وی ٹرسٹ کراچی کے اہتمام ’’فلسطین مشاعرہ‘‘

231

پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ (وی ٹرسٹ) کراچی نے فراست رضوی کی زیر صدارت غزہ کے شہیدوں اور مظلوموں سے اظہار یکجہتی ٔ فلسطین مشاعرے کا اہتمام کیا۔ شکیل خان نے مشاعرے کے نظامتی فرائض انجام دیے انہوں نے دوران نظامت فلسطین کے حالات اور غزہ کی جنگ کے بارے میں کہا کہ مسلمانانِ عالم کی بے حسی یہ ہے کہ وہ عملی طور پر اسرائیل کے خلاف اقدامات سے گریز کر رہے ہیں‘ وہ مصلحت میں الجھے ہوئے ہیں اور یہودی لابی غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ مسجدوں‘ مدرسوں‘ گھروں اور اسپتالوں پر بھی اسرائیلی بم باری جاری ہے جس سے ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ میزبانِ مشاعرہ پروفیسر شفیع ملک نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اس وقت اسرائیل نے فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور وہ فلسلین کے مختلف شہروں پر بمباری کر رہا ہے سب سے زیادہ نقصان غزہ میں ہوا ہے وہ چاہتا ہے کہ فلسطین پر قبضہ کر لے لیکن حماس کے جانثاروں کی موجودگی میں ایسا کرنا ممکن نہیں وہ مجاہدین فلسطین کو ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن ماہرینِ سیاسی امور یہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت معاشی طور پر تباہ ہو رہی ہے اور وہ طویل جنگ نہیں لڑ سکتی اس وقت بھی اسرائیل کے خلاف عیسائی‘ مسلمان اور دیگر قومیں شدید احتجاج کر رہی ہیں لیکن امریکہ جنگ بندی کے خلاف عیسائی‘ مسلمان اور دیگر قومیں شدید احتجاج کر رہی ہیں۔ لیکن امریکہ جنگ بندی کے خلاف ویٹو کر رہا ہے جس کے باعث جنگ بند نہیں ہو رہی۔ ہمارا عقیدہ ہے مظلوم فتح پائیں گے اور ظالم مٹ جائیں گے کیوں کہ حق کو غالب آنا ہے اور باطل کے لیے رسوائی ہے فراست رضوی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ پنجاب میں 1874ء میں پہلا موضوعاتی مشاعرہ ہوا تھا اس کے بعد سے موضوعاتی مشاعروں کا رواج شروع ہوا۔ موضوعاتی شاعری مشکل کام ہے۔ موضوعاتی شاعری سے آپ کی ذہنی استطاعت جلا پاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1980ء سے فلسطینی مسائل کا شکار ہیں امریکہ اور برطانیہ کے زیر اثر قائم ہونے والا یہ ملک اسرائیل اپنے ہمسایہ ملک سے کئی بار جنگ کر چکا ہے اس نے عربوں کے بہت سے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے ہیں۔ آج کل وہ فلسطینیوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ وہ جانتا ہے کہ غزہ میں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں لہٰذا وہ غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ حماس اور دیگر اسلامی تنظیمیں اسرائیل کی مزاحمت کر رہی ہیں اسرائیل نے اس خطے میں تباہی مچائی ہوئی ہے لیکن اقوام متحدہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ جنگ بندی کی قرارداتوں کو امریکہ ویٹو کر رہا ہے برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام اس وقت خاموش ہے لیکن اسلامی ممالک میں بھی احتجاج ہو رہا ہے اس کے علاوہ دیگر قومیں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ شعرائے کرام اپنی شاعری کے ذریعے فلسطینی مسائل اجاگر کر رہے ہیں اور یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ اگر ہم نے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات نہ اٹھائے تو ایک دن ہم پچھتائیں گے۔ آیئے آج ہم متحد ہو کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ اس موقع پر فراست رضوی‘ اختر سعیدی‘ خلیل اللہ فاروقی‘ اقبال خاور‘ سلیم فوز‘ ڈاکٹر سکندر مطرب‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ طاہر سلطانی‘ نسیم شیخ‘ رانا خالد محمود‘ تنویر سخن‘ مرزا عاصی اختر‘ نورالدین نور‘ عبدالرحمن مومن‘ سلمان عزمی اور نعیم الدین نعیم نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ طاہر علی نے نعت رسولؐ پیش کی۔

مسرور کیفی نعت اکیڈمی مذاکرہ اور مشاعرہ

مسرور کیفی نعت اکیڈمی کے زیر اہتمام وقار اجمیری کی یاد میں مذاکرہ اور نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں قمر وارثی صدر مشاعرہ تھے‘ ڈاکٹر عزیز احسن اور طاہر سلطانی مہمانانِ اعزازی تھے۔ محمد زکریا شیخ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ قاری عبدالحسیب خان نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ سید قاسم نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سراج الحق قادری کی سرپرستی میں ہونے والے اس پروگرام میں ندیم رشید نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ مسرور کیفی نعت اکیڈمی کے تحت منقبتی‘ حمدیہ اور نعتیہ مشاعروں کے ساتھ ساتھ ہم نعت گو شعرا کی یاد میں مذاکرہ بھی کرتے ہیں۔ ہم ’’یادِ رفتگان‘‘ کے عنوان سے محفلیں سجاتے ہیں ہم شعر و سخن کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ آج کے مذاکرے کے شاعر وقار صدیقی مرحوم 16 اکتوبر 1923ء میں پیدا ہوئے ان کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’حرف حرف خوشبو‘‘ ہے۔ وہ بہار کوٹی کے شاگرد تھے۔ وقار صدیقی نے 1936ء سے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ وہ نعت گو شعرا کے صف میں اہم مقام کے حامل تھے ان کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے وہ قادر الکلام شاعر تھے۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن نعتیہ شاعری ان کی شناخت ٹھہری۔ غلام عزیز بندگی نے کہا کہ وقار صدیقی اجمیری بہت اہم ادبی شخصیت تھے انہوں نے بھی نعت گوئی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی نعتیہ شاعری میں حبِ رسول موجزن ہے۔ انہوں نے شمائل رسول اور سیرت رسول کے روّیوں پر سیر حاصل نعت گوئی کی۔ ابرار حسین نے کہا کہ مسرور کیفی نعت اکیڈمی طویل مدت سے نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہے‘ کئی شاندار پروگرام ہمارے کریڈٹ پر ہیں ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ فرید عالم صدیقی نے کہا کہ ان کے والد وقار اجمیری نے زندگی بھر ہمیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ بہت نیک سیرت انسان تھے۔ ہم قدم قدم پر ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے والد کی نعتیہ کلیات کی اشاعت میں مصروف ہیں بہت جلد ہم یہ کتاب اردو ادب میں شامل کر دیں گے۔ قمر وارثی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ نعت گوئی باعث رحمت ہے اور ہم نعتیہ شاعری کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو بھی پھیلا سکتے ہیں مجھے بہت خوشی ہے کہ مسرور کیفی نعت اکیڈمی نعتیہ ادب میں اہم پروگرام ترتیب دے رہی ہے۔ سراج الحق قادری نے کہا کہ نعت ایک صنفِ سخن ہے اس کی ترقی کا عمل جاری ہے۔ رسول اکرمؐ کا ذکر قیامت تک ہوتا رہے گا کیوں کہ ذکر مصطفی کو بلند کرنے کا وعدہ اللہ رب العزت نے کیا جو لوگ نعتیہ محفلیں سجاتے ہیں وہ نیک کام کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم نعتیہ ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ اس موقع پر عامر اللہ قادری‘ سعید وارثی‘ صاحبزادہ علاء الدین‘ یوسف اجمیری‘ فہد احمد نقش بندی‘ محسن قادری‘ عمر حیات‘ فرید احمد رحمانی‘ سید افضل علی‘ شار رشید‘ فرید عالم اجمیری‘ طاہر سلطانی‘ عبدالواحد اور انور رحمن کو مسرور کیفی نعت اکیڈمی کی جانب سے شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس نعتیہ مشاعرے میں قمر وارثی‘ ڈاکٹر عزیز احسن‘ طاہر سلطانی‘ یامین وارثی‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ احمد سعید خان‘ نعیم انصاری‘ عزیز الدین خاکی‘ آسی سلطانی‘ شارق رشید‘ احمد خیال‘ حافظ مستقیم‘ عتیق الرحمن‘ ندیم رشید‘ ڈاکٹر وسیم الدین‘ فاروق احمد ذاکر‘ محمد فرہاد زیدی‘ تاج علی رانا اور یوسف چشتی نے نعتیہ کلام پیش کیا۔

حصہ