اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں مشاعرہ

269

ضیا حیدر زیدی اور کشظر عدیل جعفری نے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں امریکا سے تشریف لائے ہوئے شاعر قیوم طاہر کے لیے ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت احمد امتیاز نے کی۔ سلمان صدیقی مہمان خصوصی تھے۔ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے انچارج اقبال دھیراج نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہمارے ادارے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی تمام زبانوں اور علاقائی ادب کی ترویج و اشاعت ہو، ہم نے کراچی سینٹر میں ادبی تقاریب کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، میں اُن ادبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جو زبان و ادب کے لیے کام کررہے ہیں، ہم سب مل جل کر پاکستان کے مسائل حل کریں گے اور زبان و ادب کو فروغ دیں گے۔ قیوم طاہر نے کہا کہ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہیں لیکن ان کا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ پاکستان میں بہت عمدہ شاعری ہورہی ہے۔ دبستانِ کراچی اردو زبان و ادب کا اہم مرکز و محور ہے۔ جب سے کراچی میں امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے شہر میں ادبی پروگرام بھی بہت بہتر ہورہے ہیں جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لوگ اردو زبان و ادب سے جڑے ہوئے ہیں، انہیں شاعری سے عشق ہے۔ آج کے مشاعرے میں بھی بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ شاعری سے معاشرے میں انقلاب لایا جاسکتا ہے، شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے، وہ معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی روّیوں پر نظر رکھتا ہے اور شاعری کے ذریعے ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کس راہ پر جا رہے ہیں اور ہمیں کیا اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کا حصہ بن جائیں۔ زندگی کے تمام شعبے شاعروں کی دسترس میں ہیں، شاعری سے ہمیں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے، ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، ہم نئے نئے الفاظ و معنی سے روشناس ہوتے ہیں۔ مشاعروں کا انعقاد زبان و ادب کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ آج کے شعرائے کرام جدید لب و لہجے میں جدید لفظیات اور جدید استعاروں کا استعمال کررہے ہیں۔ اب گل و بلبل کے افسانوں کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ کشور عدیل جعفری نے کہا کہ آج کے مہمانِ اعزازی قیوم طاہر قادرالکلام شعرا کی صف میں شامل ہیں، وہ دیارِ غیر میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ ضیا حیدر رضوی نے کہا کہ مشاعرے ہماری روایات کے علَم بردار ہیں، برصغیر ہندوپاک میں زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہر زمانے میں یہ ادارہ فعال رہتا ہے، تاہم وقت و حالات کے سبب ادبی تقریبات میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ہر شاعر یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں امن و امان قائم ہو، ہر شخص کو اُس کے حقوق حاصل ہوں، ظلم و تشدد کا خاتمہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہر شاعر معاشرے کا اصلاح کار ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ شاعروں کا احترام کریں۔
اس مشاعرے میں احمد امتیاز، سلمان صدیقی، ڈاکٹر مختار حیات، قیوم طاہر، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، محمد علی گوہر، قمر حیدر قمر، کشور عدیل جعفری، آئیرن فرحت،قمر شہزاد، ضیا حیدر زیدی، حامد علی سید اور کامران صدیقی نے اپنے کلام پیش کیے۔

ادبی تنظیم شہ نشین کا مذاکرہ اور مشاعرہ

17 دسمبر 2023ء بروز اتوار دو بجے دن پروین حیدر کی رہائش گاہ پر ساجد رضوی کی صدارت میں ادبی تنظیم ’شہ نشین‘ نے مذاکرے اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں امریکا سے آئے ہوئے شاعر عارف امام مہمانِ اعزازی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ میں کہاکہ آج کے پروگرام کے دو حصے ہیں، پہلے دور میں مذاکرہ ہوگا جس کا عنوان ہے ’’ایک اچھے شاعر کے کیا لوازمات ہیں‘‘، اس کے بعد ہم مشاعرہ ترتیب دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام کررہی ہے، آج ہم نے امریکا میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد شاعر عارف امام کے لیے محفل سجائی ہے۔ آپ غزل کے بہترین شاعر ہیں، تاہم آپ تمام اصنافِ سخن میں شاعری کررہے ہیں۔ ہماری محفل کی دوسری مہمانِ اعزازی ثمرین ندیم ثمر ہیں جو کہ قطر سے تشریف لائی ہیں، آپ بھی قابلِ قدر شاعرات کی صف میں اہم مقام کی حامل ہیں، آپ نے اپنی شاعری میں خواتین کے مسائل بڑی عمدگی سے اجاگر کیے ہیں۔ زاہد حسین جوہری نے مذاکرے کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی، ان کا کہنا تھا کہ شاعری دراصل ایمجری ہوتی ہے، شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ ہر شعر میں کئی کئی پہلو مضمر ہوتے ہیں، ایک اچھے شعر کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے اندر مضامین لیے ہوئے ہو، اس میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غنایت موجود ہو، وہ علم عروض کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ ساجد رضوی نے کہا کہ اچھے شعر کی خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کا ابلاغ ہو، اس کی زبان سادہ اور آسان ہو، وہ وقت و حالات کا آئینہ دار ہو، اس کا مضمون ایسا ہو جو ہر شخص کے دل کی آواز ہو، شاعری کے لیے ضروری ہے کہ ہم عروض کے مطابق شاعری کریں۔ بے وزن مصرعے قابلِ قبول نہیں ہوتے، ہر اچھے شعر میں کوئی پیغام ہوتا ہے، بے مقصد اشعار لوگوں میں مقبول نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے اشعار میں زمینی حقائق سے فرار حاصل کریں گے تو کامیاب شاعر نہیں بن سکتے۔ ہما ساریہ نے کلماتِ تشکر ادا کیے، ان کا کہنا تھا کہ میں تمام شعرائے کرام کی ممنون و شکر گزار ہوں کہ جن کی وجہ سے آج کا مشاعرہ کامیاب ہوا، مجھے امید ہے کہ آپ لوگ شہ نشین کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے، ہم اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر ساجد رضوی، عارف امام، ثمرین ندیم ثمر، اختر سعیدی، زاہد حسین جوہری، پروین حیدر، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، توقیر تقی، مقبول زیدی، م۔م۔مغل، احمد سعید خان، صفدر علی انشاء، تنویر سخن، شازیہ عالم شازی، کاوش کاظمی، زرنگار عباس، ضیغم ارشد عرشی اور ہما ساریہ نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ