پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہ کے شعری مجموعے لا حاصل دائرے کی تعارف تقریب

268

9 ویں حیدرآباد لٹریری فیسٹول میںپروفیسر ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ کے دوسرے شعرے مجموعے ’’لاحاصل دائرے‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد کی گئی جس کی نظامت عبدالغنی انصاری نے کی۔ ساجد رضوی اس پروگرام کے صدر تھے۔ اختر سعیدی‘ ڈاکٹر نثار‘ رانا خالد محمود اور نسیم شیخ مہمانانِ خصوصی تھے۔ ناظم تقریب نے کہا کہ حیدرآباد لٹریری فیسٹول ہر سال منعقد ہوتا ہے اس میں بہت سے ادبی پروگرام آگنائز کیے جاتے ہیں اس ادبی میلے میں پورے پاکستان سے افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس فیسٹول کا مقصد ادب ی ترویج و اشاعت ہے۔ رشید احمد زرداری نے کہا کہ ادب کے فروغ میں حیدرآباد فیسٹول کا اہم کردار ہے‘ اس قسم کی تقریبات سے علم و آگہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تشنگانِ علم و فن سیراب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال بلند پایہ شاعر ہیں‘ یہ طبی طور پر لوگوں کی مسیحائی کر رہے ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے اس معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔

راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال شاہ کا پہلا شعری مجموعہ ’’دلِ مضطرب‘‘ تھا جس نے ناقدین ادب سے خراج تحسین حاصل کیا ان کے دوسرے شعری مجموعے میں غزلیں‘ نظمیں اور گیت شامل ہیں ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی ذات کے مسائل اور معاشرے کی مٹتی ہوئی اقدار کا تذکرہ کیا ہے‘ ان کی شاعری میں ان کی صلاحیتیں نمایاں ہیں۔ ان کے یہاں غنائیت ہے اور دل کش اسلوبِ بیان ہے۔ انہوں نے عصری تقاضے نمایاںکیے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جدید لفظیات اور جدید استعارے پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ رانا خالد محمود قیصر نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانی فکری اساس میں شعری جمالیات کا رنگ بھر دیا ہے ان کی شاعری میں باہمی انسانی رشتوں کا دکھ ہے‘ آپ ایک حوصلہ مند شاعر ہیں‘ حقائق سے منہ نہیں موڑتے‘ مایوسی کے سمندر سے صدف تلاش کر لیتے ہیں۔ آپ کے یہاں شعری بصیرت بہ درجہ اتم موجود ہے‘ آپ نے عصرِ رواں کی تلخیوں اور مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ آپ کے یہاں غزل کے روایتی مضامین ملتے ہیں تاہم جدیدیت بھی موجود ہے۔ آپ نے شاعری میں سنجیدگی کے ساتھ زندگی کے تمام روّیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ آپ کی نظمیں زندگی سے بھرپور ہیں‘ آپ کے گیت بھی کمال کے ہیں‘ آپ کی شعری اٹھان اس بات کی غماض ہے کہ آپ مزید ترقی کریں گے‘ آپ کی ترقی کا سفر جاری ہے۔

اختر سعیدی نے کہا کہ شاعری کی دیوی داکٹر اقبال شاہ پر مہربان ہے‘ ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور تیسرا شعری مجموعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے جا رہا ہے۔ ان کی شاعری کی زبان بہت سادہ ہے‘ مشکل تراکیب‘ تلمیحات اور اضافتوں سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے بہت شان دار اشعار نکالے ہیں‘ ان کی شاعری ہمارے ذہنوں میں گونج رہی ہے۔ نسیم شیخ نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال شاہ محبتوں کے سفیر ہیں‘ ان کی شاعری میں انسانی جذبات کی ترجمانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام مشکلات پر قابو پانا ہماری ذمہ داری ہے‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے سجایا ہے‘ ہم اپنی شعور کے مطابق ہر مشکل کا حل تلاش کریں۔انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی گزارنے کے ہنر بیان کیے ہیں۔ انہوںنے اپنے محبوب کے قدوقامت میں اضافہ کیا ہے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کو سائنسی مضامین سے بھی سجایا ہے‘ ان کی نظموں میں بھی معاشرتی مسائل نظر آتے ہیں۔

صاحبِ اعزاز پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہ نے کہا کہ شاعری انسان کی بہترین دوست ہے‘ وہ انسان کو غلط راستے پر نہیں جانے دیتی‘ وہ بعض اوقات ہمیں زندگی کے دکھوں سے بچاتی ہے۔ میں شعبہ طب سے وابستہ ہوں لیکن شاعری میرے خون میں رواں دواں ہے۔ میں نے پہلا شعر پانچویں جماعت میں کہا تھا خدا کا شکر ہے کہ میں اب تواتر کے ساتھ غزلیں‘ نظمیں اور گیت کہہ رہا ہوں۔ شاعری نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا ہے‘ میری فکری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا ہے۔ میں ان تمام افراد کا ممنون و شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اپنے قیمتی خیالات سے نوازا‘ میری کتاب پر تبصرے کیے‘ ان کے حوصلہ افزا تبصرے میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں اور مجھے آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ میں حیدرآباد لٹریری فیسٹول کے آرگنائزر کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری کتاب کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا۔

تقریب میں ڈاکٹر اقبال شاہ کو تحفے تحائف اور گل دستے پیش کیے گئے۔ ساجد رضوی نے کہا کہ اس فیسٹول میں اُن اہم شعرا اور ادیبوں کا ذکر بھی شامل ہونا چاہیے جنہوںنے سندھی زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہ کی شاعری ایسا گل دستہ ہے جس میں مختلف اقسام کے پھول شامل ہیں اور ہر پھول اپنی مہک سے ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کر رہا ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں ان کے اشعار میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ ان کی شاعری میں انسانیت کا درس ہے۔ میں انہیں اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر اقبال دن دگنی رات چوگنی ترقی دیں گے۔
nn

حصہ