عوامی بس کا سفر

210

عمر کے اس حصے میں ہمیں اپنی زوجہ کے ساتھ بس میں سفر کرنا پڑے گا وہ بھی اندرون کراچی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ ہم اپنی سالی صاحبہ کے گھر دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے۔ بچے رات ہی میں روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی صبح ہم نے موٹر سائیکل کو جگایا اُس نے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کردیا۔ کاش ہم بھی موٹر سائیکل کا کوئی پرزہ ہوتے اور ہماری بھی جان بخشی ہوجاتی۔

چارو ناچار ہم نے زوجہ کے ساتھ مرکزی سڑک کا رُخ کیا۔ بچوں کی موجودگی ہوتی تو ہم ان سے موبائل کے ذریعے گاڑی منگوا لیتے، لیکن ہمارا شمار اُس آدھی قوم میں ہے جو آن لائن کاموں سے نابلد ہے اور اس کے لیے اپنی اولاد کی محتاج ہے۔

خیر جناب! سڑک پر پہنچ کر ہم نے سب سے پہلے اسٹاپ کی صحیح جگہ کا تعین کیا، کیوںکہ اسٹاپ کے دونوں طرف دور تک ہم نے لوگوں کو کھڑا پایا۔ سڑک پر گویا ذاتی گاڑیوں کا قافلہ رواں تھا۔ ہر گاڑی میں موجود ایک آدمی اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی گاڑی ہونا ضروری ہے، لیکن ایسی صورت میں تنگ ادھڑی ہوئی سڑکیں ان کے اس اسٹیٹس کو متوازن کرنے سے قاصر ہیں۔ مرکزی سڑک کو تنگ کرکے اس پر پل بناکر اس پر ایک بس چلانا بقیہ عوام کو اذیت اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ ان لاڈلے پلوں کی تعمیر نے چوڑی سڑکوں کو تنگ گلیاں بناکر انفرااسٹرکچر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

ہم انہی سوچوں میں غلطاں تھے کہ بیگم کی نقاب سے جھانکتی دو غصیلی آنکھوں نے ہمیں دور ِحاضر میں لا کھڑا کیا۔

’’وقت کا کچھ اندازہ ہے؟‘‘

سوال تھا کہ پہیلی، جواب دینے سے پہلے سوچنا پڑا کہ تیر کس سمت میں چلایا گیا ہے! آیا وقت پوچھا ہے یا تاخیر بتانا مقصود تھا؟ عین ممکن ہے کہ یہ باور کرانا ہو کہ میکے کی دعوت پہ بائیک کا خراب ہونا ہماری کوئی چال ہے!

ہم نے بہ مشکل تھوک نگلا اور منمناتے ہوئے جواب دیا ’’چلیں بیگم! رکشہ کر لیتے ہیں۔‘‘ دہکتی آنکھوں کے سمندر میں کچھ ٹھنڈک سی اترتی ہوئی محسوس ہوئی تو ہم نے اس کو مثبت اشارہ جان کر رکشہ روکا۔ ’’بھائی صاحب! تین اسٹاپ آگے جانا ہے۔‘‘

’’پانچ سو روپیہ لگے گا۔‘‘ رکشے والے نے جواب دیا۔

ہم نے مسکراتے ہوئے کہا ’’نہیں بھائی صرف جانا ہے، واپس ہم خود آجائیں گے۔‘‘

’’صرف جانے کا بولا ہے صاحب! واپس لائے گا تو ہزار روپے لے گا اور آدھا گھنٹے سے زیادہ ہم نہیں رکے گا۔‘‘

ہم ہونق کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگے۔

’’کیا ہوگیا بھائی! پیٹرول کا قیمت نہیں معلوم؟ اور جہاں تم ہم کو لے کے جا رہا ہے وہاں پوری سڑک کھدی ہوئی ہے اور پیٹرول کی بوتل بھی آدھی بھروائی ہے۔‘‘

ہم نے بے اختیار ضرورت ایجاد کی ماں پیٹرول کی اس بوتل کی طرف دیکھا جو سی این جی رکشہ کو پیٹرول والا بنا دیتی ہے۔

اسی اثنا میں چنگ چی آکر رکا، چنگ چی والے کی ایک ٹانگ کے گھٹنے تک چڑھے پائنچے کو دیکھ کر ابھی کچھ فیصلہ ہی کرتے کہ سارے لوگ لپک کر اس میں چڑھ گئے۔

ہم نے بے اختیار سوالیہ نظروں سے بیگم کی طرف دیکھا اور بیگم کی آنکھوں نے ہمیں انکار کردیا۔ خیر جناب ہم بس کے انتظار میں کھڑے ہوگئے جس کا غالباً کوئی وقت معین نہیں۔

نہ جانے کیوں پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال اب صرف غربت کی پہچان بن کر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری بے بسی پہ پیار آگیا اور دور سے ایک ڈبہ نما چیز لہراتی بل کھاتی دکھائی دی۔ غیر لائسنس شدہ ڈرائیور کے ہاتھ کی چلتی ہوئی یہ بس ہمارے ہی روٹ کی تھی۔

بس کو روکنے کے لیے ہاتھ آگے کیا۔ بیچ سڑک پر بس کے رکتے ہی ہم لپک کر دروازے تک پہنچ گئے۔ شومیِ قسمت جگہ کا فقدان بالکل نہیں تھا۔ بیگم کو اپنے چھوٹے سے کمپارٹمنٹ میں کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔ وہ تو بھلا ہو ایک مرد کا جو اس کمپارٹمنٹ میں بیٹھا تھا، اُس نے مردانگی دکھاتے ہوئے خواتین کی سیٹ کو خواتین کے لیے چھوڑ دیا۔ ہم نے پچھلے کمپارٹمنٹ کا رخ کیا۔ پائیدان سے اوپر چڑھ جانا گویا دل کو باغ باغ کر گیا۔ اترنے والے مسافروں کا شکریہ جنہوں نے دھکے دے کر ہمیں خواتین کمپارٹمنٹ کی جالی تک پہنچا دیا۔

تین اسٹاپ آگے جانا ہے، ایک سواری آگے ہے‘‘۔ بیگم کی طرف اشارہ کیا۔

’’دو سو روپے‘‘۔ کنڈیکٹر نے اپنے گٹکے بھرے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اپنا من مانا کرایہ بتایا۔
’’ہائیں ! دو سو روپے!‘‘
’’کیا ہوگیا بڑے میاں! کیا بس میں سفر نہیں کرتے؟‘‘
مرتے کیا نہ کرتے، پیسے اُس کے حوالے کیے۔ اندازہ تھا کہ مہنگائی ہے، پَر اتنی ہے یہ نہیں معلوم تھا۔ اگلے اسٹاپ پر دو لڑکے بس میں چڑھے۔ ’’موبائل نکالو جلدی…‘‘آواز تھی کہ بم بن کر سماعتوں پر گری۔ گھبرا کر موبائل نکال لیا۔ لیکن کچھ لمحوں تک حرکت نہ ہونے پر پلٹ کر دیکھا تو ایک دوست دوسرے سے مخاطب تھا۔ دل حلق سے اترکر واپس جگہ پر آگیا۔ بس میں چلتے ہوئے بے ہودہ اور بے ہنگم گانے نے دماغ کی چولیں تک ہلا دیں۔ ظرف ہے ہماری قوم کا جو اس ٹارچر کو روزانہ کی بنیادوں پر سہتی ہے۔
شکر ہے کہ اگلا اسٹاپ ہماری منزل تھی۔ ہم نے دروازے کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ اسٹاپ آنے سے پہلے ہی دروازے کو زور زور سے پیٹنا شروع کردیں ورنہ آپ کو اگلے اسٹاپ پہ اترنا پڑے گا۔ اس حفظ ماتقدم کے باوجود اسٹاپ سے بہت دور جا کے بس رکی تو ہم اتر کر جلدی سے خواتین کمپارٹمنٹ کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے اور بیگم صاحبہ کو ہاتھ دیا کہ تھام کر اتر جائیں۔ بیگم شرما سی گئیں، ہم بھی لجا سے گئے۔
اچانک عقب سے آواز ابھری ’’میں یہاں ہوں۔‘‘

ہم پلٹ کر اصلی بیگم کی طرف لپکے لیکن جب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ خیر جناب ایک مشورہ ہے، رات میں ہلدی دودھ کا استعمال بہت کارگر ہوتا ہے خاص طور پر بس میں سفر کرنے کے بعد۔

حصہ