شعرو شاعری

223

…٭…
مومن خاں مومن
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامتِ اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
…٭…
فیض احمد فیض
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
…٭…
سلیم احمد
مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا
نئے اور پر اذیت منظروں سے ڈر نہیں لگتا
خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے
کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا
سمندر چیختا رہتا ہے پس منظر میں اور مجھ کو
اندھیرے میں اکیلے ساحلوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انہیں کمروں کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے کچھ ایسی آنکھیں چاہئیں اپنے رفیقوں میں
جنہیں بے باک سچے آئنوں سے ڈر نہیں لگتا
مرے پیچھے کہاں آئے ہو نا معلوم کی دھن میں
تمہیں کیا ان اندھیرے راستوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ ممکن ہے وہ ان کو موت کی سرحد پہ لے جائیں
پرندوں کو مگر اپنے پروں سے ڈر نہیں لگتا
…٭…
ظفر اقبال
یوں بھی نہیں کہ شام و سحر انتظار تھا
کہتے نہیں تھے منہ سے مگر انتظار تھا
مدت کے بعد پھول کی صورت کھلا تھا دل
شبنم کی طرح تازہ و تر انتظار تھا
بالوں میں دھول پاؤں میں چھالے نہ تھے مگر
پھر بھی کچھ ایک رنجِ سفر انتظار تھا
کوئی خبر تھی اس کی پرندوں کے شور میں
رنگِ ہوا میں شاخ و شجر انتظار تھا
یوں تھی جواہرات لب‌ و چشم کی جھلک
جیسے یہ کوئی لعل و گہر انتظار تھا
دالان و در میں ایک توقع تھی موج موج
دیوار و بام تھے کہ بھنور انتظار تھا
ایسے میں اعتبار کسی پر نہ تھا مجھے
میں بھی تھا ساتھ ساتھ جدھر انتظار تھا
آنکھیں تھیں خشک خشک تو دل بھی تھا بند بند
کھل ہی نہیں رہا تھا کدھر انتظار تھا
مایوس ہونے والے نہ تھے ہم بھی اے ظفرؔ
آیا نہیں تو بار دگر انتظار تھا
…٭…
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
…٭…
مظفر وارثی
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بد نام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
…٭…
آفاق صدیقی
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصلِ گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے
اب غمِ سود و زیاں کچھ بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں
اعتبارِ جسم و جاں کچھ بھی نہیں
کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں
ایک احساسِ محبت کے سوا
حاصل عمرِ رواں کچھ بھی نہیں
کوئی موضوعِ سخن ہی جب نہ ہو
صرف اندازِ بیاں کچھ بھی نہیں
…٭…
اجمل سراج
بجھ گیا رات وہ ستارا بھی
حال اچھا نہیں ہمارا بھی
یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں
اس میں کچھ دخل ہے تمہارا بھی
ڈوبنا ذات کے سمندر میں
ہے یہ طوفان بھی کنارا بھی
اب مجھے نیند ہی نہیں آتی
خواب ہے خواب کا سہارا بھی
لوگ جیتے ہیں کس طرح اجملؔ
ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی

حصہ