شیر بابو سے شیرو تک

272

شیر محمد کی سچی آب پیتی

میرا باپ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا۔ مین روڈ سے دائیں طرف جو پکی سڑک مڑتی ہے، وہ نہر کے ساتھ ساتھ قصبہ برگد والا تک پہنچتی ہے، میں نے اسی قصبے کے ایک کچے پکے گھر میں آنکھ کھولی۔ میری ماں کہتی تھی کہ میں گھنگھرو بابا کی دعائوں سے اس دنیا میں آیا۔ گھنگھرو بابا ہمارے قصبے کا ایک معتبر اور محترم نام تھا۔ لوگ اس سے دعائیں کراتے مگر وہ کسی سے نذرانہ نہیں لیتا تھا۔ کوئی اصرار کرتا تو بس ’’اس کے در کی بھیک سائیں‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگاکر اپنے ڈنڈے کو زمین پر مارتا اور اس کے سرے پر لگا گھنگھرو چھن چھنک چھن بج اٹھتا۔ شاید اسی گھنگھرو کی نسبت سے بابا کو گھنگھرو بابا کہا جاتا تھا۔ میرے غریب ماں باپ نے میری پیدائش پہ بہت خوشیاں منائیں، میری ماں نے میرا نام شیر محمد رکھا۔ میں نے پہلا قدم اٹھایا تو میری ماں مجھے بابو بنانے کے خواب دیکھنے لگی۔ وہ مجھے شیربابو کہتی تھی۔ قصبے کے چھوٹے سے اسکول میں اس نے مجھے داخل کرایا۔ میرا ابا شہر سے میرے لیے نیلے رنگ کا بستہ لایا جس پر پیلی پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ چھوٹی سی تختی بھی تھی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کے بستہ کمر میں ڈالے خوشی خوشی اسکول جاتا۔ دھلے دھلائے کپڑے پہناکر، سرمہ پائوڈر لگاکر اور کنگھی کرکے جب ماں چھوٹے سے شیشے میں میرا منہ دکھاتی تو مجھے اپنا آپ بڑا پیارا لگتا۔ لیکن ابھی میں نے کچی پکی کے قاعدے ختم کیے تھے کہ میری ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ میں سہم کر رہ گیا۔ میں جو بڑا خوش باش بچہ تھا، موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر سہم گیا۔ ماں کے مرنے پر میری شوخی اور شرارت بھی ختم ہوگئی۔ ابا کچھ عرصے بعد ایک عورت کو گھر لے آیا اور کہا یہ تمہاری ماں ہے۔ مجھے وہ بالکل اچھی نہیں لگی، اس نے ایک دفعہ بھی مجھے گود میں لے کر شیربابو نہیں کہا تھا۔ وہ بڑی غصے والی تھی۔ ابا بھی اس سے دبا دبا رہتا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ وہ مجھے پیار کرے، مجھ سے باتیں کریں، میرا منہ دھلائے، بال بناکے اسکول چھوڑ آئے، مگر میں اس سے بات کرتا تو وہ مجھے ڈانٹ کر بھگا دیتی۔

سوتیلی ماں نے پھر مجھے اسکول سے بھی اٹھوالیا۔ ابا کو کوئی فکر نہیں تھی، اس نے ایک دفعہ بھی مجھے دوبارہ پڑھانے کی بات نہیں کی۔ ابا کی نئی بیوی سارا دن مجھے کام پر لگائے رکھتی۔ چارپائی پر بیٹھی حکم چلاتی رہتی۔ ذرا سی غلطی پر خوب مارتی۔ ابا گھر آتا تو اسے میری جھوٹی سچی شکایتیں لگاتی، اور ابا ہر بات پر یقین کرکے مجھے اُس مٹی کی طرح کوٹ دیتا جسے وہ اینٹوں کے لیے کوٹتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ میری ماں سوتیلی ہے۔ جانے کیوں ماں کے ساتھ سوتیلی لگ جائے تو وہ ماں نہیں رہتی، بس سوتیلی ہوجاتی ہے۔ مجھے یہ لفظ ہی زہر لگنے لگا تھا۔ ایسی بدبو اٹھتی اس لفظ سے جیسے مائی نوراں کے تنور میں کسی جل جانے والی روٹی سے اٹھتی تھی۔ جب ابا کی بیوی کو زیادہ غصہ آتا تو وہ مجھے کھانا دینا بند کردیتی، میں بھوک سے روتا تو وہ گھر سے باہر دھکا دے کر کنڈی چڑھا لیتی۔ نہر کے پاس مائی نوراں کا تنور تھا، میں وہاں چلا جاتا۔ میرے چہرے پر لکھی بھوک اور روٹی کی طلب دیکھ کر مائی نوراں ایک کچی پکی روٹی میرے ہاتھ میں تھما دیتی جسے میں نہر کے قریب ہی موجود مزار کے ساتھ لگے برگد کے درخت تلے بیٹھ کر جلدی جلدی کھاتا۔

اس دوران نزدیک بیٹھا گھنگھرو بابا مجھے دیکھتا رہتا۔ میرا جی چاہتا کہ اُس سے اپنی نئی ماں کے لیے دعا کرائوں کہ وہ مجھے اسی طرح پیار کرے جیسے میری ماں کیا کرتی تھی۔ مگر بابا کے پاس جانے کیوں میں خوف زدہ ہوجاتا اور گھر بھاگ آتا۔ بعض دفعہ مجھے غصہ بھی آتا کہ اس نے میرے لیے کیوں دعا کی! میں غصے سے گھورتا تو لگتا وہ زیر لب مسکرا رہا ہے۔ دل چاہتا کہ اس کا سر پھاڑ دوں یا اٹھا کے نہر میں پھینک دوں۔ مگر اسی وقت ڈنڈے کی دھمک کے ساتھ گھنگھرو بجتا اور میرا خواب خوف کی نذر ہوجاتا۔ میں اب بڑا ہورہا تھا مگر ابا کو میری بالکل پروا نہ تھی۔ یہ عمر کا وہ دور تھا جب توجہ اور محبت کی ضرورت تھی، رہنمائی کی ضرورت تھی۔ لیکن اب ابا کے دو بیٹے اور بھی تھے، اُن کی ماں انہیں نہلا دھلا کر ابا کے پاس بٹھاتی، ابا انہیں پیار کرتا، اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا اور ان کی فرمائشیں سنتا، اور میں ابا کے حقے کی چلم گرم کرتا رہتا۔ بہت سا دھواں میرے منہ میں بھر جاتا اور کڑواہٹ سے گلے میں درد ہونے لگتا۔ گرم گرم پانی آنکھوں سے بہتا تو میں اپنے میلے پھٹے ہوئے کرتے سے صاف کرلیتا۔

میرا دل چاہتا کہ میرے بھائی میرے ساتھ کھیلیں، باتیں کریں۔ مگر اُن کی ماں نے اپنی نفرت اُن میں منتقل کردی تھی۔ وہ مجھے حقارت سے دیکھتے اور اپنی ماں کی طرح مجھ پر حکم چلاتے تو جی چاہتا کہ انہیں کھینچ کے تھپڑ ماروں، مگر پھر ابا کی مار مجھے ایسا کرنے سے باز رکھتی۔ مجھے لگتا کہ میں فالتو ہوں، کسی کو میری ضرورت نہیں۔ کچے ذہن کی تلخ سوچوں نے میرے اندر لاوا بھردیا تھا۔ بے رحم رویوں نے مجھ میں غصہ بھر دیا تھا۔ مجھے اپنی ماں بہت یاد آرہی تھی۔ ایک دن میں بیٹھا اپنے بارے میں سوچ رہا تھا اور بہت رو رہا تھا جب میں نے اپنے بھائی کو کہتے سنا ’’جانے یہ منحوس کب جان چھوڑے گا!‘‘ اُس کے دوست نے جواباً اُس سے کہا کہ ’’یہ تو تمہارا بھائی ہے‘‘، تو اُس نے نفرت سے کہا ’’ہونہہ، سوتیلا‘‘۔ یہ لفظ مجھے آگ کی طرح لگا اور میں بھڑک اٹھا، آئو دیکھا نہ تائو اُس پہ پل پڑا۔ مجھ پر جنون سوار تھا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ اُسے مٹی کے کھلونے کی طرح توڑ پھوڑ دوں۔

تب اچانک ابا کی دھاڑ پر میرے چلتے ہاتھ پائوں ساکت ہوگئے۔ میں ہوش میں آگیا۔ ’’کیا کررہا ہے کم بخت، مارے گا میرے معصوم بچے کو، تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تُو اس پہ ہاتھ اٹھائے!‘‘ پتا نہیں کیوں وہ بھول گیا کہ میں بھی اس کا بیٹا ہوں۔ اس نے تو بس یہ دیکھا کہ میں اس کے لاڈلے بیٹے کو مار رہا ہوں۔ قریب پڑی لکڑی اٹھا کے ابا نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ سارے بچے ڈر کر بھاگ گئے۔ ہاں ابا کا بیٹا بھاں بھاں رو رہا تھا۔ جتنی شدت اُس کے رونے میں آرہی تھی اتنی ہی شدت اور تیزی سے ابا کا ہاتھ چل رہا تھا۔ اچانک لکڑی پوری قوت سے میرے سر پر پڑی اور میں بے ہوش ہوگیا۔ جب آنکھ کھلی تو سارا جسم پھوڑا بنا ہوا تھا۔ جانے کہاں کہاں چوٹ لگی تھی۔ مجھے احساس ہوا وہاں نہیں ہوں جہاں مارا گیا تھا۔

گردن گھمائی تو گھنگھرو بابا کو اپنے سرہانے بیٹھے دیکھا۔ جانے کب وہ مجھے اپنی کٹیا میں اٹھا لایا تھا۔ اس نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا، گرم دودھ کا پیالہ میرے منہ سے لگایا، تب احساس ہوا کہ مجھے کتنی بھوک لگ رہی تھی۔ پیٹ بھرا تو خیالات نے دماغ کی راہ دیکھ لی۔ میں نے سوچا اگر میں مرجائوں تو کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔ ایسا کرتا ہوں نہر میں کود جاتا ہوں، چار پانچ اینٹیں اپنے جسم سے باندھ لوں گا تو آسانی سے ڈوب جائوں گا۔ شاید پھر ابا روئے گا، پچھتائے گا۔ ٹھیک ہے ذرا بابا سوجائے۔ یہ منصوبہ بناتے ہوئے میں نے بابا کی طرف دیکھا تو وہ اپنی سرخ آنکھیں مجھ پر جمائے نفی میں سرہلارہا تھا۔ ’’کندن ایسے نہیں بنتے بالک، بڑی مصیبتیں ہیں، بڑی مشکلیں ہیں، ابھی بھٹی میں تپ کر کندن بنے گا۔ ہاں بھکاری بنے گا، سچا بھکاری۔ خام ہے ابھی‘‘۔ اس کی الٹی سیدھی بے معنی باتیں میری سمجھ میں نہ آئیں، مگر خودکشی کا ارادہ بھاپ بن کر اُڑگیا۔ ہاں پھر میں گھر نہیں گیا۔ کیا کرنے جاتا وہاں، جب ضرورت ہی نہ تھی؟ جیسے ہی میرے جسم میں طاقت آئی میں رات کو ہی کسی وقت بابا کی کٹیا سے بھاگ نکلا۔ کچی سڑک سے پکی تارکول والی سڑک پر پہنچا، پھر سرخ پیلی بتیوں والی بس کے ڈنڈے سے لٹک کر شہر پہنچ گیا۔ میں پہلے بھی ایک بار ابا کے ساتھ شہر آیا تھا عید پر، خوب سیر کی تھی ہم نے، تب میری ماں زندہ تھی، اب میری ماں سوتیلی ہے۔ مگر بات تو وہی ہے، جس کی انگلی پکڑ کے میں نے چلنا سیکھا، جس کے کاندھوں پر بیٹھ کر جب میں نے پہلی بار اپنی توتلی آواز میں ’’آلو لے لو، پالک لے لو …‘‘کہا تھا تو ابا بہت ہنسا تھا، وہ میری ماں سے کہتا ’’نیک بخت تیرا شیربابو چھولے سبزی بیچے گا‘‘، اور میری ماں نے کہا تھا ’’ہائے رب نہ کرے، میرا شیربابو تو میز کرسی پر بیٹھے گا، بڑا آدمی بنے گا میرا سوہنا پتر۔‘‘ ماں میری بلائیں لیتی اور ابا مجھے گدگدی کرتا اور ننھا سا صحن میری کھلکھلاہٹوں سے گونجتا۔ پتا نہیں سوتیلی ماں کے آنے سے باپ کیوں سوتیلے ہوجاتے ہیں!

شہر آکے میں یونہی آوارہ گردی کرتا رہا۔ بھوک لگتی تو کسی نان بائی کی دکان پر چلا جاتا، رات کو فٹ پاتھ پر سوجاتا۔ پھر مجھے استاد بخشی ملا، وہ بشیر ہوٹل والے کے پاس بیٹھتا تھا۔ اس نے مجھے جیب کاٹنی سکھائی اور دھندے پر لگا دیا۔ ایک دفعہ پولیس والے کی جیب کاٹتے ہوئے پکڑا گیا اور جیل ہوگئی۔ ابھی مجھے جیل آئے ہوئے چند دن ہوئے تھے کہ ایک خطرناک ڈاکو شہنشاہ پکڑا گیا۔ اسے ایک دن کے لیے میرے ساتھ رکھا گیا، اس سے اگلے دن سینٹرل جیل منتقل کرنا تھا، اور یہی پولیس کی غلطی تھی۔ شہنشاہ کے لیے اس عام جیل سے فرار ہونا کوئی مشکل نہ تھا، وہ وہاں سے رات کو ہی بھاگ نکلا، مگر اب وہ اکیلا نہ تھا، میں بھی اس کے ساتھ تھا۔ ہم راتوں رات وہاں سے علاقہ غیر پہنچ گئے جہاں اس کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ شہنشاہ نے اپنے تمام گر مجھے سکھائے۔ وہ مجھے ’’شہزادہ‘‘ کہا کرتا تھا۔ چار سال بعد وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا اور ان چار سال میں مَیں ایک مکمل ڈاکو بن چکا تھا، کئی جگہ میں شہنشاہ کی جگہ گیا اور کامیاب رہا تھا۔ طریقۂ واردات کی وجہ سے پولیس ان ڈاکوں کو بھی شہنشاہ کے کھاتے میں ڈال چکی تھی، لہٰذا میں ابھی منظرعام پر آنے کے باوجود پولیس سے محفوظ تھا۔ پولیس نے اُس لڑکے کو تلاش کیا جسے شہنشاہ اپنے ساتھ لے آیا تھا، مگر میں ان کی پہنچ سے بہت دور تھا۔

شہنشاہ کے بعد جب میں نے پہلا ڈاکہ ڈالا تو بتاکر آیا کہ میں شیر ہوں، شہنشاہ کا جانشین۔ اور پھر سلسلہ چلا نکلا۔ میں نے لاتعداد ڈاکے ڈالے اور وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر، اپنا تعارف کرواکے۔ مگر ایک بات تھی، میں نے کبھی حلال روزی کمانے والے کے ہاں ڈاکہ نہیں ڈالا بلکہ جو دوسروں کا حق چھین کر اپنی تجوریاں بھرتے تھے وہی لوگ میرا شکار بنتے تھے۔ دولت میں نے کبھی جمع نہیں کی، کیوں کہ مجھے کبھی اس سے محبت نہیں رہی۔ میں صرف اتنی رقم اپنے پاس رکھتا جس سے میری ضروریات پوری ہوجائیں۔ بھیک مانگتے بہت بچوں کو میں نے اسکول کی کتابیں تھما کے اسکول میں داخل کرایا، ان کی فیس مَیں اکٹھی سالانہ ادا کرتا مگر ساتھ ہی انہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے پر لگاتا، تاکہ جب میں نہ رہوں تب بھی وہ تعلیم ادھوری نہ چھوڑیں۔ شاید یہ میری تشنہ خواہشات تھیں۔ میں اس لیے بھی ابھی تک پولیس کی پہنچ سے باہر تھا کہ میں ہمیشہ نقاب میں ڈاکے ڈالتا تھا۔ سیاہ نقاب، جس سے میری آنکھیں جھانکتی تھیں۔ حقیقتاً میرا حلیہ بہت مہذب اور شریفانہ تھا۔ ان پھول بیچتے، کاغذ چنتے اور گاڑیاں دھوتے بچوں کے ساتھ کھیلتے اور شرارتیں کرتے دیکھ کر کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ میں ہی وہ شیرو ڈاکو ہوں جس نے ناجائز کمانے والوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور محکمہ پولیس میں ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ مجھے انسانوں سے وحشت تھی، اسی لیے میں نے ویرانے میں مسکن بنایا، جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ وہاں میں اپنی تنہائی کے ساتھ تنہا رہتا تھا۔ اگرچہ اب مجھے پیسے کی کمی نہ تھی، مگر روٹی میں اب بھی تنور پہ کھاتا تھا۔ اس دن بھی میں کھانا کھا رہا تھا، میں نے ڈکیتی کا ایک شاندار منصوبہ بنایا تھا۔ ایک اور شکار میری نظر میں آگیا اور میں اس یقینی کامیابی پر پہلے سے ہی مسرور تھا۔

جلدی جلدی لقمے لیتے ہوئے میں نے یونہی نظر اٹھائی تو سامنے کی بینچ پر گھنگھرو بابا سرخ آنکھیں مجھ پر جمائے بیٹھا تھا۔ کتنے سال بعد دیکھا تھا اُسے۔ وہ اب بھی ویسا تھا۔ ایک لمحے کو مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو میلے میں کھوجانے والے بچے کو کسی اپنے کے ملنے پر محسوس ہوتی ہے اور پھر خوف کی ایک لہر مجھے اندر تک ہلاگئی۔ مجھے اُس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ تب اچانک وہ میرے سامنے آگیا اور کڑک کر بولا ’’بس بالک چھوڑ دے سب دھندے، بھکاری بن جا، سوالی بن جا، کود جا بھٹی میں، بس اس کے در کی بھیک‘‘ اور تیزی سے برابر کی گلی میں گھس گیا۔ میں جو سکتے کے عالم میں تھا، بے تابی سے اس کی جانب لپکا مگر جب گلی میں پہنچا تو وہ کہیں نہ تھا۔ کچھ دیر قبل میں بہت خوش تھا اور اب کیفیت برعکس تھی۔ میں ایک دَم اتنا ہی خوف زدہ ہوگیا تھا جتنا دس سال قبل قصبہ چھوڑتے ہوئے تھا۔ تب میں بچپن اور جوانی کے سنگم پر کھڑا تھا، اور اب ایک قدآور اور بے خوف جوان تھا۔ میری ذہنی یکسوئی ختم ہوگئی تھی، لہٰذا میں اپنے مسکن لوٹ آیا۔ بے کلی کہیں اندر آ کے بیٹھ گئی تھی۔ میں کب تک اسی سوچ میں غلطاں رہا کہ بابا مجھ تک کیسے پہنچا، اس کی مبہم باتوں کا کیا مطلب؟ اتنا ادراک تو مجھے ہوگیا تھا کہ بابا کا میری زندگی میں بہت دخل ہے۔ مگر کیوں؟ یہاں آکے گتھی الجھ جاتی۔ خیر میں نے تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکا اور لمبی تان کے سوگیا۔ صبح آنکھ کھلنے پر جانے کیوں وحشت زدہ تھا جیسے کسی انہونی کا خدشہ ہو۔ اسی ادھیڑبن میں مَیں اپنے منصوبے پر عمل کے لیے تیاریوں میں مصروف تھا، تمام تیاریوں کے بعد تفصیلی جائزہ لے کر میں اپنے مسکن پر الوداعی نظر ڈال کے نکلنے والا تھا تب وہ ہوگیا جس کا احساس میرے اندر ابھر ابھر کے ڈوب رہا تھا، پولیس مجھے گھیرے میں لے چکی تھی اور مجھے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا جارہا تھا۔ میرے اندر سناٹے اتر رہے تھے، میری بے جگری، بہادری جانے کہاں سوگئی تھی کہ میں جو ایک عرصے سے یہاں سکون سے تھا اچانک پولیس کا چھاپہ! میرے اعصاب جواب دے رہے تھے، جی چاہتا تھا کہ ہتھیار سنبھالوں اور پولیس والوں کو میٹھی نیند سلادوں۔ میں بے بسی کی آخری منزل پہ تھا۔ ہاتھوں نے ہتھیار اٹھانے سے انکار کردیا تھا، ذہن میں گھنگھرو بابا کے الفاظ گونج رہے تھے اور پھر خود سے جنگ کے بعد میں ہتھیار ڈال چکا تھا۔ جب پولیس والے مجھے دھکیلتے ہوئے اپنی وین میں بٹھا رہے تھے تومجھے بے تحاشا سناٹوں میں گھنگھرو بجتے محسوس ہوئے۔ جانے ایسا کیوں تھا!

حصہ