بے وقوف حجام کی عقل مند بیوی

310

بہت عرصے پہلے کی بات ہے ایک حجام تھا، وہ اتنا بے وقوف تھا کہ کوئی کام بھی صحیح طور پر نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنے گاہکوں کے سر کے بالوں کے بجائے کان کاٹ دیتا اور داڑھی بناتے وقت گلے اور چہرے پر کٹ لگادیتا تھا۔ اسی لیے رفتہ رفتہ لوگوں نے اس کی دکان پر آنا بند کردیا اور ایک دن ایسا آیا کہ اس کے پاس کوئی نہ آیا اور اس کے پاس کچھ نہ رہا سوائے استرے اور اس کی بیوی کے اور دونوں ہی تیز تھے۔

اس کی چالاک اور تیز مزاج بیوی عموماً اسے اس کی بے وقوفی پر طعنے دیتی رہتی جب اس نے دیکھا کہ گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں رہی تو ہمیشہ کی طرح چلانا رونا شروع کردیا، لیکن حجام نے سب کچھ سکون سے برداشت کیا اور کہا ’’شوروغل مچانے سے کیا فائدہ؟ یہ سب کچھ تو تم مجھ سے پہلے بھی کہتی رہی ہوں، میں تم سے بالکل متفق ہوں۔ میں نے نہ کبھی کام کیا، نہ کرسکتا ہوں اور نہ کروں گا۔ یہ حقیقت ہے!‘‘۔

بیوی نے جواب دیا: پھر تمہیں بھیک مانگنی چاہیے! میں فاقے نہیں کروں گی۔ تم بادشاہ کے پاس جائو اور اس سے کوئی چیز مانگ لائو۔ محل میں جشن منایا جارہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بادشاہ غریبوں میں خیرات بانٹ رہا ہوگا۔

حجام نے فرماں برداری سے کہا ’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ چوں کہ اپنی تیز مزاج بیوی سے تھوڑا سا ڈرتا بھی تھا، اس لیے سیدھا بادشا کے محل میں پہنچا اور بادشاہ سے ’’کوئی چیز‘‘ دینے کی درخواست کی۔

بادشاہ نے پوچھا: کوئی چیز، کیا چیز؟

اب تو حجام بہت سٹ پٹایا، کیونکہ اس کی بیوی نے کوئی خاص چیز نہیں بتائی تھی اور حجام اتنا کوڑھ مغز تھا کہ خود سوچ نہیں سکتا تھا، لہٰذا اس نے گھبرا کر کہا ’’اوہ! کوئی بھی چیز دے دیجیے‘‘۔

بادشاہ نے بیکار زمین حجام کو دے دی۔
بادشاہ نے پوچھا: کیا زمین کا قطعہ لو گے؟

بے وقوف حجام نے جو اپنی مشکل آسان دیکھی تو سوچا کہ شاید زمین ہی سب سے اچھی چیز ہے، لہٰذا فوراً ہی ہامی بھرلی۔ بادشاہ نے شہر سے دور پرے ایک بے کار زمین دینے کا حکم دے دیا اور حجام مطمئن ہوکر گھر واپس آگیا۔

بیوی بڑی بے صبری سے اس کی واپسی کا انتظار کررہی تھی، فوراً بولی: تم کیا لائے ہو؟ مجھے جلدی دو تاکہ میں کھانے کے لیے کچھ خرید کر لائوں۔

حجام کی بیوی نے خوب شور مچایا ، جب اسے پتا چلا کہ حجام بے کار زمین کا ایک قطعہ لے کر آیا ہے۔ حجام نے گڑبڑا کر کہا لیکن زمین، زمین ہوتی ہے۔ یہ کہیں بھاگ نہیں سکتی، ہمارے پاس کچھ نہ کچھ تو رہے گا۔

بیوی نے غصے سے کہا ’’تم جیسا احمق دنیا میں نہیں ہوگا، جب ہم اس زمین پر کاشت ہی نہیں کرسکتے تو اس کا کیا فائدہ؟ ہم ہل اور بیل کہاں سے لائیں گے؟

لیکن حجام کی بیوی بہت چالاک اور ہوشیار تھی، اس نے سوچنا شروع کردیا اور جلد ہی اس نے بے کار زمین کو کارآمد بنانے کا منصوبہ بنالیا۔ اس نے اپنے شوہر کو ساتھ لیا اور بنجر زمین پر پہنچ گئی۔ اس نے حجام سے کہا کہ بس میری نقل کرتے رہنا۔ اس نے میدان میں گھومنا شروع کردیا۔ وہ زمین کو جگہ جگہ بڑے مضطربانہ انداز میں دیکھتی رہی اور جب کوئی شخص وہاں سے گزرتا تو بہانہ کرکے فوراً بیٹھ جاتی اور یہ ظاہر کرتی جیسے کچھ بھی نہ کر رہی ہو۔ اتفاق سے سات چور وہاں جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے حجام اور اس کی بیوی کی ساری حرکتیں دیکھ رہے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ لہٰذا سورج غروب ہونے سے پہلے ان میں سے ایک چور صورت حال معلوم کرنے کے لیے آیا۔ چور جب ان کے پاس پہنچا تو حجام کی بیوی نے پہلے تو اِدھر اُدھر دیکھا پھر بڑے رازدارانہ انداز میں بتایا ’’یہ زمین میرے داد کی ہے۔ انہوں نے اس میں سونے سے بھری ہوئی پانچ دیگیں چھپادی تھیں۔ میں وہ جگہ تلاش کررہی ہوں تاکہ دیگیں کھول کر نکال لوں، مگر تم یہ بات کسی کو بتائو گے نہیں!

چور نے یہ بات کسی کو نہ بتانے کا وعدہ کیا، مگر جیسے ہی حجام اور اسے بیوی اپنے گھر گئے، چور نے اپنے ساتھیوں کو خزانے کے متعلق بتایا اور وہ سب خزانے کی تلاش میں لگ گئے۔ وہ تمام رات زمین کھودتے رہے اور اسے ہموار کرتے رہے، یہاں تک کہ کھیت اس طرح معلوم ہونے لگا جیسے سات مرتبہ اس پر ہل چلایا گیا ہو، مگر اتنی محنت کے باوجود وہاں سونا، چاندی تو کیا ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ ملی اور نہ ہی ملنی تھی تو وہ مایوس ہوکر چلے گئے۔

حجام کی بیوی نے جب کھیت کو اتنا عمدہ کھدا ہوا پایا تو وہ اپنے منصوبے کی کامیابی پر بہت خوش ہوئی۔ وہ ایک غلہ فروش کے پاس گئی اور اس سے چاول ادھار مانگے جو اس نے خوشی خوشی دے دیے کیوں کہ اسے تین گنا چاول ملنے کی امید تھی۔ حجام کی بیوی نے چاول کی فصل اگائی، جو امید سے زیادہ اچھی رہی، اس نے فصل بیچ کر قرض اتارا اور بچی ہوئی رقم سے سونے کی اشرفیاں خرید لیں۔

جب چوروں نے یہ ماجرا دیکھا تو انہیں بہت غصہ آیا۔ وہ حجام کے گھر گئے اور اس کی بیوی سے کہا ’’اس فصل میں سے ہمیں بھی حصہ دو۔ تم جانتی ہو کہ زمین کھود کر اسے کاشت کے قابل ہم نے کیا تھا۔

حجام کی بیوی نے ہنستے ہوئے کہا ’’میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اس زمین میں سونا موجود ہے مگر تم اسے حاصل نہ کرسکے، میں نے اسے حاصل کرلیا اور وہ سونا میرے پاس موجود ہے۔ تم لوگوں کا اس پر کوئی حق نہیں اور تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔

چوروں نے کہا ٹھیک ہے آج رات تم ذرا سنبھل کر رہنا۔ اپنا حصہ ہم خود حاصل کرلیں گے۔

چنانچہ اس رات کو ایک چور گھر میں چھپ کر بیٹھ گیا تاکہ جب گھر والے سوجائیں تو وہ اپنے ساتھیوں کے لیے دروازہ کھول دے لیکن حجام کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور اس نے اسے مزہ چکھانے کی ترکیب سوچ لی۔

حجام نے جو چوروں کی دھمکی سے خوف زدہ تھا، اپنی بیوی سے اشرفیوں کے متعلق پوچھا تو بیوی نے چھپے ہوئے چور کو سنانے کے لیے بلند آواز میں جواب دیا ’’میں نے دروازے کے قریب جو طاق ہے، اس میں مٹھائی کے نیچے ایک برتن میں اشرفیاں رکھ دی ہیں‘‘۔

چور یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ جب گھر والے سو گئے تو اس نے وہ برتن اٹھائے اور چپ چاپ گھر سے نکل گیا اور اپنے ساتھیوں سے اپنا کارنامہ بڑے فخر سے سنایا۔ ساتوں چور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے حجام کی بیوی نے کہا تھا کہ اوپر والے برتن میں مٹھائی ہے، میں پہلے وہ تقسیم کروں گا، کیوں کہ ہمیں بھوک بھی لگ رہی ہے۔ چنانچہ اس نے اندھیرے میں وہ چیز بانٹی، جسے وہ مٹھائی سمجھ رہا تھا لیکن حقیقت میں حجام کی بیوی نے اوپر والے برتن میں بکری کی مینگنیاں بھردی تھیں اور جب چوروں نے ندیدوں کی طرح وہ اپنے منہ میں بھرلیں تو آپ خیال کرسکتے ہیں کہ انہوں نے کیسے کیسے منہ بنائے ہوں گے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور انہوں نے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ جب دوسرے دن چور حجام کی بیوی کے پاس گئے اور اسے دھمکیاں دیں اور اپنا حصہ مانگا تو اس نے ان کا خوب مذاق اڑایا۔

چوروں نے کہا اب تم ہوشیار رہنا۔ تم نے ہمیں دوسری مرتبہ بے وقوف بنایا ہے، پہلی مرتبہ ہم نے تمام رات زمین کھودی اور دوسری دفعہ تم نے دھوکے سے مینگنیاں کھلادیں۔ آج رات ہماری باری ہے۔

اب دوسرا چور گھر میں چھپ گیا، لیکن حجام کی بیوی نے اسے بھی دیکھ لیا۔ پھر حجام نے رات کو پوچھا ’’تم نے اشرفیوں کا کیا کیا؟ مجھے یقین ہے کہ وہ بستر کے نیچے نہیں رکھی ہوں گی‘‘؟

بیوی نے جواب دیا: میں نے وہ نیم کے درخت کی شاخ میں لٹکادی ہیں کیوں کہ اس کے متعلق کوئی گمان بھی نہیں کرے گا۔

چھپا ہوا چور دل ہی دل میں خوب خوش ہوا اور جب دونوں میاں بیوی سوگئے تو وہ دبے پائوں گھر سے نکلا اور اپنے ساتھوں کو بتادیا۔ ان کا سردار بولا: یقینا یہ بات صحیح ہوگی۔

وہ نیم کے درخت کے پاس آئے تو دیکھا کہ کوئی چیز لٹکی ہوئی ہے۔ اس نے ایک چور کو حکم دیا کہ وہ اشرفیوں کو نیچے لائے۔ انہوں نے جو چیز دیکھی تھی، حقیقت میں وہ بھڑوں کا چھتا تھا۔ چھتے میں بڑی والی بھوری اور پیلی بھڑیں موجود تھیں۔ ایک چور درخت پر چڑھا وہ جوں ہی درخت کے قریب گیا تو ایک بھڑ اڑی اور اس نے چور کو کاٹ لیا۔ چور نے فوراً اپنا ہاتھ اس جگہ مارا۔

نیچے والے چلائے تم اشرفیاں اپنی جیب میں رکھ رہے ہو؟ ذلیل آدمی! تم یہ سمجھ رہے ہو کہ وہاں بہت اندھیرا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا؟

وہ بے چارہ جب بھڑکی کاٹی جگہ پر ہاتھ مار رہا تھا تو نیچے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اشرفیاں اپنی جیب میں بھر رہا ہے۔ چور نے جواب دیا یقین کرو، میں ایسا نہیں کررہا ہوں بلکہ کوئی چیز مجھے کاٹ رہی ہے۔ اسی وقت بھڑ نے اس کے سینے پر ڈنک مارا تو اس نے وہاں ہاتھ مارا۔

باقی چوروں نے کہا چھی، چھی شرم کرو، اب ہم نے تمہیں اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ اب تم رک جائو ورنہ تمہیں اس کی سزا دیں گے۔ پھر انہوں نے دوسرا آدمی اوپر بھیجا مگر بھڑوں نے اس پر بھی حملہ کردیا اور اس بے چارے نے بھی ادھر ادھر ہاتھ مارنے شروع کردیے۔ نیچے والے چلائے فوراً نیچے آئو!

پھر چوروں نے مال غنیمت لوٹنے کے لیے درخت پر چڑھنا شروع کردیا آخر میں سردار بھی اوپر چڑھ گیا اور اس نے پورا چھتا ہی اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر جب بھڑوں نے ان سب کو کاٹنا شروع کردیا تو وہ سب بلبلا اٹھے۔ پھر یہ ہوا کہ جس شاخ پر وہ بیٹھے تھے، ان کے وزن سے ٹوٹ گئی اور سب چھتے سمیت درخت سے زمین پر گرپڑے۔ بھڑوں نے کاٹ کاٹ کر ان کا برا حال کردیا۔

حجام اور اس بیوی بہت خوش تھے کہ سب چور اسپتال پہنچ گئے۔ وہ اتنے دن اسپتال میں رہے کہ حجام اور اس کی بیوی نے سمجھا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ غلطی پر تھی۔ ایک رات گھر کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی اچانک کانا پھوسی کی آواز سن کر حجام کی بیوی کی آنکھ کھل گئی۔اس نے چوروں کی آواز پہنچان لی۔ وہ گھبرائی تو بہت مگر اس نے ارادہ کرلیا کہ بغیر جدوجہد کے ہار نہیں ماننی چاہیے۔ اس نے اپنے شوہر کا تیز استرا ہاتھ میں پکڑا اور کھڑی کے قریب ایک طرف اندھیرے میں چھپ کر کھڑی ہوگئی اور جیسے ایک چور نے کھڑکی سے جھانکا اس نے بڑی صفائی سے چور کی ناک کاٹ لی۔

تیرا ستیاناس جائے! چور بلبلایا۔ وہ فوراً واپس ہوگیا اور دوسروں سے کہا کہ میری ناک کسی چیز سے کٹ گئی ہے۔ دوسرے نے چپکے سے کہا: ہش شش! تم سب کو جگادو گے، باہر آجائو۔

دوسرے نے کہا اونھ، تم نے شاید شٹر سے اپنی ناک ٹکرادی ہوگی۔ ہٹو پیچھے، اب میں جاتا ہوں۔اور پھر اس کی ناک بھی کٹ گئی۔ اس طرح چوتھے، پانچویں اور چھٹے کا بھی یہی حال ہوا۔ آخر سردار کی باری آئی، سردار بہت ہوشیار تھا اور ناک کی قیمت جانتا تھا، لہٰذا اس نے کہا ’’ایک آدمی کو صحیح سلامت رہنا چاہیے، تاکہ تمہارے زخموں کی دیکھ بھال کرسکے۔ آئو اب چلیں، کل آئیں گے۔

ان کے جانے کے بعد حجام کی بیوی نے چراغ جلایا اور تمام ناکوں کو جمع کرکے ایک صندوق میں رکھ دیا۔ اب اس سے پہلے کہ چوروں کے زخم بھرتے گرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ حجام اور اس کی بیوی کو گھر میں گرمی لگتی تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی چارپائیاں گھر کے باہر بچھالیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اب چوروں کو کافی سزا مل چکی ہے اور وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک دن جب چوروں نے ان کو باہر سوتے دیکھا تو حجام کی بیوی کی چارپائی اٹھا کر چلتے بنے۔ ہلنے جلنے سے حجام کی بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ چارپائی سمیت چوروں کے کاندھوں پر سوار ہے اور تین چور پیچھے چل رہے ہیں۔ مگر اس نے اپنے حواس قائم رکھے۔ وہ سوچتی رہی، سوچتی رہی مگر بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ کچھ دور جاکر وہ لوگ برگد کے ایک درخت کے نیچے پہنچے۔

چور بہت تھک گئے تھے آرام کی خاطر انہوں نے چارپائی زمین پر رکھ دی۔ برگد کا درخت دیکھ کر حجام کی بیوی کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے کمبل کو چارپائی پر اس طرح پھیلادیا جیسے وہ سورہی ہے اورخود برگد کی شاخ پکڑ کر لٹک گئی۔ اس وقت چاندنی رات تھی۔ چوروں نے سردار سے کہا تم جاگو اور ہم سوتے ہیں، کیونکہ ہماری ناکیں ابھی زخمی ہیں۔ وہ سب سوگئے اور سردار ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔

اب حجام کی بیوی کے ذہن میں ایک اور منصوبہ آیا۔ اس نے اپنی سفید چادر کا نقاب بنا کر منہ پر ڈال لیا اور دھیمی آواز میں گانا شروع کردیا۔ سردار نے اوپر نظر اٹھائی۔ اس نے دیکھا کہ ایک نقاب پوش عورت بیٹھی ہوئی ہے۔ سردار نے سوچا کہ یہ کوئی پری ہے اور میری خوبصورتی کو پسند کرتی ہے۔ اس نے سنا تھا کہ چاندنی راتوں میں پریاں ایسی حرکت کرتی ہیں۔ وہ مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے بولا اچھی پری! نیچے آجائو، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا‘‘۔ لیکن وہ گانا گاتی رہی اور سردار کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو وہ درخت پر چڑھا اور اس کے قریب جاکر کہا: کیا بات ہے اے خوب صورت پری! کیا تم مجھے پسند کرتی ہو؟حجام کی بیوی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’جن مردوں کی ناک لمبی ہوتی ہے، وہ بے وفا ہوتے ہیں۔ تم بھی انہی میں سے ہو۔ سردار نے قسم کھا کر کہا کہ میں تو بے وفا نہیں ہوں۔

مگر حجام کی بیوی نہ مانی اور کہا تم جھوٹ بول رہے ہو، اپنی زبان باہر نکالو۔ میں تمہاری زبان دیکھ کر بتادوں گی کہ تم جھوٹے ہو یا سچے۔ سردار نے اپنی زبان باہر نکالی تو حجام کی بیوی نے جلدی سے اس کی زبان کی نوک کاٹ ڈالی۔ اس اچانک حملے سے سردار پریشان اور دہشت زدہ ہوکر شاخ سے زمین پر گرپڑا۔ گرنے کی آواز سن کر اس کے ساتھی جاگ گئے اور چلائے ’’کیا بات ہے؟‘‘

بل … ال… بل … ال … ال! سردار نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، کیونکہ اس کی زبان کی نوک تو تھی نہیں، اس لیے وہ صاف طور پر بول نہیں پارہا تھا۔وہ سردار کے کان میں چیخ کر بولے کیا بات ہے؟

اس نے پھر درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بل … ال … آ … بل … آ…!

اس پر ایک بولا ’’اس پر اثر ہوگیا ہے، شاید یہاں کوئی چڑیل ہے‘‘۔

اس دوران حجام کی بیوی نے اپنی چادر کو پھڑپھڑانا اور خوفناک آوازیں نکالنا شروع کردیں۔ چور اتنے ڈرے کہ انہوں نے اوپر نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور سردار کے ساتھ بھاگ گئے۔ حجام کی بیوی اپنے گھر آگئی۔ چور جب اپنے ٹھکانوں پر پہنچے تو سوچا کہ ہم طاقت کے ذریعے حجام کی بیوی سے کچھ حاصل نہیں کرسکتے، لہٰذا انہوں نے قانون کا سہارا لیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کردیا۔

بادشاہ کے بلانے پر حجام کی بیوی حاضر ہوئی اور سارا واقعہ بادشاہ کو سنادیا۔ ثبوت کے طور پر چوروں کی کٹی ہوئی ناکیں اور زبان پیش کردیں۔ بادشاہ یہ سن کر بہت ہنسا اور خوش ہوکر اس نے حجام اور اس کی بیوی کو کو اپنا وزیر بنالیا اور کہا ’’جب تک اس کی بیوی زندہ ہے، یہ کوئی بے وقوفی کا کام نہیں کرسکتا‘‘۔

بادشاہ نے چوروں سے کہا کہ تمہیں اپنے لالچ کی کافی سزا مل گئی ہے لیکن میں تم کو گرفتار کرکے پہلے تمہارے زخموں کا علاج کروائوں گا اور پھر تمہیں جیل میں قید کردوں گا تاکہ آئندہ تم کسی اور کو لوٹنے کی کوشش نہ کرسکو۔

حصہ