ماہر تعلیم ،محقق،نقاد،ماہر اقبالیات،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی رحلت

369

موت ہماری دنیا کی سب سے اٹل، تلخ اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے، اور ہر ذی روح کو فنا ہونا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے، آپ ماہر ِتعلیم، محقق، نقاد اور اقبالیات کے ماہر بھی تھے۔ علم و کتاب، تہذیب و شائستگی آپ کا بنیادی حوالہ اور تعارف رہا۔ آپ کی پوری زندگی میں جس طرح ظاہر پاکیزہ، صاف اور معطر تھا، اسی طرح آپ کا باطن بھی اجلا، نکھرا اور معطر تھا۔ ذوقِ سلیم اور شُستہ زبان۔۔۔ یہ سب عوامل آپ کی شخصیت کو باکمال بنادیتے ہیں۔

ادب اور اقبالیات آپ کے اہم موضوعات رہے۔ آپ نے اقبال کی شاعری اور نثر کا مطالعہ ریاضت سے کیا تھا۔ چند سال پہلے اقبال کی زندگی اور اُن کی شاعری سے متعلق آپ کا اہم اور تفصیلی انٹرویو کیا تھا، یہ انٹرویو کراچی میں ہوا تھا اور آپ نے بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ سوالوں کے جوابات دیے تھے۔ آپ کی طبیعت اور انکسار کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ انتہائی نفیس، ملنسار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اپنے داماد کے کینٹ میں واقع گھر کے دروازے پر لینے پہنچ گئے تھے، اُس وقت بہت شرمندگی ہوئی، اور یہ اُس وقت مزید بڑھی جب یہ عمل بہت منع کرنے کے باوجود انہوں نے واپسی میں بھی اختیار کیا اور گھر چھوڑ کر مزید شرمندہ کیا۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تعلق مصریال ضلع چکوال سے تھا،جہاں آپ 9 فروری 1940ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا عالم شاہ ایک دین دار مسلمان تھے، پیشے کے لحاظ سے کاشت کار تھے، لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بیٹے یعنی والد محمد محبوب شاہ اور چچا عبدالرحمٰن تعلیم حاصل کریں۔ ایسے ماحول میں جہاں کسان اپنے بیٹوں کو اپنی مدد کے لیے کھیتی باڑی میں لگا لیتے تھے، انہوں نے بیٹوں کو باہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ والد محبوب شاہ ہاشمی بھی ایک درویش صفت انسان تھے، جبکہ چچا دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ بعد ازاں دونوں بھائی سرگودھا میں طب کے شعبے سے منسلک رہے۔ آپ نے بچپن میں گھر پر دینی تعلیم حاصل کی، حفظِ قرآن کیا۔ پرائمری کا امتحان ماڈرن پبلک اسکول سرگودھا سے پاس کیا، جبکہ میٹرک انبالہ مسلم ہائی اسکول سے 1954ء میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا سے ایف اے کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا۔ البتہ بی اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا۔ بی اے کے بعد گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا اور ایک برس بعد اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی مائیگریشن کرالی، یوں اپنی حقیقی مادرِ علمی سے وابستہ ہوگئے۔ آپ ایم اے اردو میں درجہ اوّل حاصل کرنے والے واحد طالب علم تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال آپ کے استاد سجاد باقر رضوی نے بھی ایم اے اردو کا امتحان دیا تھا، وہ انگریزی میں ایم اے تھے اور شعبۂ اردو میں آنے کے لیے انہوں نے ایم اے اردو کا امتحان دیا تھا، وہ دوسرے نمبر پر رہے۔ اخبارات نے استاد شاگرد کے نتیجے پر نمایاں خبریں شائع کی تھیں۔ رفیع الدین ہاشمی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے قابل اور جید اساتذہ کی آخری کھیپ میں سے ایک ہیں۔ ہاشمی صاحب اگرچہ ریٹائر ہوچکے تھے مگر عمر کے آخری حصے تک علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں میں منہمک رہے۔ آپ نے مجھے اپنی علمی، ادبی اور اقبال سے متعلق یادوں کے حوالے سے بتایا تھا کہ ہمارے گھر میں ’’بانگِ درا‘‘ کا ایک نسخہ تھا، میں اُسے پڑھتا رہتا تھا۔ اس میں جو ابتدائی نظمیں ہیں، مثلاً: لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری، یا پرندے کی فریاد، یا ہمدردی۔۔۔ تو اس طرح کی نظمیں اچھی لگتی تھیں، باقی نظمیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ جب میٹرک میں پہنچا تو اقبال کی کچھ اور نظمیں پڑھیں، کچھ اور سمجھ میں آئیں۔ بی اے اور ایم اے میں مزید سمجھ میں آئیں۔ ایم اے میں داخلہ لیا تو ’’علامہ اقبال کا فنی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے ایک پرچہ شاملِ نصاب تھا۔ چنانچہ اقبال کو کچھ اور تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں اردو اور فارسی شاعری کا کچھ حصہ بھی تھا، نثر کا حصہ نہیں تھا۔ لیکن اس سے علامہ کی شاعری اور فکر میں دلچسپی مزید بڑھی۔ ایم اے کرنے کے بعد خیال آیا کہ ’’اقبال کی طویل نظموں کا فکری و فنی مطالعہ‘‘پر کوئی ایسا یکجا لوازمہ یا میٹریل نہیں ہے جس سے طلبہ کو امتحان کی تیاری میں آسانی ہو۔ ہمارے ایک دوست تھے ڈاکٹر معین الرحمٰن، جن کے بڑے بھائی متین الرحمٰن مرتضیٰ ’’جسارت‘‘ کے مدیر رہے۔ معین صاحب سے مشورہ ہوا تو میں نے اقبال کی ایک طویل نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ پر مضمون لکھا، پھر ’’خضر راہ‘‘ پر لکھا، پھر ایک اور نظم پر۔۔ اس طرح لکھتا گیا، یوں میری پہلی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ تیار اور شائع ہوئی۔ 1974ء میں جب میں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا تو اس میں بھی میرا موضوع اقبال پر ہی طے ہوا۔ 1977ء میں جب ’اقبال صدی‘ منائی گئی تو میں نے ’’نیشنل کمیٹی برائے صد سالہ تقریبات ولادتِ علامہ محمد اقبال‘‘ کو ایک خاکہ’’کتابیاتِ اقبال‘‘ کا بناکر بھیجا۔ اُس وقت تک اردو میں ایسی کوئی کتاب نہیں تھی، چنانچہ انھوں نے اسے منظور کرلیا۔ وہ کتاب اقبالیات کی چند منتخب کتابوں میں شمار ہوئی۔ ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی… شخصیت و خدمات“ کے حوالے سے آپ کے شاگرد ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے کتاب شائع کی جس میں مولانا ماہر القادری کی آپ کے حوالے سے رائے بھی ہے، وہ کہتے ہیں:

’’جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی انشا پردازی اصلاح و اخلاق کے دائرے میں گردش کرتی ہے۔ مقصود ملک و ملّت اور خاص طور پر نئی نسل کی صحیح تربیت اور اصلاح و تعمیر ہے، یہ ان کی خیر پسندی اور سعادت کی دلیل ہے‘‘۔

’’میرے پیارے استادِ محترم‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے خود لکھا کہ: ’’دنیا میں سب استاد محترم ہیں مگر پیارے، مخلص، عظیم انسان اور مشفق استاد کے مرتبے پر پہنچنے والے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرے پیارے بھی ہیں اور محترم بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سب کے محترم ہیں۔ انہوں نے اپنا مقام اپنے کردار و علم و عمل سے منوایا ہے۔ ادب، اخلاق اور مروت کا پیکر یہ عظیم انسان (پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) عہدِ حاضر میں ہمارے لیے غنیمت ہے۔ وہ مردم بیزاری کے اس عہد میں مردم شناسی کی ایک اہم علامت ہیں۔ پاکستان میں کھلنے والا یہ حسین پھول اپنی خوشبو سے پورے دیار کو معطر کرچکا ہے۔ اپنے سینے پر سبز پاکستانی پرچم سجائے، بندۂ مومن کی طرح ہردم متحرک، شاہین کی طرح پُرعزم، سخن دلنواز، نگہ بلند، سحر انگیزی اور ولولہ انگیزی سے راہِ زیست پر گامزن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہمارے لیے جدوجہد اور تحرک کی روشن مثال ہیں۔“

ڈاکٹر تحسین فراقی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہمارے ملک کے اُن ممتاز مصنّفین اور اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، جنہیں علمی لگن کی نادر مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ اللہ والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنی ایک سانس کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔ ان کی ہر سانس کی آمدوشد اسی ذاتِ بابرکات کے پُرجلال نام کے ورد سے عبارت ہوتی ہے، اس کا نام پاسِ انفاس ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے علم اور تحقیق کے میدان میں انہی صوفیہ کی سی خُوبُو پائی‘‘۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل ’’نابغۂ وقت‘‘ کے عنوان سے کتاب ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔۔۔ شخصیت و خدمات“ میں رقم طراز ہیں:

’’ہر عہد اور ہر معاشرے میں کچھ نابغے بھی ضرور پیدا ہوتے ہیں جو اپنے اثرات سے اپنے معاشرے کی ایک جانب شناخت بنتے یا نمائندگی کرتے ہیں اور دوسری جانب اپنے معاشرے پر اپنے احساسات اور جذبات کے زیراثر اپنے شخصی و فکری اثرات بھی مرتسم کرتے ہیں۔ ایسے ہی نابغوں میں ایک نابغہ ہمارے عہد میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی ہیں، جن کا شعبۂ فضیلت و شہرت اگرچہ بنیادی طور پر اردو زبان و ادب کی تدریس ہے، لیکن دراصل ان کا امتیاز علم و ادب میں تصنیف و تحقیق ہے۔

بظاہر ڈاکٹر صاحب کی شناخت اور شہرت ’’اقبالیات‘‘ میں ان کی مثالی دلچسپی و خدمات کے سبب ہے، لیکن زبان و ادب اور ان کے مسائل و میلانات اور ان کا ارتقا و تاریخ… یہ سب بطور دلچسپی اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے ان کے مطالعات کے بنیادی موضوعات اور ان کے محرکات و نتائج بھی رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کا مطالعہ بھی ان کے مخصوص دائرہ ذوق و شوق میں شامل رہا ہے۔“

فیاض احمد ساجد کے بقول ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو عام طور پر ’’ماہرِ اقبالیات‘‘ کہا جاتا ہے، مگر اُنھوں نے اقبالیات کے ساتھ تحقیق، تنقید، تدوین، سفرنامہ نگاری اور تبصرہ نگاری کے شعبوں میں بھی اپنی ہنرمندی کے بہترین اور عمدہ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہاشمی صاحب کے نام اُردو ادب کی کئی نام وَر شخصیات (مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، گیان چند، مختار الدین احمد اور ابنِ فرید) کے خطوط کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں جن میں پاکستان کے مشاہیر کے علاوہ بھارت، جاپان اور پیرس کے مکتوب الیہان بھی شامل ہیں۔ چند نام وَر مکتوب الیہان میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر جاوید اقبال، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ، عاشق حسین بٹالوی، ڈاکٹر وحید قریشی، مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، غلام جیلانی برق، جگن ناتھ آزاد، محمد طفیل مدیر نقوش، ڈاکٹر معین الدین عقیل، فتح محمد ملک، انتظار حسین، صابر کلوروی اور ہیروجی کتاؤگا شامل ہیں۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے 1981ء میں جامعہ پنجاب سے ’’تصانیفِ اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ“ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ 2002ء میں شعبہ اردو اورینٹل کالج سے ’’بازیافت“ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ بھی جاری کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 2006ء سے 2008ء تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممتاز پروفیسر رہے۔ کئی ادبی، علمی و تحقیقی رسائل کے مدیر و معاون مدیر بھی رہے۔ وہ بابائے اردو ایوارڈ اور قومی صدارتی اقبال ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے اقبالیات اور اردو زبان و ادب پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں جن میں ’’اصنافِ ادب“،’’ خطوطِ اقبال“، ’’کتابیاتِ اقبال“، ’’تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ“، ’’جامعات میں اردو تحقیق“، ’’یاد نامہ لالہ صحرائی“، ’’اقبال کی طویل نظمیں: فکری و فنی مطالعہ“،’’ 1985ء کا اقبالیاتی ادب۔۔ ایک جائزہ“،’’ 1986ء کا اقبالیاتی ادب۔۔ ایک جائزہ“، ’’خطوطِ مودودی“، ’’اقبال: مسائل و مباحث“، ’’اقبالیات کے سو سال“، ’’تحقیقِ اقبالیات کے مآخذ“، ’’اقبالیات: تفہیم و تجزیہ“، ’’پوشیدہ تری خاک میں (سفرنامہ اندلس)“، ’’سورج کو ذرا دیکھ (سفرنامہ جاپان)“، ’’مکاتیب مشفق خواجہ“، ’’پاکستان میں اقبالیاتی ادب“، ’’علامہ اقبال: شخصیت و فن“ و دیگر شامل ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر خالد ندیم کا مرّتبہ اردو، فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کے مقالات پر مشتمل مجموعہ ’’ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی“ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی مغفرت فرمائے اور ان کا کام اور نام قیامت تک زندہ رکھے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لیے ایک نظم میں ارشد محمود ناشاد نے لکھا تھا:

عجز ملبوس ترا، صدق ہے دستار تری
تیرا کردار ترا طرزِ عمل ہے ریشم
فکرِ اقبال کی توضیح وظیفہ ہے ترا
موجۂ آبِ رواں ہے ترا رہوارِ قلم

حصہ