رام مندر سے شعیب کی شادی تک سوشل میڈیا پر دھوم

314

اَفغانستان پر ایک نظر:
ٹرینڈ لسٹ میں افغانستان کا نام دیکھ کر چونکا، مجھے لگا کہ شاید غزہ سے متعلق ایشو ہوگا۔ ٹرینڈ کے اندر جاکر چیک کیا تو مغرب کا پھیلایا ’’شدید گند‘‘ نظر آیا۔ مغرب پرست ، فیمنسٹ خواتین اور نام نہاد آزادی کے شائقین ’بے پرکی ‘ اُڑا رہے تھے۔ دُکھ ہوا کہ کوئی مدلل انداز سے اُن کے ’دینی عمل‘ کا دفاع کرنے والا نہیں تھا۔ اقوا م متحدہ کی جانب سے خواتین کے اکیلے سفر سے متعلق ایک پریس ریلیز سے یہ مدعا کھڑا ہوا تھا، آیئے اِس کی حقیقت جانتے ہیں ۔

2021 اگست میں افغانستان سے امریکہ 40 ملکوں کی فوج لے کر بدترین عسکری، سیاسی شکست کھا کر واپس روانہ ہوا۔ یہ عرصہ 20 سال کا تھا، اس دوران افغانستان پر دو حکومتیں بھی امریکہ نے بنوائیں۔ یقین مانیں جیسے ہی امریکہ واپس گیا‘ سوشل میڈیا پر وہ مناظر آج بھی ہمیں یاد ہیں جب لوگ ہوائی جہاز سے عملاً لٹک لٹک کر ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ افغانستان میں امریکہ کا قائم کردہ جمہوری نظام ایک جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا، وہ تنخواہ دار فوج ہو‘ پولیس یا دیگر ریاستی اہل کار، سب بھاگ رہے تھے۔ شکست کا عالم یہ تھا کہ الیکشن و طمطراق سے حکومت قائم کر دینے کے باوجود امریکہ نے اقتدار ’’اُن ‘‘کے حوالے کیا جن سے وہ 20 سال سے جنگ لڑ رہا تھا۔ جنہیں وہ ’دہشت گرد‘ قرار دے چکا تھا، جن سے ’’گوانتانامو‘‘ سمیت کئی بدترین جیلوں کو بھرا تھا۔ جی! اُن قیدیوں کے ساتھ ہی مذاکرات کرکے، معافی تلافی کر کے‘ اُن ’قیدیوں‘ ہی کی شرائط پر پورا ملک اُن کے حوالے کیا۔ اَب کوئی 29 ماہ ہو چکے ہیں، میں نہیں خود امریکی سامراجی ادارے بالخصوص ورلڈ بینک کی رپورٹیں گواہ بن رہی ہیں کہ افغانستان امریکی ڈالر ادھار لیے بغیر، سودی نظام معیشت کے بغیر کیسے اپنی کرنسی میں استحکام لا چکاہے۔ ورلڈ بینک کی اکتوبر تا دسمبر 2023 رپورٹ سے چند نکات بتاتے ہیں کہ وہاں غذائی اشیا کی قیمتیں 13 فیصد اور غیر خوردہ اشیا کی قیمتیں 6 فیصد کم ہوئیں۔ جنوری تا اکتوبر 2023ء میں افغان کرنسی کی شرح تبدل امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد اور پاکستانی کرنسی کے مقابلہ میں 34 فیصد بڑھی ہے۔ حکومتی انتظامیہ نے کرپشن کا بڑی حد تک خاتمہ کیا ہے جس کی بہ دولت معاشی استحکام قائم ہو تا نظر آرہا ہے۔ یہ میری نہیں ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے۔

دوسری جانب ’اقوام متحدہ اسسٹنس مشن ان افغانستان‘ اپنے خطرناک ایجنڈے کے ساتھ مستقل کام کر رہا ہے۔ اُس کا ایجنڈا کچھ الگ اور تہذیبی ہے۔ اُس کی حالیہ پریس ریلیز میں UNAMA نے افغان حکومت کی جانب سے خواتین کو اکیلے سفر کرنے پر شدید تکلیف کا اظہار کیا ہے۔ وہی موضوع بنا لیا گیا۔ اُن کو تکلیف ہوئی ہے کہ کیوں ’’افغانستان میں اسلامی قوانین کی عمل داری کی انچارج وزارت کے اہل کاروں نے خواتین کو تحفظ کے لیے شادی کی رغبت دلائی۔ نوکری پیشہ خواتین کو ملازمت برقرار رکھنے کے لیے شادی کرنے اور محرم کے ساتھ سفر کی جانب ابھارا گیا ہے۔ افغان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم، سیلون میں کام اور ڈریس کوڈ کے حوالے سے ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جو مغرب کو مستقل تکلیف دے رہی ہیں۔ دیکھاجائے تو حکومت غیر شادی شدہ یا جن خواتین کا کوئی مرد سرپرست نہیں ہے اُن کو قرآنی حکم پر گھر میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر اقوامِ متحدہ ایسا نہیں چاہتا۔

رپورٹ کے مطابق تین خواتین ہیلتھ کیئر ورکرز کو اکتوبر میں اس لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ کسی مرد رشتے دار کے بغیر اکیلے سفر کر رہی تھیں۔ قندھار میں طالبان نے بس اسٹیشنوں کا دورہ کیا اور ہدایت کی کہ وہ خواتین کو کسی مرد رشتے دار کے بغیر سفر کی اجازت نہ دیں۔ دیکھنے اور پڑھنے میں تو یہ سب پابندیاں محسوس ہوتی ہیں، مگر ہم تو جانتے ہیں کہ حکومت کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے قوانین پر عمل کرائے، اپنی رٹ قائم کرے۔ اب مغرب کا ’تضاد ‘دیکھیں۔ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ ’ریاست‘ کو اختیار ہے قانون بنانے اور عمل کرانے کا، مگر جب یہ اصول افغانستان آئے تو تکلیف شروع۔ کہتے ہیں ’آزادی‘پر ضرب پڑرہی ہے، تو آپ کون ہو ’افغانستان ‘ کی آزادی میں دخل دینے والے۔ جب ’آزادی‘ کی تعریف سب نے اپنے حساب سے کی ہوئی ہے تو کوئی آپ کی بنائی تعریف کیوں لے؟ جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ یہ تو خود اُس ریاست کی آزادی پر حملہ اور جبر ہے کہ صرف مغرب کی بنائی ہوئی ’آزادی‘ کی تعریف لی جائے۔ جب ہزاروں سال سے افغانستان کی خواتین گھروں میں رہنا پسند کرتی آئی ہیں۔ آج بھی بڑی تعداد برقعہ میں رہنا پسند کرتی ہیں تو آپ کے 20 سالہ جبری اقتدار کے دور میں جن خواتین کی عادتیں خراب ہوئی ہیں ان کو آپ کی جعلی آزادی کے نام پر معاشرے کو خراب کرنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

شعیب ملک کی شادی:
پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی پہلی شادی اپریل 2010 میں بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا سے ہوئی‘ کوئی ساڑھے 13 سال بعد یہ شادی اچانک دوسری شادی کے اعلان سے ختم ہوئی۔ دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی شادی ختم کرنا درست طرز عمل نہیں۔ سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ مقبول کام لوگوں کی نجی زندگی کے مظاہر کو باہر لانا اور ڈسکس کرنا ہوتا ہے، شعیب کا چھ سال کا بیٹا کیسے اور کس انداز سے پرورش پائے گا‘ یہ کوئی نہیں سوچ رہا۔ یہ بیک وقت شادی اور طلاق کی دو اطلاعات تھیں جو انتہائی بھونڈے انداز سے ڈسکس ہوئیں۔ یہی نہیں ایک اور بم پھٹا کہ ’ثنا‘ (شعیب کی دوسری بیوی) جو ایک پاکستانی اداکارہ ہے اُن کی پہلی شادی 28 نومبر 2023کو ختم ہوئی تھی اور انہوں نے بھی دوران عدت دوسری شادی کی۔ جیسے ہی یہ معاملہ سوشل میڈیا پر آیا انہوں نے فوراً وکی پیڈیا سے یہ تاریخ ہٹا دی۔ یہ حال ہے نجی معاملے کے اظہار کا، سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔ یو ٹیوب پر اس کی بدترین تازہ مثال ’’وی لاگرز‘‘ ہیں جن کے خلاف اب سندھ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ بھی ہونے جا رہا ہے۔

بابری مسجد اب کیوں:
25 کروڑ کے قریب کلمہ گو مسلمان بستے ہیں ہمارے پڑوس میں ۔ یہ پاکستانی نہ بھی ہوں، اُمت کا حصہ کہلائیں گے۔ اب کوئی مسجد پاکستان میں ہو یا بھارت میں، ہر مسلمان کے لیے ایک ہی مقام رکھتی ہے۔ یاد ہوگا آپ کو کہ آسٹریلیا میں مندر وں کی بے حرمتی کے معاملے میں بھارتی وزیر اعظم نے ایسا رد عمل دیا جیسے آسٹریلیا اس کا غلام ملک ہو۔ مسلمانوں کے معاملے میں یہ گنگا مستقل اُلٹی بہہ رہی ہے۔ ہمیں ٹی وی اسکرین پر تو ارتغرل، عثمان اور اب تو صلاح الدین ایوبی دکھایا جا رہا ہے، مگر غزہ ہو، بھارت ہو‘ کشمیر یا برما عملی صورت حال بالکل الٹ ہے۔

رام مندر افتتاح:
سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ دہرائے جانا والا مؤقف اس ایشو پر یہ تھا کہ ’’بھارتی سپریم کورٹ کا صاف حکم تھا کہ مسجد توڑنا بہت بڑا جرم ہے، مگر مجرم نہیں پکڑے گئے۔ مندر بنائیں تو الگ سے مسجد بھی بنائی جائے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ 30 سال بعد ’مندر‘ تو بغیر حکم کے حکومت نے بنوا ڈالاجب کہ مسجد کی تو ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ (مندر بنانے کا حکم حکومت کو نہیں دیا گیا تھا، دونوں کام ایک کمیٹی کو دیے گئے تھے۔) مندر کی افتتاح کی خبر عالمی میڈیا پر چھائی رہی، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے بابر ی مسجد کی الم ناک شہادت اور مندر کی تعمیر کا معاملہ اٹھایا تو امریکی محکمہ خارجہ کے ہندو ترجمان ویدان پٹیل نے اس معاملے پر کوئی مؤقف نہیں دیا اور اسے ’’مذہبی آزادی‘‘ کہہ دیا۔ سوشل میڈیا پر افتتاح کی تقریب میں وزیر اعظم کے علاوہ بھارتی فلم اداکاروں کی آمد بھی موضوع بنی۔ ظاہر ہے کہ جو مسلمان ان اداکاروں کو ’’نیوٹرل‘‘ سمجھتے تھے وہ اُن کو مندر کے افتتاح کی تقریب میں دیکھ کر کچھ تو تلملائے۔ کسی کو امیتابھ بچن کے فلموں میں مسلمان کردار یاد آئے تو کسی نے عالیہ بھٹ کے مکمل کپڑوں کو دیکھ کر اس کا موازنہ سعودیہ میں فلمی ایوارڈ کے نیم برہنہ کپڑوں سے کیا۔ ایسا پڑھتے وقت مجھے سادہ لوح مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر دُکھ ہو رہا تھا اور یقین ہو رہا تھا کہ جیسے ہم اسلامی ایکشن سے بھرپور ڈرامے دیکھ کر مزید ’بزدل ‘ ہوئے ہیں ویسے ہی بھارتی مسلمان ’بھارتی فلمیں ‘ دیکھ کر غیرت ایمانی کھو چکے ہیں۔

سیاسی کھیل :
رام مندر افتتاح میں نریندر مودی اور آر ایس ایس کے سربراہ کی شرکت پیغام دے رہی تھی کہ ایک آئین کے پابند منتخب وزیر اعظم کے عمل کا حساب، ہندوتوا کی آڑ میں پوری منصوبہ بندی سے نظر انداز کرایا جا رہا ہے۔بھارت میں جاری ہندو جنونیت کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے ، یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے تو ا س معاملے پر مکمل طور پر چپ سادھی ہوئی ہے تاہم سوشل میڈیا پر خبروں کو روکنا ممکن نہیں ہو رہا۔ بھارتی اسکولوں میں ہندو مذہبی تعلیمات کو زبردستی ٹھونسا جا رہا ہے، ٹی وی چینلوں پر مستقل مذہبی ڈراموں اور فلموں کی اچانک بھرمار کردی گئی ہے۔ یہ جو ’ہندوتوا‘ کا ایجنڈا ہے وہ اپنی جگہ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کام اتنی مکاری سے ہو رہا ہے کہ مساجد پر قبضے کرنے والے یہ ’جنونی ہندو‘ نریندر مودی سے 10 سالہ اقتدار کا تو حساب نہیں مانگتے مگر 500 سال پہلے بابر بادشاہ کے کسی عمل کا حساب 25 کروڑ مسلمانوں سے مانگ رہے ہیں۔

ہندو تشدد بڑھ گیا:
ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے میرا روڈ، نیا نگر پر جو کچھ ہوا وہ بھارتی ٹی وی کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی چھایا رہا کیوں کہ اس کے پیچھے تجاوزات کا ایشو آگیا تھا۔ پہلے ہندو جنونیوں نے وہاں زبردستی ریلی نکالی اور مسلمانوں کو اشتعال دلایا جس پر پہلا جھگڑا ہوا۔ ردعمل کے طور پر وہاں سرکار نے اچانک 40 سال بعد تجاوزات کے نام پر دکانوں پر بلڈوزر چلا دیے اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس پورے عمل میں سخت آرڈر تھے کہ اس واقعے کی کوئی وڈیو سوشل میڈیا پر نہ ڈالی جائے۔ اسی طرح جنونی ہندوئوں نے اتر پردیش کے سنت کبیر نگر ضلع اور آگرہ میں ہجوم کی صورت مساجد پر حملے کیے۔ وہاں کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں مردوں اور نوجوان لڑکوں کے گروپ کو مسجد کے باہر جشن مناتے اور رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے، اور اِن میں سے ایک مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ریلی سے قبل احتیاطاً مسجد بھی بند کر دی گئی تھی۔ وڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے سنت کبیر نگر پولیس نے 5 افراد کو گرفتار کیا ہے، جو مہدوال کے مقامی ہیں۔ ایسے ہی ایک وڈیو تلنگانہ کے مرغی گائوں کی بھی آئی جس میں ایک مسلمان کو برہنہ کر کے کئی ہندو جنونی بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ تشدد اتنا بے رحمانہ تھا کہ میں  20 سیکنڈ بھی نہ دیکھ پایا۔

ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح سے ہی بھارت کا جنونی ہندوتوا ہول ناک شکل میں سامنے آرہا ہے۔ ہندو ئوں نے مسلم علاقوں میں ریلیاں نکالنا شروع کر دی ہیں اور تاریخی مساجد پر قبضے کی نیت سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ ’’اظہار آزادی‘‘ کا حال یہ ہے کہ پورا بھارتی میڈیا ان ہنگاموں کی خبروں کو رپورٹ کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ پولیس نے دکھاوے کے لیے کچھ ہندو جنونیوں کی گرفتاریاں بھی ظاہر کی ہیں تاہم جو کچھ وہ مسجد کے ساتھ کر کے جا چکے تھے اُس کے لیے دکھاوے کی گرفتاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ایک ہی نعرہ گونجے گا بھارت کا ’بچہ بچہ جے شری رام بولے گا‘ کے عنوان سے ترانے لگا کر مسلم علاقوں میں جان بوجھ کر ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور اس میں مسلمانوں کو شدید ذہنی اذیت پہنچائی جاتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ اب تک کوئی 3 بڑے واقعات سوشل میڈیا پر سامنے آئے ہیں۔ بھارتی میڈیا ’’دی وائر‘‘ کی معروف خاتون صحافی، عارفہ خانم شیروانی سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہتی ہیںکہ ’’یہ ہم پر ایک عذاب جیسا ہے کہ ہم نے 6 دسمبر 1992 بھی دیکھا اور 22 جنوری 2024 بھی دیکھا اور جھیلا۔‘‘

حصہ