جامعات المحصنات پاکستان کے تحت جامعات المحصنات مانسہرہ و پشاور میں فقہی سیمینارز

287

انسانی کمالات کا مدار علمی اور عملی کمال پر ہے، اگر دنیوی اور عصری علوم کا دین سے تعلق نہ ہو تو وہ سراسر جہالت ہے، اور دینی علوم میں “علمِ فقہ” کو جو اہمیت اورعظیم مقام حاصل ہے وہ کسی اور علم کو حاصل نہیں ہے، قرآنِ کریم سمجھنے اور حدیث طلب کرنے کا آغاز فقہ ہی سے ہوتا ہے، اور یہی فقہ قرآن وحدیث کا نتیجہ اور ثمرہ بھی ہے، اگر کوئی دینی طالبِ علم یا عالمِ دین فقہ میں ناپختہ ہو تو اسے قرآنِ پاک اور حدیث شریف سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔

فقہ قرآن وحدیث سے ہٹ کر شریعت کا کوئی مستقل یا الگ سرچشمہ اور ماخذ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خاص ضابطہ کے تحت قرآن وحدیث کی مکمل اور جامع شرح ہے، یہ قرآن وحدیث سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کو قرآن وحدیث ہی سے لیا گیا ہے، جن باتوں کو قرآن وحدیث میں اصولی اور اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے، انہی باتوں کو ائمہ نے فقہ میں تفصیل کے ساتھ فروعات اور جزئیات کی شکل میں نمایاں کیا ہے۔

جامعات المحصنات پاکستان دینی و عصری علوم کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس ادارے کا ایک اہم اور مرکزی شعبہ تحقیق و تصنیف کی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ سال میں دو دفعہ اسی شعبہ کے تحت تحقیقی مقالہ جات پر مبنی ایک میگزین بھی ’’مجلہ المحصنات‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اب تک اس میگزین کے 10 شمارے شائع ہو چکے ہیں نیز یہ تحقیقی مجلہ HEC سے منظور شدہ ہے۔

گزشتہ سال نومبر میں اسی شعبہ تحقیق و تصنیف کے تحت جامعۃ المحصنات پشاور میں فقہی سیمینار بعنوان ’’مقاصد شریعت‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں نگران شعبہ تحقیق و تصنیف مفتی عطا الرحمن، ڈاکٹر ساجد جمیل‘ مہتمم جامعۃ تفہیم القرآن ڈاکٹر عطا الرحمن نے شرکت کی۔

نائب قیمہ جماعتِ اسلامی پاکستان و نگراں جامعۃ عنایت بیگم نظم ضلع پشاور، سابقات ضلع پشاور، ایم فل و پی ایچ ڈی سابقات جامعۃ المحصنات پشاور نے شرکت کی۔

جامعۃ المحصنات پشاور کے معلمین و معلمات، عالیہ و عالمیات نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ پر وگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا۔ پرنسپل جامعۃ المحصنات پشاورروبینہ فضل نے خیر مقدمی و افتتاحی کلمات پیش کیے۔

ڈاکٹر محمد سردار علی نے مقاصد شریعہ کے موضوع کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شریعت انسان کی جان، مال، عزت آبرو کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کا باقاعدہ نظام ہے۔ عالیہ و عالمیہ کی پانچ نامزد طالبات نے مقاصد شریعہ کے درج ذیل عنوانات پر سارہ قاسم (تحفظ جان)‘ جویریہ جبار(تحفظ دین)‘ جلوہ اسحق (تحفظ نسب)‘ عالیہ اسحق (تحفظ مال )‘ ملائکہ یوسف (تحفظ عقل) اپنے اپنے مقالہ مختصر سلائیڈز کے ذریعے پیش کیا۔ ترانہ کے بعد نگران شعبہ تخصص و تحقیق ڈاکٹر عطا الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقاصد شریعت کا علم وقت کا اہم تقاضا ہے کیوں کہ یہ اسلامی نظام کا حُسن ہے جس کی بہ دولت معاشرے میں وہ مکمل تحفظ پیدا ہوتا ہے جس سے تمام غیر اسلامی نظام معاشرت محروم ہیں۔ خصوصاًًمغربی سرمایہ دارنہ نظام۔ جان کے تحفظ اور ہر بچے کے لیے معلوم نسب کا حق ماننے سے انکاری ہے یہی حال منشیات کے معاملے کا ہے۔ ہم مدینۃ النبی کا ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں ہر انسان کے ان پانچ حقوق کا تحفظ بلا تفریق جنس و مذہب ہو۔ میں اتنے معیاری مقالہ جات تحریر کرنے پر جامعۃ المحصنات پشاورکی طالبات کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اس کے بعدمہتمم جامعہ تفہیم ڈاکٹر عطا الرحمن نے اس بہترین اقدام پر مبارک باد پیش کی اور طالبات سے خطاب کیا۔

سیمینار کے آخر میں مقالہ جات پیش کرنے والی طالبات کو انعامات واسناد دی گئیں۔ سابق معلم وپی ایچ ڈی ڈاکٹر محمد ابراہیم نے اختتامی دعا کروائی۔

دوسرا فقہی سیمینار مانسہرہ میں16نومبر 2023 بروز جمعرات کو منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا ’’مولانا مودودی رحمہ اللہ کے اجتہاد‘‘ جس میں پیش کرنے کے لیے طالبات نے درج ذیل عنوانات پر مقالہ جات تیار کیے۔

٭اقراء سلطان: ’’اسلام ایک مکمل نظامِ حیات۔‘‘
٭کرن شیرازی: ’’مغرب جاہلیت خالصہ۔‘‘
٭ انیلا زاہد: ’’توحید حاکمیت۔‘‘
٭ رقیہ زاہد: ’’فریضہ اقامتِ دین کا تصور۔‘‘

نائب امیر صوبہ محترم مولانا عبید الرحمن عباسی مہمان خصوصی تھے۔ڈاکٹر عطا الرحمن‘ مولانا ساجد جمیل‘ مولانا سردار احمد‘ قیم ضلع مانسہرہ نور الحق حقانی‘ نظم ضلع مانسہرہ، نگران جامعہ‘ سابقہ پرنسپلزز‘ جامعہ کے معلمین اور معلمات نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز معلم جامعہ محترم مولانا الطاف قریشی کی تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جامعہ کی پرنسپل محترمہ زینب سیف نے خیر مقدمی کلمات کہے۔ مولانا سردار احمد نے خلاصہ موضوع بیان کر کے اپنے علم سے سامعین کو مستفید کیا۔

بعد ازاں محترم مولانا عبید الرحمنِ عباسی نے ’’فکر مودودیؒ‘‘ کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد عالیہ کی دو نامزد طالبات‘ دوسابقات اور ایک معلمہ جامعہ نے اپنے مقالے سلائیڈ کی صورت میں عمدہ انداز میں پیش کیا۔

جامعہ کی طالبہ کے ترانہ نے جذبات کو مہمیز دی۔

بعدازاں استاد محترم مفتی عطا الرحمن شرکائے سیمنار سے مخاطب ہوئے اور اپنی گفتگو سے طالبات کے اندر تحقیق کے جذبے کوجلا بخشی کہ ہر قوم اپنے اکابرین کے علوم سے استفادہ کرتی ہے اگرچہ زندگی میں تمام بڑی شخصیات کے ساتھ معاشرے کا رویہ افسوس ناک رہتا ہے جیسے امام بخاریؒ اور دیگر ائمہ کرام، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے نہ صرف تسلیم کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے افکار مشعل راہ بنتے ہیں۔ یہی کچھ مولانا مودودیؒ کے ساتھ ہوا ۔ اب یہ صدی مولانا مودودیؒ کی ہے۔ اسلام کی بین الاقوامی سطح پر حمایت یا مخالفت میں مولانا مودودیؒ سب سے زیادہ موضوع گفتگو رہے۔

مولانا کے اہم اجتہاد کو جمع کرنا اور اس پر مزید علمی کام وقت کا تقاضا ہے، مغرب کی جاہلیت آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ واضح ہو رہی ہے۔ توحید حاکمیت کا فراموش کردہ تصور پھر اجاگر ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ راہیں مزید کھلیں گی۔

استادمحترم مولانا ڈاکٹر ساجد جمیل نے آخر میں رب تعالیٰ کے حضور دعائیہ کلمات کے ساتھ اس سیمنیار کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

مقالے کی شرکا طالبات کوپرنسپل جامعہ اور نگران جامعہ اور محترمہ سعیدہ ہاشمی نے اسناد تقسیم کیں۔نگراں شعبہ تحقیق فرحانہ نادر صاحبہ نے کہا۔ان شاء اللہ یہ سرگرمی ہماری طالبات کو علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے پر ابھارے گی اور دوسری طرف ہمارے ادارے المحصنات کی معاشرے میں علمی وتحقیقی ادارے کے طور پر مؤثر نمائندگی بھی ہوگی۔اللہ تعالی آپ سب کی کوششوں کو قبول کرے‘آمین۔

حصہ