آخر شب کے ہمسفر

481

آخری شب کا ہمسفر قرۃ العین حیدر کا ایک اہم اور کلاسک ناول ہے۔ یہ ناول برصغیر کی تقسیم اور اس کے بعد کی سیاسی اور سماجی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ ناول کی تاریخی اہمیت کے علاوہ، یہ ایک تخلیقی اور خوبصورت ادب کا بھی شاہکار ہے۔ ناول میں بنگال کی کمیونسٹ تحریک کے آغاز اور انجام کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
ناول کا مرکزی کردارایک نوجوان جو بنگال کی کمیونسٹ تحریک میں شامل ہوتا ہے۔ وہ انقلاب کے خواب دیکھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ کمیونسٹ تحریک برصغیر میں ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ نوجوان کے خوابوں کی شکست ہوتی جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ کمیونسٹ تحریک داخلی اختلافات اور لالچ کی وجہ سے تقسیم ہو جاتی ہے اور اس کا انجام اس طرح ہوتا ہے کہ ماضی کے انقلابی عام سیاست دان بن کر رہ جاتے ہیں۔(ادارہ)

پیش لفظ

بنگال کی دہشت پسند اور انقلابی تحریک 1942ء کا اندولن مطالعہ پاکستان، تقسیم ہند اور قیام بنگلہ دیش کے تناظر میں لکھے ہوئے اس ناول کے تمام کردار قطعی فرضی ہیں۔ 1939ء میں ولیم کینٹ ویل نام کوئی انگریز ڈھاکا کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نہیں تھا۔ نہ اس کے بعد ’’چارلس بارلو، بنگال سویلین‘‘ اسی طرح سر ایڈورڈ سے لے کر نوجوان رچڑد تک سارا بارکو خاندان، دیپالی سرکار، ریحان الدین احمد، پادری بنرجی، اومارائے، نواب قمر الزماں چوہدری، جہاں آرا بیگم، نارہ نجم السحر، یاسمین بلمونٹ، وغیرہ وغیرہ سارے کردار اور ان سے منسوب واقعات خیالی اور محض افسانہ ہیں، اور کسی ہندوستانی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی شخصیات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

اس ناول کے 28 ابواب 66ء، 67ء میں رسالہ گفتگو (بمبئی) میں شائع ہوچکے ہیں۔

سرورق کی تصویر اسمبلاژ میں ناچیز نے بنائی ہے۔ کسان کا جھونپڑا، مسجد، کالی باڑی، آبی راستے اور نوکائیں، عہد ایسٹ انڈیا کمپنی کا جارجین کو لونیل مکان اور دخانی جہاز مشرقی بنگال کا مخصوص نظارہ ہے۔ کولونیل مینشن انگریز حاکم یا پلانٹر یا بڑے بنگالی زمیندار کی جائے رہائش، مشرقی بنگال کے عظیم دریائوں پر چلنے والا اور مشرقی بنگال کے ’’سنہرے ریشے‘‘ پٹ سن کو کلکتہ اور اسکاٹ لینڈ لے جانے والا جہاز بنگال کے تین سو سالہ سیاسی، ذہنی اور تہذیبی برٹش کنکشن کی علامت بھی ہے۔

قرۃ العین حیدر
بمبئی، مئی 1979ء

چندر کنج
ڈھاکا شہر کے ایک درمیانی درجے کے رہائشی علاقے میں آم اور کیلے کے درختوں میں چھپی وہ ایک پرانی وضع کی سفید کوٹھی ہے۔ اس کی دیواریں کائی سے سبز ہوچکی ہیں اور روشن دانوں اور کھڑکیوں میں کئی جگہ پر شیشوں کی جگہ ٹین کے کنستر کے ٹکڑے اور دفقیاں لگی ہیں۔ سامنے کے برآمدے میں ایک سرے پر باشا کی مضبوط چٹائیاں کھڑی کرکے ایک کمرہ بنادیا گیا ہے۔ کمرے کے دروازے پر نیلے رنگ کی آدھی ساری کا پردہ ٹنگا ہے۔ اندر ایک بنچ، ایک میز اور طبی معائنے کا اونچا سا پلنگ بچھا ہے، جس کے گدے کا نیلا چمڑا جگہ جگہ سے اُدھڑ گیا ہے۔ دائوں کی الماریاں اور تام چینی کی چلمچی کا اسٹینڈ ایک دیوار کے برابر لگا ہوا ہے۔ میز کے پیچھے بڑا کیلنڈر آویزاں ہے۔

برآمدے اور کشادہ ہوادار کمروں کے سرخ روغنی فرش با افراط پانی سے دھوئے جانے کی وجہ سے صاف ستھرے اور چمکیلے ہیں۔ برآمدے میں ایک بنچ اور دو تین مونڈھے پڑے ہیں ور دو سائیکلیں کھڑی ہیں۔ برآمدے میں سے اندر ’’بیٹھک خانہ‘‘ صاف دکھلائی دیتا ہے۔ اس میں بید کا ایک صوفہ اور چند بے جوڑ کرسیاں رکھی ہیں۔ کونے کی ایک میز پر کاسن غلاف سے ڈھکا، ہارمونیم اور دیوار کے سہارے ایک ایسراج بھی موجود ہے۔ بیٹھک کی دیواروں پر آمنے سامنے ایک مرد اور ایک عورت کے دو بڑے پورٹریٹ آویزاں ہیں۔ اس پر ایسی دھندلی دھندلی سی کیفیت طاری ہے، جو کسی پُراسرار نامعلوم کیمسٹری کے ذریعے ان لوگوں کی تصویروں پر آپ سے آپ چھا جاتی ہے، جو مرچکے ہیں۔ عورت نو عمر اور دلکش، ریشمی ساری سے سر ڈھانپے اور ایک انگلی اپنی ٹھوڑی پر رکھے خاصی خواب ناک آنکھوں سے کیمرے کو دیکھ رہی ہے۔جبکہ دوسری تصویر میں سفید شال لپیٹے ایک خوش شکل نوجوان سر جھکائے غور سے ایک موٹی سی کتاب پڑھ رہا ہے۔ چند ضخیم کتابیں مخملیں میز پوش پر ٹکی اس کی ایک کہنی کے نزدیک رکھی ہیں۔ دونوں تصویروں پر گوٹے کے ہار پڑے ہیں، جن کا جھوٹا گوٹا تقریباً کالا پڑ چکا ہے۔

’’بیٹھک خانے‘‘ کے دروازے پر پہلو کے دو کمروں میں کھلتے ہیں۔ دائیں جانب والے کمرے میں کھانے کی میز اور نعمت خانے کے نزدیک برابر برابر تین چارپائیاں۔ کونے میںبید کی تین میزوں پر اسکول کی کتابوں کے انبار، کھونٹی پر نیکریں اور قمیصیں، کینوس کے نئے اور پرانے جوتوں کا ڈھیر ایک کونے میں پڑا ہے۔ ادھ کھلے ٹین کے بکس چارپائیوں کے نیچے ٹھنسے ہیں۔ کھانے کی میز کھرکی کے پاس بچھی ہے۔ یہ کھڑکی پہلو کے ہرے بھرے احاطے میں کھلتی ہے۔ اسی کمرے کے برابر میں ایک چھوٹا کمرہ ہے جس کی ایک دویار پر لکڑی کے تختے لگا کر کارنس سی باندی گئی ہے۔ اس پر دوائوں کی شیشیاں، پرانے خط پتر، قلم دوات، چند زنانہ بنگالی رسالے اور سلائی کی ٹوکری رکھی ہے۔ کارنس کے نیچے پتلے سے تخت پر فنفاف بستر لگا ہے۔ ایک کونے میں مختصر سا مندر ہے۔ صندل کی چوکی پر رکھی ہوئی مورتیوں پر گیندے کے تازہ ہار پڑے ہیں۔ مورتیوں کے سامنے انجلی رکھی ہے۔ ایک پہلو میں ایک چھوٹی تصویر، جس میں ایک وکیل صاحب گائون پہنے بیٹھے ہیں۔ اس تصویر پر بھی تازہ ہار پڑا ہوا ہے۔ چوکی کے سامنے سیتل پاٹی بچھی ہے جس کے ایک کنارے پر کھڑائوں کی جوڑی رکھی ہے۔ کمرے کے دوسرے کونے میں ستلی کی انگنی پر بغیر کنی کی چند سفید ساریاں پڑی ہوئی ہیں۔ اس کمرے کا دروازہ پچھلے برآمدے میں رسوئی گھر کے عین مقابل میں کھلتا ہے۔

’’بیٹھک خانے‘‘ کے بائیںجانب والے کمرے میں جو مطب سے ملحق ہے، صرف ایک پلنگ اور ایک آرام کرسی پڑی ہے۔ کونے میں دو ٹرنک رکھے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کمرے کا مکین دنیاوی ضروریات سے خاصا بے نیاز اور بے پروا ہے۔

اس کمرے کے پیچھے ایک اور کمرہ ہے۔ اس میں سلاخوں والی کھڑکی کے نیچے کھادی کی چادر سے ڈھکا پلنگ بچھا ہے۔ سرہانے ایک الماری ایک میز… پائینتی کی دیوار کے ساتھ ایک بڑا ٹرنک اور اس کے اوپر ایک چمڑے کا اٹیچی کیس۔ کھونٹی پر چند سوتی ساریاں۔ الماری کے ایک حصے میں آئینہ، کنگھی، ناریل کے تیل کی کٹوری… فرش پر ایک کونے پر بچھی خوش رنگ دری پر کتابوں اور کاپیوں کا ڈھیر۔

پچھلے برآمدے کے ایک سرے پر رسوئی گھر اور دوسرے پر گودام ہے، جس کے دروازے میں بھاری تالا پڑا ہے، غسل خانے برآمدے سے باہر آنگن میں ایک قطار میں بنے ہیں۔ جن تک پہنچنے کے لئے ایک چوبی تختے پر سے گزرنا پڑتا ہے۔ غسل خانوں کے برابر میں سے زینہ کوٹھی کی چھت پر بنے کمرے اور ٹین کے سائبان کی طرف جاتا ہے۔ سرسبز آنگن کے وسط میں تالاب، جس میں روہو مچھلیاں پلی ہیں۔ تالاب کے سامنے تلسی کا منقش گملہ اور دور ایک گوشے میں آم خے گھنے درخت کے نیچے جھلملیوں والی بند گاڑی کھڑی ہے۔ جس کی کھڑکیوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنالئے ہیں۔ آنگن کے تین طرف سرخ اینٹوں کی دیوار ہے۔ ڈیوڑھی کے چوڑے دروازے کے باہر اونچی اونچی گھاس میں سے گزرتی ایک پگڈنڈی آگے جاکر پچھواڑے کی سنسان سڑک سے جاملتی ہے۔ آنگن میں کپڑوں کی خالی انگنی پر کوّے آن بیٹھے ہیں۔

مہاوٹ ابھی برس کر کھلی ہے۔ کوٹھی میں بڑا سناٹا ہے۔ خالی کمروں میں بھیگی ہوئی ہوا کھلے دروازوں سے گزرتی منڈلاتی پھر رہی ہے۔ ایک غسل خانے میں سے پانی گرنے کی آواز آرہی ہے۔ پھاٹک کے باہر ایک کہار اکڑوں بیٹھا چلم پی رہا ہے۔ جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں اس کی چلم کی روشنی کبھی کبھی تیزی سے چمک اٹھتی ہے۔ پھاٹک کے اک ستون پر جو برسہا برس کی بارشوں کی بوچھاڑ سے ترچھا ہوکر ایک طرف کو دھنس سا گیا ہے۔ ’’ڈاکٹر بنوئے چندر سرکار ایم، بی، بی، ایس‘‘ کا بورڈ لگا ہے۔ دوسرے ستون پر سنگ مرمر کے ٹکڑے پر بنگالی میں ’’چندرگنج‘‘ نقش ہے۔

اندر مطلب کی دیوار پر لگے چرخہ کاتتے گاندھی جی اور تبسم جواں سال نہرو کی بھدی رنگین تصویروں والے کیلنڈر کے ورق بوڑھی گنگا پر سے آتی ہوئی اس بھیگی ہوا میں آہستہ آہستہ پھٹپھٹا رہے ہیں۔

اس روز، دسمبر 39ء کی اس تاریک شام، جب سارا گھر سنسان پڑا تھا۔چندر کنج کے برآمدے والے گوام میں چوری ہوگئی۔

سیند لگانے والی، اس گھر کی انیس سالہ بیٹی دیپالی تھی۔

ڈاکٹر بنوئے چندر سرکار مطب بند کرکے حسب معمول ہوا خوری کے لئے باہر جاچکے تھے ان کے تینوں لڑکے کھوکھو، شونو اور ٹونوا بھی فٹ بال کے میدان سے نہیں لوٹے تھے۔ اور غسل خانے میں پانی گرنے کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر سرکار کی بیوہ بہن بھوتارنی دیبی اشنان کے چند منٹ بعد پوجا میں مصروف ہونے والی ہیں۔

اس وقت ڈاکٹر سرکاری کی اکلوتی لڑکی دیپالی لالٹین ہاتھ میں لئے زینے سے نیچے باغ میں اتری، اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اور وہ اندھرا پڑے تک کوٹھے والے کمرے میں جہاں بجلی کی روشنی نہیں تھی ’’ہوم ورک‘‘ کرتی رہی تھی۔ نیچے آکر اس نے لالٹین تلسی کے گملے کے پیچھے چھپادی۔ اور دبے پائوں برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں گئی۔ جو بیٹھک خانے کے بائیں جانب تھا۔ دروازے کی آڑ سے اس نے دیکھا کہ اس کی پھوپھی بھوتارنی دیبی غسل خانے سے نکل کر کھڑائوں پہنے کھٹ کھٹ کرتی چوبی پل پر سے گزر کے اپنے کمرے کی طرف جارہی ہیں۔

دیپالی دم سادھے کواڑ کے پیچھے کھڑی رہی اور چند منٹ بعد پنجوں کے بل چلتی بھوتارنی دیبی کے کمرے میں گئی، جوستیل پارٹی پر آلتی پالتی بیٹھ کر لوبان سلگانے کے بعد آنکھیں بند کرکے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوچکی تھیں۔ ان کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ دیپالی نے چند لحظوں کی ہچکچاہٹ کے بعدآگے بڑھ کر کنجیوں کا موٹا گچھا ان کی پشت پر پڑے پلو سے کھولا اور باہر آگئی۔ تلسی کے پیچھے سے لالٹین نکال کر گودام تک پہنچی اور ڈرتے ڈرتے تالا کھولا۔ اندر جاکر لالٹین ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر رکھ دی اور چاروں طرف دیکھا۔ گودام میں شدت کا حسب اور سیلن تھی۔ آنگن کے رخ والی مقفل کھڑکی کے شیشوں پر امرت بازار پتریکا کے پیلے کاغذ چپکے ہوئے تھے۔ متفرق فالتو سامان کے علاوہ کوٹھری میں ایک بہت بڑا چوبی صندوق اینٹوں کے اوپر رکھا تھا۔ اس صندوق میں بنارسی اور بالوچر بوٹے دار ساریاں اور دوسرا قیمتی سامان مقفل تھا۔ ہر سال جاڑوں میں بھوتارنی دیبی صندوق کھول کر بڑے اہتامم سے بالوچر ساریاں باہر نکالتیں اور آنگن میں چارپائیوں پر پھیلا کر ان کو دھوپ میں سکھایا جاتا۔ اس کے بعد یہ بالوچر ساریاں پھر نیم کے پتوں کی تہہ دے کر اسی احتیاط سے بکس میں واپس رکھ دی جاتیں۔

دیپالی نے سانس روک کر صندوق کا تالا کھولا، اس کے کپڑو پر بھی کشمیری شال سرکا کرتہہ میں سے ساریاں نکالیں اور ان کو جلدی جلدی فرش پر رکھتی گئی۔ بنارسی اور جامدانی کی ساریاں ایک طرف کرکے اس نے ’’بالوچر بوٹے دار‘‘ ساریاں علیحدہ کیں جو تعداد میں تین تھیں۔ باہر کی آواز پر کان لگاتے ہوئے اس نے لاٹین کی لو اونچی کرکے ساریوں پر ہاتھ پھیرا۔ ساریاں بے حد پرانی ہونے کے باوجود بالکل نئی معلوم ہورہی تھیں جیسے ابھی ابھی نوابی کے مرشدآباد کے گرگھوں سے اتری ہوں۔

موقع کی نزاکت کے باوجود وہ ان کے آنچلوں پر بنے نقش و نگار کو دیکھنے میں محو ہوگئی۔ کاسنی، نارنجی،فیروزی، کاسنی ساری سب سے بیش قیمت تھی۔ اس کے آنچل پر ایک قطار میں مرشد آباد کے نواب پیچوان نوش کررہے تھے۔ نارنجی ساری کی پلو پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز نائو میں بیٹھے تھے۔ فیروزی ساری کے آنچل پر مغل بیگمات ہاتھی کے ہودے پر بیٹھی گلاب کا پھول سونگھنے میں مصروف تھیں۔ وقت ریشم کے اس تانے بانے میں الجھ کر تھم چکا تھا۔

اچانک برآمدے میں آہٹ ہوئی۔ دیپالی نے پھرتی سے تینوں ساریاں سفید ململ کے ٹکڑے میں لپیٹیں۔ باقی سامان صندوق میں واپس رکھا اور سہم کر دروازے کے پاس جاکر کھڑی ہوئی۔ مگر اب پھر خاموشی چھا چکی تھی، صحن میں کیلے اور سیتا پھل کی ڈالیاں سرسرا رہی تھیں۔ بہت دور سڑک پر ایک گھوڑا گاڑی کھڑ کھڑاتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ اس گھپ اندھیرے میں نجانے کہاں جارہی تھی۔

(جاری ہے)

حصہ