خطرناک تصویریں

169

صہیب بہت سنجیدگی سے موبائل پر جھکا کچھ دیکھ رہا تھا کہ لائبہ کمرے میں آئی تو اُس نے فوراً موبائل بند کردیا۔

’’کیا دیکھ رہے تھے؟ مجھے بھی دکھاؤ۔‘‘ لائبہ نے کہا تو صہیب نے کچھ دیر سوچا اور پھر پوچھا ’’امی! ابو ابھی آئے تو نہیں؟‘‘

’’نہیں…‘‘ لائبہ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

لائبہ اور صہیب دونوں او لیول کررہے تھے اور ان کے والدین کی سخت ہدایت تھی کہ صرف پڑھائی پر توجہ دینی ہے، کسی اور فالتو چیز میں نہیں پڑنا، ہاں کبھی کبھی انٹرٹینمنٹ کے لیے میچز یا مووی دیکھی جاسکتی ہے وہ بھی ہفتے میں ایک مرتبہ۔

’’تم نے کبھی دیکھی ہیں یہ وڈیوز اور تصاویر؟‘‘ صہیب نے پوچھا۔

’’ کون سی وڈیوز اور تصاویر؟‘‘

’’یہ دیکھو…‘‘ اس نے لائبہ کے آگے موبائل کیا۔

’’ کسی ہارر مووی کے کلپس ہیں یہ؟‘‘ لائبہ اسکرول کرتے ہوئے بولی۔

’’نہیں… یہ اصل تصویریں اور وڈیوز ہیں، ایسا سچ مچ ہورہا ہے ہم جیسے انسانوں اور بچوں کے ساتھ۔‘‘ صہیب بھرائی آواز میں بولا۔

’’امپاسبل… ایسا کیسے…کہاں ہو رہا ہے؟‘‘ لائبہ نے پریشان ہوکر کہا۔

’’آج کلاس میں کچھ بچے فری پیریڈ میں بات کررہے تھے کہ اسرائیل نے فلسطین میں تباہی مچائی ہوئی ہے اور بچوں تک کو شہید کررہا ہے، اور زیادہ تر بچوں کو معلوم تھا کہ یہ غلط ہے، اور سب کتنے فنڈز بھی دے رہے ہیں اور ریلیوں میں بھی جارہے ہیں… اور کتنی ہی چیزوں کا بائیکاٹ بھی کررکھا ہے۔‘‘ صہیب نے بتایا۔

’’مگر ہم کو تو امی ابو منع کرتے ہیں کہ نہ ایسی وڈیوز دیکھو اور نہ ہی تصویریں۔ اور نہ ہی ہم کسی چیز کا بائیکاٹ کررہے ہیں… بلکہ میک ڈونلڈ کو تو سب کتنا برا کہہ رہے ہیں۔ بھائی اس بچے کو دیکھو، کیسے پٹیوں میں لپٹا ہوا ہے مگر پھر بھی مسکرا رہا ہے۔ اور… یہ بچہ، اُف… اس کی تو، بلکہ یہ دیکھو کتنے بچوں کی نقلی ٹانگیں لگی ہوئی ہیں… اور اس شخص کو دیکھو، اس کی بھی نقلی ٹانگیں لگی ہیں، اور یہ بچے… کیسے خون میں لت پت ہیں… مجھے تو ان کو دیکھ کر ہی خوف آرہا ہے۔‘‘ وہ تصویریں آگے بڑھاتے اور تبصرہ کرتے ہوئے بولی۔

’’یہی تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ لوگ کیسے ہیں، کتنے بہادر۔ اور ہم… یاد ہے اس دن میرا گھٹنا چھل گیا تھا تو امی کتنا پریشان ہوئی تھیں، اور یہاں تو کتنے بچے مر گئے ہیں۔ ان کے ماں باپ کا کیا حال ہوگا! اور کوئی کچھ نہیں کہہ رہا،کوئی ملک ان کا ساتھ نہیں دے رہا، آخر کیوں؟‘‘ صہیب پریشان ہوگیا تھا۔

’’جب کہ میری نیٹ فرینڈ بتا رہی تھی کہ امریکا میں تو ماں، باپ اپنے بچے کو تھپڑ بھی نہیں مار سکتے، دنیا بھر میں بچوں کے تحفظ کی کتنی تنظیمیں ہیں، پھر وہ کیوں فلسطین کے بچوں کو نہیں بچا رہیں؟‘‘ لائبہ بولی۔

وہ دونوں ہی اداس اور پریشان تھے کہ اتنے میں امی ابو آگئے، دونوں کے ہاتھوں میں شاپرز تھے۔

’’ارے کیا ہوا میرے بچوں کو…؟ ایسے پریشان کیوں بیٹھے ہو؟ دیکھو ہم کیا لائے ہیں، تمہارے فیورٹ چاکلیٹ…‘‘ امی نے ان کے اترے ہوئے چہرے دیکھے تو فوراً چاکلیٹ نکال کر دی۔

صہیب اور لائبہ نے ایک نظر سامان پر ڈالی، اس میں تقریباً سب وہی چیزیں تھیں جن کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا۔

’’امی ان چیزوں کا تو بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، پھر آپ نے کیوں لیں؟‘‘ صہیب نے پوچھا۔

’’بالکل فضول بات… کس نے کہہ دیا تم سے! ہر اچھی چیز کا ہی بائیکاٹ کرنے کو کہہ دیتے ہیں… بے کار بات ہے، بھلا بائیکاٹ سے کیا ہوگا!‘‘ امی نے کہا۔

’’اور یہ تم کن چکروں میں پڑ گئے؟ تم کو کہا بھی تھا کہ ایسی وڈیوز اور تصاویر نہیں دیکھنی ہیں‘ دل خراب ہوتا ہے… میچز دیکھ لو، کوئی مووی دیکھ لو۔‘‘ ابو نے صہیب کے ہاتھ میں موبائل پر کھلی تصاویر دیکھ کر کہا۔

’’لیکن ابو! ہم بھی مسلمان ہیں، اور یہ بھی۔ اگر آج ان کے ساتھ ہم کھڑے نہیں ہوئے اور کل ہمارے ملک پر کسی نے حملہ کردیا تو ہمارا ساتھ کوئی دے گا…؟‘‘ لائبہ نے کہا۔

’’اور کیا ہم ان کے دکھ میں بھی شریک نہیں ہوسکتے! کتنی عجیب بات ہے نا کہ ہم تو پیزا، برگر کھائیں اور ان کے پاس دوائیں اور خوراک بھی نہیں۔ امی! ابو! اگر مجھے کسی نے تھپڑ بھی مار دیا تو آپ یقیناً اس کو پولیس کے حوالے کردیں گے۔ ان کے تو بچوں کو شہید ہی کردیا ہے، تو کیا ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے؟‘‘ صہیب نے کہا تو ان کی سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دیں۔

حصہ