بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام مشاعرہ

309

گزشتہ ہفتے بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں محمود جیلانی کے پنجابی شعری مجموعہ ’’کنج منائوں تینوں“ کی تعارفی تقریب کے ساتھ ساتھ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا اور کشور عروج کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔ تقریب کی صدارت محمود جیلانی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں اختر سعیدی، ریحانہ روحی، افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ شامل تھے، جب کہ راقم الحروف ڈاکٹر نثار، تبسم عرفان اور ہما بیگ مہمانانِ اعزازی تھے۔ ثبین سیف نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ شعر و سخن کی آبیاری ہمارا فرض ہے۔ مشاعرے بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔ یہ ادارہ ہر زمانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ شاعری سے معاشرے میں تبدیلیاں آتی ہیں، مزاحمتی اشعار سے انسان بیدار ہوتا ہے۔ شاعری ہمیں ذہنی آسودگی کے علاوہ معلومات فراہم کرتی ہے۔ امان اللہ نیازی نے کہا کہ محمود جیلانی سے میری دوستی کا دورانیہ تیس برس پر مشتمل ہے۔ ہم کالج میٹ ہیں، یہ ہمیں کالج میں بھی اشعار سنایا کرتے تھے۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرا یار آج ایک معتبر شاعر ہے اور اس کی کتاب کی تقریبِ پزیرائی میں ہم شریک ہیں۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ محمود جیلانی نے اردو میں بھی شاعری کی ہے اور پنجابی زبان میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اچھے اشعار نکالے ہیں۔ انہوں نے غزلوں کے علاوہ بہترین نظمیں بھی تخلیق کی ہیں، ان کی شاعری زندہ رہے گی، ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ محمود جیلانی ایک زندہ دل انسان ہیں، انہوں نے زندگی کے گرم و سرد گزارے ہیں، وہ زندگی کے مسائل حل کرنا جانتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک وکیل ہیں۔ انہوں نے ثقیل الفاظ سے پرہیز کیا ہے، سہلِ ممتنع میں شاعری کی ہے، ان کے اشعار ہمارے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، ان کی زندگی کے بہت سے مسائل ان کے اشعار میں نظر آتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی میں بہت سی دشواریاں پیش آئی ہیں اور ہر محاذ پر کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے علمِ عروض کی پابندی کرتے ہوئے شاعری کی بہت سی اصطلاحات پر اشعار کہے ہیں، ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ ریحانہ روحی نے کہا کہ محمود جیلانی ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، ان کے یہاں سچائیاں ہیں، وہ ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں، ان کی جہاں دیدہ نگاہیں اپنے ماحول پر فکس ہیں اور ہمارے معاشرے کے عروج و زوال ان کی شاعری کے عنوانات ہیں، انہوں نے غزل کے عصری موضوعات لکھے ہیں۔ محمود جیلانی نے کہا کہ وہ بارگاہِ ادب انٹرنیشنل کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری کتاب کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ادب کے خدمت گار ہیں۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر، مہمانان خصوصی، مہمانانِ اعزازی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ زاہد حسین جوہری، وقار زیدی، کشور عروج، شبیر نازش، شاہین برلاس، رمزی آثم، عرفانہ پیرزادہ، علی کوثر، شاہد صدیقی، نورعین فیاض، عفت مسعود، نگہت عائشہ اور شابی نثار نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

نیاز مندانِ کراچی کا مشاعرہ

نیاز مندانِ کراچی کے روح رواں رونق حیات نے اپنی رہائش گاہ پر فراست رضوی کی صدارت میں کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے شاعر فیصل عظیم کے اعزاز میں ایک مشاعرہ ترتیب دیا جس میں فیاض علی فیاض مہمان خصوصی تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید اور نعتِ رسولؐ کی سعادت ابرار حسین نے حاصل کی۔ رونق حیات نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ قلم کاروں کے مسائل حل کیے جائیں، حکومتِ پاکستان نے ادب اور قلم کاروں کی سہولت کی خاطر جو محکمے بنائے ہیں وہ اپنا کام ایمان داری سے نہیں کررہے ہیں۔ وہ من پسند قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ جینوئن قلم کاروں کی حق تلی ہورہی ہے۔ نیاز مندانِ کراچی نے قلم کاروں کے معاملات ہر سطح پر اٹھائے ہیں۔ ہم نے کانفرنس کے ذریعے اپنے مطالبات حکومت تک پہنچائے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرلے گی۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں شعرائے کرام حصہ دار ہیں۔ اچھی اور بامقصد شاعری سے مثبت رویّے جنم لیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے شعرائے کرام نے اپنی شاعری کے ذریعے یہ تحریک پیدا کی کہ ہم غلامی سے نجات حاصل کریں۔ اس وقت ہم جدید دور میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے شعرا جدید لفظیات اور جدید استعاروں سے اپنی شاعری سجا رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں شاعری مزید ترقی کرے گی۔ فیصل عظیم نے کہا کہ ہم کینیڈا میں اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں، پاکستان اور کینیڈا کے مسائل الگ الگ ہیں، تاہم کینیڈا میں تمام اردو بولنے والے ایک پیج پر ہیں، وہاں کی زندگی بہت مصروف ہے لیکن ہم شاعری کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ فراست رضوی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے مشاعرے کے مہمانِ اعزازی فیصل عظیم کے والد شبنم رومانی ایک قادرالکلام شاعر تھے، ان کا شمار اساتذہ کرام میں ہوتا ہے، انہوں نے زندگی بھر شعر و سخن کی ترقی میں حصہ لیا، ان کی ادبی تنظیم نے متعدد مشاعرے ترتیب دیے اور کامیابی سے اپنا کام کیا۔ فیصل عظیم کو شاعری ورثے میں ملی ہے، یہ نظم کے بہترین شاعر ہیں تاہم ان کی غزلیں بھی بہت کمال کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزل کے مقابلے میں نظم کی شاعری مشکل ہے۔ نظم کی شکل میں موجود شاعری ہر زمانے میں زندہ رہے گی، ترقی پسند تحریک نے نظمیہ شاعری کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اب شعرا سہل پسند ہوگئے ہیں، وہ غزل کہنے کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ نظم کے مشاعرے منعقد کیے جائیں اور نظم گوئی کو فروغ دیا جائے۔ مشاعرے میں فراست رضوی، رونق حیات، فیاض علی فیاض، فیصل عظیم، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، مقبول زیدی، تنویر سخن، عتیق الرحمٰن، احمد سعید خان، افتخار ملک ایڈووکیٹ، کاوش کاظمی، چاند علی اور زوہیب خان نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ