پربت کی رانی کا انجام قسط12

184

ابتدائی طور پر پولیس کے لیے ہدایات آ چکی تھیں کہ وہ اپنے اپنے شہروں، خصوصاً اہم تجارتی شہروں اور دارالحکومت کی ہر چھوٹی بڑی آبادیوں میں ایسے لوگوں کا کھوج لگائے جو پربت کی فضاؤں یا وہاں کی غذاؤں کے زیر اثر ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے افراد پر بھی نظر رکھیں جو ہواؤں یا غذاؤں یا ان دونوں کے متبادل اشیا کو سپلائی کا کام کرتے ہوں۔ یہ بھی نظر رکھیں کہ کیا ہوائیں یا غذائیں یہیں کسی جگہ یا شہروں میں تو نہیں تیار کی جا رہیں۔ جب تجزیہ اور تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پربت کی آلودہ ہواؤں اور غذاؤں کا اثر عارضی ہے تو ایسے لوگ جو دشمنوں نے ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں پھیلائے ہیں تو پھر ان کیلیے آلودہ ہواؤں اور غذاؤں کی فراہمی بھی یقینی بنانے کا انتظام ضرور کیا گیا ہوگا۔ یہ سب باتیں تو بے شک ضروری اور درست ہی تھیں لیکن ایسے افراد کو تلاش کیسے کیا جائے گا۔ پربت کی ہواؤں اور غذاؤں سے متاثرین کی ظاہری شکل و صورت میں کوئی تبدیلی تو رونما ہوتی ہی نہیں تھی۔ پولیس کے لیے یا خفیہ والوں کیلیے یہ بات تو اہم تھی ہی لیکن جمال، کمال اور فاطمہ کے لیے بھی اس بات کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پولیس اور بیشتر وہ اہلکار جو خفیہ سے وابستہ ہوتے ہیں وہ دماغ سے کام لینے کی بجائے ڈنڈے سے کام لینے کے زیادہ عادی ہوتے ہیں۔ اپنے حساب سے مشکوک افراد کو اٹھا لیتے ہیں اور پھر ان پر تشدد کرکے راز اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ ان کی نظر میں نہ جانے کتنے مشکوک لوگ پورے ملک میں گرفتار کئے جا چکے تھے۔ ان گرفتار کئے جانے والے افراد میں زیادہ تر عادی مجرم یا نشے کے عادی لوگ تھے۔ پولیس یا دیگر اداروں کے اہلکاروں کا اپنا انداز سہی لیکن جمال، کمال اور فاطمہ کا انداز بہر حال ان سے کہیں مختلف تھا۔ خواہش یہ تھی کہ کوئی ایسا متاثر فرد ان کے قابو میں آ جائے جس پر اینٹی پائزن ڈوزز اور اینٹی آلودہ ہوا کا عملی طور پر تجربہ کیا جا سکے اور ان کے مثبت نتائج کا جائزہ لیکر اس بات کو یقین کی حد تک درست جانا جائے تاکہ پربت کو کامیابی کے ساتھ سر کیا جا سکے۔
خفیہ اور پولیس کی خصوصی اجازت حاصل کرنے کے بعد تینوں نے اپنے انداز میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ابھی گرمیوں کی بیس بائیس دن کی چھٹیاں باقی تھیں، اس لیے گھر اور محکمے والوں سے اجازت لینے کے بعد جمال، کمال اور فاطمہ نے دارالحکومت جانے کا پروگرام بنالیا۔ حیدر علی نے کہا کہ وہاں کسی رشتے دار، جاننے والوں کے پاس یا ہوٹلوں میں رہنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔ ایک تو تم تینوں کم عمر ہو اور دوسرا یہ کہ دشمن بھی کوئی کم عیار نہیں اس لیے ہم نے خفیہ پولیس کے ایک مرکز میں تمہارے طعام و قیام کا انتظام کر دیا ہے جہاں تمہیں نہ صرف ذاتی ضروریات کی تمام اشیا طلب کرنے پر فراہم کی جاتی رہیں گی بلکہ جس قسم کی بھی مدد تمہیں درکار ہوگی، فراہم کی جائے گی۔ ویسے تو جمال، کمال اور فاطمہ بالکل ہی آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن انسپکٹر حیدر علی کی لاجک ان کے دل کو لگی اور انھوں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان پر دن کے 24 گھنٹے کے کسی بھی لمحے میں آنے جانے کی کوئی پابندی نہیں ہوگی البتہ وہ مسلسل اس اڈے کے انچارج کو اپنی ہر جگہ کی موجودگی سے با خبر رکھیں گے لیکن اگر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ حیدر علی نے کہا کہ ”اگر کے ساتھ” کا کیا مطلب ہے، تو جواب دیا کہ اگر ہم نے ایسا کرنا مناسب سمجھا تو، جس پر حیدر علی خاموش ہو گئے۔
جمال اور کمال نے اس مہم کے لیے فاطمہ کا نام ایسے ہی نہیں لے لیا تھا۔ بات بہت خاص تھی اور وہ یہ تھی کہ ان کے یقین کے مطابق فاطمہ کی ”حسِ شامہ” یعنی سونگھنے کی حس، جمال اور کمال، دونوں سے بہت زیادہ ہی تیز تھی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو کسی بھی قسم کی خوشبو یا بد بو کو کوئی اس سے زیادہ بہتر طریقے سے سونکھ سکتا ہو۔ پھر یہی ہی نہیں کہ وہ ”بو” کو محسوس کر لیا کرتی تھی بلکہ اسے یہ پہچان بھی تھی کہ کسی بھی بدن یا کہیں سے بھی پھوٹنے والی بو کس کی ہے۔ اس بات کا احساس فاطمہ کو بھی نہیں تھا کہ اللہ کی اس عطا سے صرف اس کے علاوہ کوئی اور بھی واقف ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وہ جمال اور کمال کی کسی مہم کا حصہ بنے اور اپنی عطا کی گئی قوتِ شامہ سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچا کر حیران کر دے۔ بے شک فاطمہ نے اپنی صلاحیت کے بارے میں اپنے والدین تک کو نہیں بتایا تھا لیکن فاطمہ کے لیے یہ بات بہت ہی حیران کن تھی کہ جمال اور کمال اس کی اس صلاحیت کا علم کیسے رکھتے ہیں۔ جب جمال اور کمال سے فاطمہ نے یہ پوچھا کہ تم نے مجھے اپنی کسی مہم میں شریک کرنے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا تو دونوں نے کہا کہ اگر تم حیرت سے بے ہوش نہ ہونے کا یقین دلاؤ تو ہم تمہیں بتائیں گے کہ اس مہم میں ہم نے تمہارا چناؤ کیوں کیا۔ ابھی تو فاطمہ کو اپنے سوال کا جواب بھی نہیں ملا تھا تب اس کا یہ حال تھا جیسے حیرت سے اس کی آنکھیں حلقے باہر آتی محسوس ہو رہی تھیں کہ جمال اور کمال ایسی کیا بات بتانا چاہ رہے ہیں جس کو جان کر وہ بے ہوش بھی ہو سکتی ہے۔ فاطمہ نے کہا، چلو میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں بے ہوش نہیں ہونگی اور اگر ایسا ہونے لگے تو تم ٹھنڈے پانی کا پورا گلاس میرے منہ پر ڈال دینا۔ جمال اور کمال نے کہا تو سنو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں سونگھنے کی اتنی زبردست حس دی ہے کہ ایسی حس دنیا میں کسی کو بھی عطا نہیں ہوئی ہو گی۔ اتنا کہنا تھا کہ جمال اور کمال کو حقیقتاً اپنے پاس گلاس میں رکھے ٹھنڈے پانی کو فاطمہ کے منہ پر ڈالنا پڑ گیا۔ کچھ ہوش سنبھلا تو فاطمہ نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا کہ خدا کی قسم یہ بات تو میرے ابو امی تک کو نہیں معلوم، تم کو کیسے معلوم ہو گئی۔ جمال اور کمال نے کہا کہ ذرا اپنی حالت پر قابو پاؤ تو ہم یہ الجھن بھی دور کر دیں گے۔ (جاری ہے)

حصہ