میزبانی کے آداب

306

-1 مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کیجیے اور نہایت خوش دلی، مسرت قلب اور عزت و اکرام کے ساتھ اس کا استقبال کیجیے۔ تنگ دلی، بے رخی، سرد مہری اور کڑھن کا اظہار ہرگز نہ کیجیے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جو لوگ اللہ اور یوم آخر پر یقین رکھتے ہیں انہیں اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیے‘‘ (بخاری، مسلم)

خاطر تواضع کرنے میں وہ ساری ہی باتیں داخل ہیں جو مہمان کے اعزاز و اکرام کے ساتھ بیٹھنے لیٹنے کا انتظام کرنا۔ اپنے معزز دوستوں سے تعارف اور ملاقات کرانا، اس کی ضروریات کا لحاظ، نہایت خوش دلی اور فراخی کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنا اور خود بنفس نفیس خاطر مدارت میں لگے رہنا یہ سب ہی باتیں ’’اکرام ضیف‘‘ میں داخل ہیں۔

’’نبیؐ کے پاس جب معزز مہمان آتے تو آپؐ خود بنفس نفیس ان کی خاطر داری فرماتے‘‘۔

جب آپؐ مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے: ’’اور کھایئے اور کھایئے‘‘۔ جب مہمان خوب آسودہ ہوجاتا اور انکار کرتا تب آپؐ اصرار سے باز رکتے۔

-2 مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اس سے سلام دعا کیجیے اور خیر و عافیت معلوم کیجیے۔ قرآن میں ہے:

’’کیا آپ کو ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیمؑ نے جواب میں سلام کیا‘‘۔

-3 دل کھول کر مہمان کی خاطر تواضع کیجیے اور جو اچھے سے اچھا میسر ہو مہمان کے سامنے فوراً پیش کیجیے۔ حضرت ابراہیمؑ کے مہمان جب آئے تو حضرت ابراہیمؑ فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظا میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا انہیں میسر تھا اسی کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا۔

قرآن میں ہے:
فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ(26)فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ

’’تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑا (ذبح کرکے بھنوا) لائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا‘‘۔

فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ کا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ چپکے سے گھر میں مہمانوں کی خاطر تواضح کرنے کا انتظام کرنے کے لئے چلے گئے اس لئے کہ مہمانوں کو دکھا کر اور جتا کر ان کے کھانے پینے اور خاطر تواضع کرنے کی دوڑ دھوپ ہوگی تو وہ شرم اور میزبان کی تکلیف کی وجہ سے منع کریں گے اور پسند نہ کریں گے کہ ان کی وجہ سے میزبان کسی غیر معمولی زحمت میں پڑے اور پھر میزبان کے لئے مواقع نہ ہوگا کہ وہ خاطر خواہ خاطرداری کرسکے۔

نبیؐ نے مہمان کی خاطرداری پر جس انداز سے ابھارا ہے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت ابوشریحؓ فرماتے ہیں:

’’میری ان دو آنکھوں نے دیکھا اور ان دو کانوں نے سنا جب کہ نبیؐ یہ ہدایت دے رہے تھے، جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، انہیں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنی چاہیے مہمان کے انعام کا موقع پہلا شب و روز ہے‘‘ (بخاری، مسلم)

پہلے شب و روز کی میزبانی کو انعام سے تعبیر کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح انعام دینے والا دل کی انتہائی خوشی اور محبت کے گہرے جذبات کے ساتھ انعام دیتے ہوئے روحانی سرور محسوس کرتا ہے، ٹھیک یہی کیفیت پہلے شب و روز میں میزبان کی ہونی چاہیے اور جس طرح انعام لینے والا مسرت و شادمانی کے جذبات سے سرشار انعام دینے والے کے احساسات کی قدر کرتے ہوئے اپنا حق سمجھ کر انعام وصول کرتا ہے، ٹھیک اسی کیفیت کا مظاہر پہلے شب و روز میں مہمان کو بھی کرنا چاہیے اور بغیر کسی جھجھک کے اپنا حق سمجھتے ہوئے خوشی اور قربت کے جذبات کے ساتھ میزبان کی پیش کش قبول کرنی چاہیے۔

-4 مہمان کے آتے ہی اس کی انسانی ضرورتوں کا احساس کیجیے۔ رفع حاجت کے لئے پوچھیے۔ منہ ہاتھ دھونے کا انتظام کیجیے، ضرورت ہو تو غسل کا انتظام بھی کیجیے، کھانے پینے کا وقت نہ ہو جب بھی معلوم کیجیے اور اس خوش اسلوبی سے کہ مہمان تکلف میں انکار نہ کرے کمرے میں لیٹنے بیٹھنے کا جو نظم ہو وہ مہمان کو بتادیجیے۔

-5 ہر وقت مہمان کے پاس دھرنا مارے بیٹھے نہ رہیے اور اسی طرح رات گئے تک مہمان کو پریشان نہ کیجیے تاکہ مہمان کو آرام کرنے کا موقع ملے اور وہ پریشانی محسوس نہ کرے۔ حضرت ابراہیمؑ کے پاس جب مہمان آئے تو ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لئے مہمانوں سے کچھ دیر کے لئے لگ ہوگئے۔

-6 مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجیے، تنگ دلی، کڑھن اور کوفت محسوس نہ کیجیے۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خدا جس کو آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اتار دیتا ہے، وہ آپ کے دسترخوان پر آپ کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور آپ کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

-7 مہمان کی عزت و آبرو کا بھی لحاظ رکھیے اور اس کی عزت و آبرو کو اپنی عزت و آبرو سمجھیے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھیے۔

قرآن میں ہے کہ جب حضرت لوطؑ کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آّر ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: ’’یہ لوگ میرے مہمان ہیں ان کے ساتھ بدسلوکی کرکے مجھے رسوا نہ کرو، ان کی رسوائی میری رسوائی ہے‘‘۔

’’لوطؑ نے کہا: ’’بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوا نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو‘‘۔

-8 تین دن تک انتہائی شوق و ولولے کے ساتھ میزبانی کے تقاضے پورے کیجیے۔ تین دن کی ضیافت مہمان کا حق ہے اور حق ادا کرنے میں مومن کو انتہائی فراخ دل ہونا چاہیے۔ پہلا دن خصوصی طور پر مدارت کا ہے اس لئے پہلے روز مہمان نوازی کا پورا پورا اہتمام کیجیے… بعد کے دو دنوں میں اگر وہ غیر معمولی اہتمام نہ رہ سکے تو کوئی مضائقہ نہیں، نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد میزبان جو کچھ کرے گا وہ اس کے لئے صدقہ ہوگا‘‘ (بخاری، مسلم)

-9 مہمان کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیے اور مہمان کو ملازموں یا بچوں کے حوالے کرنے کے بجائے خود اس کی خدمت اور آرام کے لئے کمربستہ رہیے۔ نبیؐ معزز مہمانوں کی مہمان نوازی خود فرماتے تھے۔ حضرت امام شافعیؒ جب امام مالکؒ کے ہاں جاکر بطور مہمان ٹھہرے تو امام مالکؒ نے نہایت عزت و احترام سے انہیں ایک کمرے میں سلادیا۔ سحر کے وقت امام شافعیؒ نے سنا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بڑی ہی شفقت سے آواز دی: ’’آپ پر اللہ کی رحمت ہو نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ امام شافعیؒ فوراً اٹھے کیا دیکھتے ہیں کہ امام مالک ہاتھ میں پانی کا بھرا ہوا لوٹا لئے کھڑے ہیں۔ امام شافعیؒ کو کچھ شرم سی محسوس ہوئی۔ امام مالکؒ تاڑ گئے اور نہایت محبت کے ساتھ بولے: ’’بھائی! تم کوئی خیال نہ کرو۔ مہمان کی خدمت تو کرنا ہی چاہیے‘‘۔

-10 مہمان کو ٹھہرانے کے بعد بیت الخلا بتادیجیے۔ پانی کا لوٹا دیجیے، قبلے کا رخ بتادیجیے، نماز کی جگہ اور مصلے وغیرہ مہیا کردیجیے۔ امام شافعیؒ کو امام مالکؒ کے خادم نے ایک کمرے میں ٹھہرانے کے بعد کہا: ’’حضرت قبلہ کا رخ یہ ہے، پانی کا برتن یہاں رکھا ہے، بیت الخلا اس طرف ہے‘‘۔

-11 کھانے کے لئے جب ہاتھ دھلائیں تو پہلے خود ہاتھ دھوکر دسترخوان پر پہنچے اور پھر مہمان کے ہاتھ دھلوایئے، امام مالکؒ نے جب یہی عمل کیا، تو امام شافعیؒ نے اس کی وجہ پوچھی، تو فرمایا: ’’کھانے سے پہلے میزبان کو پہلے ہاتھ دھونا چاہیے اور دسترخوان پر پہنچ کر مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہوجانا چاہیے اور کھانے کے بعد مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے چاہئیں اور سب کے بعد میزبان کو ہاتھ دھونے چاہئیں ہوسکتا ہے کہ اٹھتے اٹھتے کوئی اور پہنچے۔

-12 دستر خوان پر خوردونوش کا سامان اور برتن وغیرہ مہمان کی تعداد سے کچھ زیادہ رکھیے ہوسکتا ہے کہ کھانے کے دوران کوئی اور صاحب آجائیں اور پھر ان کے لئے انتظام کرنے کو دوڑنا بھاگنا پڑے اور اگر برتن اور سامان پہلے سے موجود ہوگا تو آنے والا بھی سبکی کے بجائے مسرت اور عزت افزائی محسوس کرے گا۔

-13 مہمان کے لئے ایثار سے کام لیجیے، خود تکلیف اٹھا کر اس کو آرام پہنچایئے۔
ایک مرتبہ نبیؐ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا حضورؐ! میں بھوک سے بے تاب ہوں، آپؐ نے اپنی کسی بیوی کے یہاں کہلایا، کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہے بھیج دو۔ جواب آیا، اس اللہ کی قسم جس نے آپؐ کو پیغمبر بناکر بھیجا ہے یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے پھر آپؐ نے دوسری بیوی یہاں کہلا بھیجا، وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ آپؐ نے ایک ایک کرکے سب بیویوں کے یہاں کہلوایا اور سب کے یہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔

اب آپؐ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، آج رات کے لئے کون اس مہمان کو قبول کرتا ہے۔ ایک انصاری صحابیؓ نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! میں قبول کرتا ہوں‘‘۔

انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور گھر جاکر بیوی کو بتایا: ’’میرے ساتھ یہ رسولؐ اللہ کے مہمان ہیں ان کی خاطرداری کرو‘‘۔ بیوی نے کہا: ’’میرے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھانا ہے‘‘۔ صحابیؓ نے کہا: ’’ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلادو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تاکہ اس کو محسوس ہوکہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں‘‘۔

اس طرح مہمان نے تو پیٹ بھر کر کھایا اور گھر والوں نے ساری رات فاقے سے گزاری۔ صبح جب یہ صحابیؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے دیکھتے ہی فرمایا: تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا وہ اللہ کو بہت ہی پسند آیا۔ (بخاری، مسلم)

-14 اگر آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروتی اور روکھے پن کا سلوک کیا ہو تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراخ دل، وسعت ظرف اور فیاضی کا سلوک کیجیے۔

حضرت ابوالا حوص جشمیؓ اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے نبیؐ سے پوچھا: ’’اگر کسی کے پاس میرا گزر ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمان کا حق ادا نہ کرے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کروں؟ یا اس (بے مروتی اور بے رخی) کا بدلہ اسے چکھائوں؟ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں بلکہ تم بہرحال اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘ (مشکوٰۃ)

-15 مہمان سے اپنے حق میں خیر و برکت کی دعا کے لئے درخواست کیجئے بالخصوص اگر مہمان نیک، دیندار اور صاحب فضل ہو۔ حضرت عبداللہ بن بسرؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ میرے والد کے یہاں مہمان ٹھہرے۔ ہم نے آپؐ کے سامنے ہریسہ پیش کیا۔ آپؐ نے تھوڑا سا تناول فرمایا پھر ہم نے کھجوریں پیش کیں، آپؐ کھجوریں کھاتے تھے اور گٹھلیاں شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی میں پکڑ پکڑ کر پھینکتے جاتے تھے پھر پینے کے لئے کچھ پیش کیا گیا۔ آپؐ نے نوش فرمایا اور اپنے دائیں طرف بیٹھنے والے کے آگے بڑھادیا جب آپؐ تشریف لے جانے لگے تو والد محترم نے آپؐ کی سواری کی لگام پکڑلی اور درخواست کی کہ حضورؐ ہمارے لئے دعا فرمائیں، اور نبیؐ نے دعا فرمائی:

’’الٰہی! تو نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں برکت فرما۔ ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم کر‘‘۔

مہمانی کے آداب
-1 کسی کے یہاں مہمان جائیں تو حسب حیثیت میزبان، یا میزبان کے بچوں کے لئے کچھ تحفے تحائف لیتے جایئے اور تحفے میں میزبان کے ذوق اور پسند کا لحاظ کیجئے۔ تحفوں اورہدیوں کے تبادلے سے محبت اور تعلق کے جذبات بڑھتے ہیں اور تحفہ دینے والے کے لئے دل میں گنجائش پیدا ہوتی ہے۔

-2 جس کے یہاں بھی مہمان بن کر جائیں کوشش کریں کہ تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں الایہ کہ خصوصی حالات ہوں اور میزبان ہی شدید اصرار کرے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’مہمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کردے‘‘ (الاداب المفرد)

اور صحیح مسلم میں ہے کہ ’’مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو گنہگار کردے‘‘۔ لوگوں نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! گنہگار کیسے کرے گا؟ فرمایا: ’’اس طرح کہ وہ اس کے پاس اتنا ٹھہرے کہ میزبان کے پاس ضیافت کے لئے کچھ نہ رہے‘‘۔

-3 ہمیشہ دوسروں کے ہی مہمان نہ بنیے، دوسروں کو بھی اپنے یہاں آنے کی دعوت دیجیے اور دل کھول کر خاطر تواضع کیجیے۔

-4 مہمانی میں جائیں تو موسم کے لحاظ سے ضروری سامان اور بستر وغیرہ لے کر جایئے۔ جاڑے میں خاص طور پر بغیر بستر کے ہرگز نہ جایئے ورنہ میزبان کو ناقابل برداشت تکلیف ہوگی اور یہ ہرگز مناسب نہیں کہ مہمان میزبان کے لئے وبال جان بن جائے۔

-5 میزبان کی مصروفیات اور ذمہ داری کا بھی لحاظ رکھیے اور اس کا اہتمام کیجیے کہ آپ کی وجہ سے میزبان کی مصروفیات متاثر نہ ہوں اور ذمہ داریوں میں خلل نہ پڑے۔

-6 میزبان سے طرح طرح کے مطالبے نہ کیجیے، وہ آپ کی خاطر مدارت اور دل جوئی کے لئے ازخود جو اہتمام کرے اسی پر میزبان کا شکریہ ادا کیجیے، اور اس کو کسی بے جامشقت میں نہ ڈالیے۔

-7اگر آپ میزبان کی خواتین کے لئے غیر محرم ہیں تو میزبان کی غیر موجودگی میں بلاوجہ ان سے گفتگو نہ کیجیے نہ ان کو آپس کی گفتگو پر کان نہ لگایئے اور اس انداز سے رہیے کہ آپ کی گفتگو اور طرز عمل سے انہیں کوئی پریشانی بھی نہ ہو، اور کسی وقت بے پردگی بھی نہ ہونے پائے۔

-8 اور اگر کسی وجہ سے آپ میزبان کے ساتھ نہ کھانا چاہیں یا روزے سے ہوں تو نہایت اچھے انداز میں معذرت کریں اور میزبان کے لئے خبر و برکت کی دعا مانگیں۔

جب حضرت ابراہیم ؑ نے آنے والے مہمانوں کے سامنے پُر تکلف کھانا رکھا اور وہ ہاتھ کھینچتے ہی رہے تو حضرت ابراہیم ؑ نے درخواست کی: ’’آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں؟‘‘ جواب میں فرشتوں نے حضرت کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’آپ ناگوار محسوس نہ فرمائیں، دراصل ہم کھا نہیں سکتے ہم تو صرف آپ کو ایک لائق بیٹے کے پیدا ہونے کی خوش خبری دینے آئے ہیں‘‘۔

-9 جب کسی کے ہاں دعوت میں جائیں تو کھانے پینے کے بعد میزبان کے لئے کشادہ روزی، خیر و برکت اور مغفرت و رحمت کی دعا کیجیے۔ حضرت الہیشم ابن تیہانؓ نے نبیؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کی دعوت کی، جب سب لوگوں کھانے سے فارغ ہوئے تو نبیؐ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کا صلہ دو‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: ’’صلہ کیا دیں؟ یا رسولؐ اللہ! فرمایا: ’’جب آدمی اپنے بھائی کے یہاں جائے اور وہاں کھائے پئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے، یہ اس کا صلہ ہے‘‘ (ابودائود)

نبیؐ ایک بار حضرت سعد بن عبادہؓ کے یہاں تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ نے روٹی اور زیتون پیش کیا۔ آپؐ نے تناول فرمایا اور یہ دعائی فرمائی:

’’تمہارے یہاں روزے دار روزہ افطار کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کریں‘‘ (ابودائود)

حصہ