت سے بائول گیت سیکھے ہیں۔ مگر یہ والا بائول جو وہ گارہا تھا میں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس نے کہا آج تو دیر ہوجائے گی۔ اگر میں اجازت دوں تو وہ کل شام کو اسی وقت آسکتا ہے۔ میں بے حد خوش ہوئی‘‘۔

’’چنانچہ وہ تیسرے روز بھی آیا‘‘۔ اُدما دیبی نے آنکھیں بند کرکے سپاٹ آواز میں کہا۔

’’جی ہاں اُدما دی۔ اور میں نے حسب معمول جلدی جلدی دروازے بند کئے اور پردے گرا دیئے۔ مجھے بڑی ہنسی آرہی تھی۔ اس نے مجھے بائول گیت سکھایا۔ اور مجھ سے بھی دو تین گانے سنے۔ اور کہنے لگا کہ وہ ریڈیو پر ہمیشہ جب موقعہ ملتا ہے تو میرے گانے ضرور سنتا ہے۔ بہت ہی سوئیٹ فقیر تھا اُدما دی۔ میرا مطلب ہے… فقیر نہیں… نورالرحمٰن میاں…‘‘

’’ہُوں…‘‘

’’بابا اتفاق سے اس روز بھی باہر گئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے مریض کی حالت خطرناک ہوچکی تھی۔ خیر جب وہ واپس آئے تو میں نے ان کو بتایا۔ وہ اچانک ایک دم اُداس ہوگئے اور کہنے لگے… دیپالی… اپنے عزیز ازجان بھائی کا بلیدان دے چکا ہوں۔ اب تم تو اس خطرناک راستے پر نہیں چلو گی؟ میں نے دل میں کہا۔ ماں (کالی) مجھے معاف کردینا۔ میں بابا سے جھوٹ بول رہی ہوں۔ اور میں نے بڑی صفائی سے جواب دیا کہ میں اس راستے پر ہرگز نہیں چلوں گی۔ وہ مطمئن ہوگئے۔

’’اس کے بعد نورالرحمن میاں ایک مرتبہ اور آئے تھے۔ رات کے وقت۔ یہ بتانے کے لئے وہ کہیں اور جارہے ہیں۔ انہوں نے جاتے جاتے مجھے ایک مرشدی گان اور ایک ودیا پتی کا گیت بھی سکھا دیا۔ جو میتھلی میں ہے۔

’’دیدی میں اگلے مہینے بابا کے ساتھ کلکتے جائوں گی اپنے گانے ریکارڈ کرنے۔ وہاں وہ مرشدی گان اور ودیا پتی کا گیت بھی ریکارڈ کروائوں گی۔ آپ کو سناتی مگر اب بہت دیر ہوجائے گی… او… ماں…دس بج گئے…؟‘‘

’’بہت خوب…‘‘ اُدما دیبی نے کچھ اور سوتے ہوئے بے دھیانی سے جواب دیا۔

’’مگر وہ رسالہ تو شائع ہوا نہیں اور نورالرحمن میاں بھی غائب ہوگئے۔ اس کے بعد میں پرانا پلٹن اسٹڈی سرکل میں جانے لگی۔ وہاں نور الرحمن میاں کبھی نظر نہیں آئے۔ مگر دوسرے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ میں بابا سے کہہ کر جاتی تھی کہ روزی کے گھر جارہی ہوں اور میں اور روزی سیدھے پہنچتے تھے پارٹی آفس۔ جب سے میں ہمدرد کی حیثیت سے تحریک میں ہوں۔ اور تھوڑا بہت کام جو مجھ سے بن پڑتا ہے، کرتی رہتی ہوں۔

’’پچھلے مہینے سریندر دا نے تشویش ناک خبر دی کہ اس غیر قانونی رسالے اور اس کے پریس پر چھاپہ مار کر پولیس نے سارے اسٹاک پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور ریحان دا اور ان کے ساتھی راتوں رات اپنے خفیہ مستقر سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے انہیں فوری دو ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ روپیہ فوراً فراہم کیا گیا۔ اس میں پانچ سو کی کمی پڑ رہی تھی… تو میں نے… میں نے اپنی ماں کی چھوڑی ہوئی بالوچر بوٹے دار ساریاں بکوا دیں۔ اب ریحان دا نے جانے کون سے گائوں میں جا کر نیا ہینڈ پریس لگالیا ہے اور کسانوں کی تنظیم کے لئے پرچے اور پمفلٹ چھاپ رہے ہیں۔ اب جا کر وہ کاکا والا نمبر بھی شائع ہوجائے گا۔ مگر دیدی مجھے تعجب تو یہی ہے کہ ریحان دا مجھ سے آج تک نہیں ملے۔ انہوں نے آپ کو یہ کیسے لکھا ہے کہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اور اتنا ذمہ داری کا کام آج میرے اوپر ڈال دیا۔ کمال ہے‘‘۔

اُدما نے بے حد اُکتاہٹ کے ساتھ ونڈو سیٹ پر نیم دراز ہو کر کروٹ بدلی۔ اور چند لخطوں تک خاموش رہنے کے بعد بیزاری سے کہا۔

’’دیپالی سرکار۔ تم ایک برس سے انڈر گرائونڈ کے لئے کام کررہی ہو اور تم کو یہ تک پتہ نہیں کہ انڈر گرائونڈ کے لیڈر طرح طرح کے بھیس بدلتے رہتے ہیں… وہ مسلمان بزرگ جنہوں نے تم سے خلوص بڑھایا‘‘۔ اُدما کی آواز پر اب شدید تکان غالب تھی…‘‘ ریحان الدین احمد تھے…‘‘

‘‘او…ماں…‘‘ دیپالی گم سم رہ گئی۔ چند لخطوں تک بالکل حواس باختہ رہنے کے بعد اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’لیکن انہوں نے تو اپنا نام نورالرحمن بتلایا تھا‘‘۔

’’اکثر کامریڈ، موقع پڑنے پر باری باری ایک فرضی نورالرحمن میاں، بنتے رہتے ہیں‘‘۔

’’اوماں…‘‘ دیپالی مزید کچھ نہ کہہ سکی۔ اسے لگا، جیسے اس کی بان گنگ ہوگئی ہو۔ اُدما نے کروٹ بدلی۔ بڑے دھیان سے اس کی صورت دیکھی اور خستگی سے انگڑائی لے کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔

اور دفعتاً کاروباری اور کرخت آواز میں پوچھا۔ ’’تم نے اپنی اس ہمراز سہیلی کا کیا نام بتایا جو تمہارے ساتھ تحریک میں شامل ہوگئی ہے؟‘‘

’’روزی بنرجی‘‘۔

’’قابل اعتماد ہے؟‘‘

’’بے حد قابل اعتماد… ریحان دا… اس کے متعلق جانتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے یہ اسکیم بنا کر آپ کو بھیجی ہے‘‘۔

’’ہُوں… اچھا آئینے کے سامنے جائو‘‘۔

دیپالی نے تعمیل حکم کی۔

اُدما رائے نے سرینہوڑاکر اس کے سراپا کا جائزہ لیا۔

’’اب اپنے میمن سنگھ کے دیہاتی لہجے میں بولو تو… میں شام کو تمہیں سب سمجھا چکی ہوں ریحان نے لکھا ہے کہ تم بہت بڑھیا ایکٹریس ہو۔ یہ مہم کامیابی سے سرکولو گی‘‘۔

وہ چپ رہی۔ کوئی تعجب نہیں کہ ’’بائول فقیر‘‘نے کسی اور بھیس میں جا کر اس کے کالج کے ڈرامے بھی دیکھ لئے ہوں۔ آئینے میں اس نے دیکھا کہ اس کا چہرہ سُرخ ہورہا ہے۔

’’کیا نام ہے…؟‘‘ اُدما رائے نے اسٹیج ڈائریکٹر کی طرح ڈپٹ کر دریافت کیا۔

’’جی…جی…ہم…؟ ہم کلثوم بی بی‘‘۔

’’کہاں سے آئی ہو…؟‘‘

’’جی… میمن سنگھ ضلعے سے…‘‘

’’سرٹیفکیٹ ہیں؟‘‘

’’جی نہیں… ہمارے خالو نواب صاحب بوگرہ کے خانساماں ہیں۔ انہوں نے بھیجا ہے‘‘۔

’’شاباش…! مگر نواب صاحب بوگرہ نہ کہہ دینا… آفت آجائے گا‘‘۔ اُدما رائے نے دفعتاً ہنس کر کہا۔

’’سوری… کچھ اور سوچ لوں گی۔ آگے پوچھئے‘‘۔

’’بس ٹھیک ہے۔ ریحان… نے غلط نہیں کہا…ہاں… اور برقعہ…؟‘‘

’’کل حاصل کرلوں گی… عبدالقادر کی بی بی سے…‘‘

’’عبدالقادر کون ہیں؟‘‘

’’گاڑی والا… ہمارا کوچوان نہیں۔ ہماری گاڑی تو کب کی ٹوٹ پھوٹ کے برابر ہوئی۔ بابا نے اسے ہمارا شاگرد پیشہ دے رکھا ہے۔ مجھے کہیں جانا ہو تو بڑے خیال سے لاتا لے جاتا ہے‘‘۔

’’جولی گڈ…فائن… اوہو… بہت رات ہوگئی۔ بابا سے کیا کہہ کر آئی تھیں؟‘‘

’’بابا روزی اور جہاں آرا کے گھر سے میرے دیر سے لوٹنے پر کچھ نہیں کہتے۔ اور ہمیشہ وہاں کا ملازم مجھے گھر پہنچا آتا ہے۔ ڈھاکے میں میری یہی دو عزیز سہیلیاں ہیں۔ اُدما دی… میں ان کے علاوہ اور کسی کے گھر نہیں جاتی‘‘۔

’’راکٹ…‘‘ادما نے برقی گھنٹی کا سوچ دبایا۔ ’’یہ بھی اچھا ہوا کہ یہاں سب لوگ اس وقت کلب گئے ہوئے ہیں‘‘۔ سیزر نے بند دروازے پر دستک دی۔ اُدما دیبی نے آگے بڑھ کر چٹخنی کھولی اور جھوک کر سیزز سے باتیں کرنے لگیں۔ بیرہ آیا۔ ’’ڈرائیور سے کہو… ٹھہرو… کون سی موٹر ہے؟‘‘

’’میم صاحب کی‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ