آو بچوں پارک چلیں

140

اسکول کی چھٹیاں ہو گئیں ۔ سارے بہن بھائیوں کے بچے بڑی دادی جان کے گھر میں خوشی خوشی رہنے کے لیے پہنچ گئے ۔ سب مل کر سیر و تفریح کے لیے پروگرام بنا رہے تھے ۔ علی نے مشورہ دیا کہ کسی اچھے سے مقام پر تفریح کے لیے جانا ہے تو۔۔’’عمر ماموں کو راضی کرنا ہوگا !‘‘ حیدر نے کہا: ’’ ویری گوڈ ایڈیا ۔‘‘ معاذ نے کہا کہ ’’ ارے عمر ماموں کو کون راضی کرے گا ؟ مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے۔ زید نے کہا ‘‘ ارے ڈانٹ کون سنے گا؟
اتنے میں ہانیہ ، بریرہ اور چوٹی سی زارہ اپنی دوپٹا ہوا میں لہراتے ہوئے خوشی خوشی پہنچ گئی اور کہنے لگیں کہ ارے واہ سب لوگ ڈرپوک ہیں ۔ بلا ڈرنے کی کیا بات ہے؟ ارے انسانوں سے نہیں ڈرنا بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو… عمر ماموں جان کو تو ہم لوگ راضی کر لیں گے انشاءاللہ۔۔۔۔۔ فکر مت کرو ! ارتضئ اور مرتضیٰ بھی تیار ہو کر پہنچ گئے ۔ یوسف نے کہا کہ ارے عمر ماموں کی ایک آواز سنتے ہی آپ لوگ چوہے کی طرح بھاگ جاؤ گے ہاں ! ایسی کوئی کہانی نہیں بچو ! آج کل لڑکیاں بہت بہادری سے کام کرتی ہیں۔ آپ لوگ بھی چوہے کی طرح نہیں بنو …بلکہ بہادر سپاہی بن کر پاکستان کی حفاظت کرو۔
اتنے میں عمر ماموں آگئے۔ سب خاموش ہوگئے۔ عمر ماموں بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ افراد ، مناہل ، صفیہ ، تسبیح، ارحا اور زینب عمر ماموں کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے ۔ عمر ماموں نے زوردار آواز سے کہا کہ سب بچے تیار ہو جائیں ۔
واقعی ! عمر مامو! ہاں بھئی… مذاق تھوڑی ہے ۔
چلوں…چلوں…جلدی تیار ہو جائیں ۔ پارک چلوں۔
آج میں نے سوچا ہے کہ گلشن اقبال میں الخدمت کے منتخب نمائندوں نے بہترین پارک بنا دیا گیا ہے۔ بہت خوبصورت اور صاف ستھرا پارک ہے ۔ پھولوں کا خوشبودار پارک ہے ۔ کراچی والوں کے لیے خوشخبری ہے کہ الخدمت جماعت اسلامی پاکستان نے بہت سے پارک زندہ کیے ہیں ۔ آج میں سب بچوں کو پارکوں کے سیر کراوں گا اور آئس کریم بھی کھلاوں گا ۔ واہ واہ عمر ماموں… آج ہمیں بہت مزا آئے گا۔
زہرا پھوپھو کہنے لگی عمر بھائی ! یہ کیا بات ہوئی! یہ کیا مذاق ہے ؟ ہم بھی جائیں گے ! کیوں کہ ’’ آج وہاں تقریب بھی ہے ۔ ہمیں بھی وہ خوبصورت ‘‘غزہ پارک’’دیکھنا ہے ۔ میں نے تو لوگوں سے بہت تعریفیں بھی سنی ہیں ۔‘‘
ارے باجی زہرا ! میں نے کب انکار کیا ہے ؟ بشریٰ چاچی پہلے سے وہاں موجود ہیں۔ ’’ چلوں…چلوں… پارک چلوں ۔‘‘ سارے بچے شور مچانے لکے کہ ’’ عمر ماموں زندہ آباد۔‘‘ سارہ اور آئمہ ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئی اور آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھیں۔وہ غزہ کے معصوم زخمی بچوں کو دیکھ کر آنسوؤں سے رو نے لگی ۔ ساجدہ تائی نے کہا کہ ارے تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ ہمیں اس وقت غزہ کے بچوں کو بھی یاد کرنا ہوگا۔ نبیلہ چاچی … ارے بچوں اٹھو ! اس لیے تو ان لوگوں کے یاد تازہ کرنے کے لیے یہ غزہ پارک نام رکھا ہے۔ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ خوشی کے موقع پر بھی ان معصوم بچوں کو بھی یاد کیا اور کرنا بھی ضروری ہے ۔
انشاءاللہ اللہ رب العالمین ہمارے ساتھ ہے ۔ ہم سب ملکر غزہ کے آزادی کے لئے اللہ تعالٰی سے دعا کریں گے۔۔۔۔۔ چاچی ! پاکستان کے لیے بھی ہم سب ضرور دعا کریں گے ۔ عروہ کہنے لگا اللہ رب العزت ہمارے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین یا رب العالمین۔۔۔۔ سارے بچوں نے ایک ساتھ کہا۔۔۔۔۔۔۔آمین

حصہ