بزمِ محبانِ ادب کے زیر اہتمام تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

149

گزشتہ ہفتے بزمِ محبان ادب انٹرنیشنل کے زیراہتمام بہادر یار جنگ اکیڈمی کراچی میں امریکہ سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ شاہین برلاس کے دوسرے شعری مجموعے ’’اک گلہ ہے نیا‘‘ کی تقریب اجرا اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ دو حصوں پر مشتمل اس تقریب کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر جاوید منظر اور پروفیسر ڈاکٹر فرحت عظیم شامل تھے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ عابد شیروانی ایڈووکیٹ‘ زاہد حسین جوہری اور شاہین برلاس مہمانانِ اعزازی تھے کشور عروج اور جاوید حسین صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت صفیان ادریس نے حاصل کی جب کہ شاہین برلاس نے اپنی لکھی ہوئی نعت رسول پیش کی۔ بزم محبانِ ادب انٹرنیشنل کی بانی کشور عروج نے خطبہ استقبالیہ میں کہاکہ اردو زبان و ادب کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن عدالتی فیصلے کے باوجود بھی اردو زبان سرکاری سطح پرنافذ نہیں ہو رہی۔ ہم نے شاہین برلاس کے اعزاز میں یہ محفل سجائی ہے جو کہ امریکہ میں مقیم ہیں لیکن چند مہینوں کے لیے پاکستان آئی ہیں ان کا شمار بہترین شاعروں میں ہوتا ہے ان کے کلام میں زندگی کے تمام رویے زیر بث ائے ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں زندگی رواں دواں ہے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاہین برلاس ایک جہادیدی شاعرہ ہیں انہوں نے زندگی کے عروج و زوال دیکھے ہیں انہوں نے اپنے تجرباتِ زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے ہاں علم عروض پر مبنی اشعار موجود ہیں ان کی شاعری میں کوئی عروضی سقم نظر نہیں آتا۔ انہوں نے مختلف اصطلاحات شاعری کا احاطہ کیا ہے انہوں نے نئے نئے قافیے‘ ردیف اور جدید زمینوں پر اشعار کہے ہیں ان کی شاعری میں خوب صورتی اور غنائیت ہے‘ ان کے ہاں خود شناسی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے ان کی شاعری میں انسانی نفسیات کی ترجمانی بھی ہے اور خواتین کے مسائل بھی موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں مصلحت پسندی اور امن کا پیغام ملتا ہے انہوں نے ہجرت کے مسائل بھی پیش کیے ہیں اور وطن کا کرب بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے وہ بہت سادہ زبان میں اشعار کہتی ہیں ان کے یہاں ابلاغ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ اختصار‘ سادگی‘ انکساری اور قناعت ان کی شاعری کا محور ہے‘ ان کے کلام میں تازہ کاری ہے جو کہ قارئین کے دلوں میں اثر کرتی ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاہین برلاس کی شاعری زندگی کی نوید دیتی ہے اور منفی روّیوں کے بجائے مثبت خیالات کی شاعرہ نہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی اصلاح کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔ ان کے والد عارف رام پوری ایک قادرالکلام شاعر تھے انہیں شاعری بھی ورثے میں ملی ہے۔ 2021ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’لمحۂ خیال‘‘ منظر عام پر آیا تھا اور 2023ء میں ان کی دوسری کتاب ہمارے سامنے ہے۔ زاہد حسین جوہری نے کہا کہ شاہین برلاس روایت اور جدت سے جڑی ہوئی مترنم شاعرہ ہیں انہوں نے نظامت کاری کی حیثیت سے بھی کافی شہرت پائی ہے جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو انہوں نے درونِ ذات کے نرم گوشوں کو عیاں کرنے کے ساتھ سہل ممتنع میں زندگی کے مختلف ادوار کی ترجمانی کی ہے‘ وہ مسائل زمانہ کے ساتھ ساتھ غم جاناں بھی بیان کرتی ہیں۔ ان کے اشعار میں فکری نفاست‘ پاکیزگی‘ وقار اور سلیقہ پایا جاتا ہے وہ غزل کے حسین رچائو کی کیفیات کا ادارک رکھتی ہیں۔ عشق و محبت‘ جدائی‘ انتظار‘ گلے شکوے اور زندگی کے بہت سے مضامین ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ وہ ایک درد مند دل رکھتی ہیں اور نسائی لب و لہجے میں صنفِ نازک پر بات کرتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر فرحت عظیم نے کہا کہ شاہین برلاس سے میری ملاقات بہادر یار جنگ اکیڈمی میں ہوئی جہاں ان کی کتاب کی رونمائی تھی یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ان کا تعلق میری درس گاہ سرسید کالج سے ہے اور وہ اس کالج کی بہترین طالبات میں شامل تھیں۔ ’’ایک گلہ ہے نیاز‘‘ کے مطالعے سے پتا چلا کہ تمام غزلیں اس عنوان کا عکس ہیں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک ہی سمت میں خیالات و احساسات کا ہجوم ہو۔ ان کی شاعری میں تمام فہم اشعار ہیں یہ مشکل تراکیب سے گریز کرتی ہیں ان کی آسان لب و لہجے کی شاعری ہر دل میں اتر جاتی ہے۔ شاہین برلاس نے اس تقریب میں اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر خوب داد و تحسین حاصل کی اور بزم محبانِ ادب کا شکریہ بھی ادا کیا کہ اس تنظیم نے ان کے لیے تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے‘ وہ طالب علمی کے زمانے سے شاعری کر رہی ہیں‘ ان کا کلام پاکستان کے اہم اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے وہ سمجھتی ہیں کہ شاعری ہماری تہذیب کی آئینہ دار ہے اور یہ ہمارے خیالات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ میں نے کوشش کی کہ میں اپنے احساسات و خیالات کو شاعری میں ڈھال کر آپ کے سامنے پیش کروں۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کی شاعری انسان کے درد گھومتی ہے ویسے بھی زندگی اور شاعری میں چولی دامن کا ساتھ ہے جو شعرا زمینی حقائق سے منہ موڑتے ہیں وہ کامیاب شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے۔ شاہین برلاس کی شاعری میں گیرائی اور گہرائی موجود ہے۔ ساجد رضوی نے کہا کہ شاہین برلاس کی شاعری میں مختلف عنوانات شامل ہیں‘ یہ ان کے تجربات کا ثبوت ہے انہوں نے شاعری میں جدید لب و لہجہ اختیار کیا۔ یہ نہایت اطمیان سے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہیں۔ دو سال کے عرصے میں ان کا دوسرا مجموعہ ہمارے سامنے آگیا ہے۔ اس موقع پر ساجد رضوی کے علاوہ ڈاکٹر جاوید منظر‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ شاہین برلاس‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ احمد سعیدخان‘ تسنیم صنم‘ صفدر علی انشاء‘ جاوید ایڈووکیٹ‘ نازیہ ندا‘ مہر جمالی‘ کشور عروج‘ اسد زیدی‘ شہناز رضوی‘ دلشاد زیدی اور عینہ میر عینی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ