پربت کی رانی کا انجام قسط12

134

جمال اور کمال کے سامنے غذاؤں اور ہواؤں کا تجزیہ تو آ گیا تھا اب انتظار تھا تو یہ کہ ان کے اینٹی ڈوزز یا اسپرے کب تیار ہوتے ہیں جس سے پربت کی فضا اور وہاں فراہم کی جانے والی غذا کو بے اثر بنایا جا سکے۔ ان ڈوزز اور اسپروں کی تیار کے بعد ہی دوسرا قدم اٹھایا جا سکتا تھا۔ یہ قدم کیسے اٹھایا جا سکتا ہے، اس پر غور کیا جارہا تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس مرتبہ ان کی ٹیم میں ایک فرد کو بڑھایا سکتا ہے۔ وہ فرد کون سا ہو سکتا ہے، تو اس سلسلے میں بار بار ایک ہی نام گونجتا تھا۔ ”کورے کاغذ” کے کیس میں جمال اور کمال ہی کے محلے کی ایک لڑکی، جس کا نام فاطمہ تھا، اس نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جمال اور کمال کو میری ضرورت پڑی تو وہ جمال اور کمال کے ساتھ کام کرنے میں فخر محسوس کریگی۔ یہ ایک ایسی بہادر لڑکی تھی جس کو ملک دشمنوں نے اغوا کر لیا تھا لیکن اس نے بجائے گھبرانے اور پریشان ہونے کے بڑی دلیری سے کام لیا اور اپنے ہوش و حواس بر قرار رکھے۔ اسے خبر تھی کہ جمال اور کمال شام کے وقت عام طور پر کھیل کے میدان تک آتے ہیں۔ دشمنوں نے اسے اغوا کرنے کے بعد ایک ویران عمارت میں رکھا تھا جس کے متعلق علاقے کے لوگوں میں مشہور تھا کہ اس پر آسیب کا سایہ ہے۔ یہ عمارت دو ڈھائی سو سال پرانی تھی اور کافی حد تک مخدوش تھی۔ یہ کھیل کے میدان سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھی اس لیے یہ کہنا مشکل تھا کہ جمال اور کمال کی نظر لازماً اس پر پڑے گی۔ فاطمہ کے اغوا کئے جانے کی خبر جمال اور کمال کو چونکا دینے کے لیے کافی تھی۔ پورا محلہ جمال اور کمال کی صلاحیتوں سے واقف تھا اس لیے سب امید کر رہے تھے کہ جمال اور کمال اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ انسپکٹر حیدر علی بھی اس سلسلے میں بہت سر گرم تھے۔ ایسے میں فاطمہ نے جمال اور کمال کو عمارت کی جانب متوجہ کرنے کیلیے بظاہر بنا لکھے کاغذ عمارت کی جانب سے پھینکنا شروع کئے۔ خوش قسمتی سے ہوا کا رخ بھی میدان ہی کی جانب تھا۔ فاطمہ اس کھڑکی سے دکھائی نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہ بند تھی البتہ اس میں اتنی جگہ ضرور تھی وہ کورے کاغذ وہاں سے نیچے پھینک سکے۔ ان میں سے کچھ کاغذ جمال اور کمال کے ہاتھ لگے۔ ان کو حیرت تھی کہ ایک ویران عمارت سے کورے کاغذ کون پھینک رہا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا بھی نہیں لیکن انھوں نے جلد جان لیا کہ اس پر پیاز کی قاشوں سے ”مدد” لکھا ہوا ہے۔ انھوں نے انسپکٹر حیدر علی کو فوراً بلایا اور جب پولیس نے وہاں چھاپا مارا تو عمارت کے اندر سے فاطمہ مل گئی اور اسی وقت آنے والے مجرم گرفتار کر لیے گئے۔ لہٰذا دونوں نے سوچا کہ کیوں نہ فاطمہ کو اگلی مہم کا حصہ بنایا جائے۔ بس یہی وجہ تھی کہ جمال اور کمال کو انسپکٹر حیدر علی کی تلاش تھی۔ اس قسم کے موقع پر انھیں ہمیشہ اپنے والد کا سہارا لینا پڑتا تھا کیونکہ حیدر علی کا رابطہ نمبر محکمے نے ان ہی کو دیا ہوا تھا۔ یہ طریقہ کار بھی جمال اور کمال کی محافظت کیلیے ضروری خیال کیا گیا تھا۔ اب نہ صرف جمال اور کمال کو انسپکٹر حیدر علی سے ملنا تھا بلکہ فاطمہ اور فاطمہ کے گھر والوں کی اجازت اور رضامندی حاصل کرنا بھی ایک بڑا کام تھا۔
جب فاطمہ کو اس بات کی خبر ملی تو وہ بہت خوش تھی کیونکہ وہ ہر وقت ملک اور قوم کیلیے کچھ کر گزرنے کا سوچتی رہتی تھی

۔ اغوا ہونے اور اس کے بعد رہائی پانے نے اسی یقین دلا دیا تھا کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اللہ نے قسمت میں کوئی اذیت نہ لکھی ہو تو کوئی کسی کو سوئی بھی نہیں چبھو سکتا اور اگر موت نہ لکھی ہو تو کوئی مار نہیں سکتا۔ جب یہی حقیقت ہے تو پھر کسی بھی مشکل صورتِ حال میں ڈرنا یا گھبرانہ نہیں چاہیے۔ یہی بات جب فاطمہ کے والدین نے جمال اور کمال کے والدین اور انسپکٹر حیدر علی سے کہی کہ ہمیں جمال اور کمال پر مکمل اعتماد ہے اور اگر فاطمہ ان کے ساتھ کسی مہم پر جاتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اس طرح جمال اور کمال کے ٹیم میں فاطمہ کا اضافہ ہوا۔

انسپکٹر حیدر علی سے ملاقات کرنے کے بعد ایک تو ٹیم میں فاطمہ کا اضافہ ممکن ہوا اس لیے کہ خفیہ کے ادارے کو بھی اطمنان دلانا ضروری تھا جس کی ذمہ داری انسپکٹر حیدر علی لے چکے تھے۔ دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ کیا ہمارے سائنسدانوں نے اینٹی ڈوزز اور پربت پر چھائی مخصوص زہریلی فضا کو ختم کرنے کیلیے اسپرے تیار کر لیے ہیں، جس پر حیدر علی نے جمال اور کمال کو یہ خوش خبری سنائی کہ غذا کے اینٹی ڈوزز تو تیار کئے جا چکے ہیں لیکن فضا کی آلودگی کے لیے اسپرے ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ غذا کے اینٹی ڈوزز کا کامیاب تجربہ آپ دونوں کے فراہم کئے گئے غذائی اجزا پر کیا جا چکا ہے جبکہ اسپرے کا تجربہ کرنا ابھی باقی ہے۔ کامیابی کے بعد ان کی درکار مقدار کا تعین کیا جائے گا تاکہ جب پربت پر جاکر ان کا تجربہ کیا جائے تو ناکامی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔(جاری ہے)

 

حصہ