مسعود احمد برکاتی : بچوں کے ادب کا ایک عہد

232

آج میں مسعود احمد برکاتی صاحب کے بارے میں بات کرنے کا سوچتی ہوں کہ کیا یہ بات یہاں سے شروع کروں کہ 10 دسمبر 1933میں راجھستان ،ٹونک کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہونے ننھے بچے کو کب علم تھا کہ وہ جلد ہی اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوجائے گا۔ والدہ، دادا اور بڑے بھائی کی سرپرستی میں پرورش پانے والے مسعود احمد کوبچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا ۔ وہ اپنے گھرانے کے پہلے انگریزی پڑھنے والے فرد بھی تھے۔ چودہ سال کی عمر میں دادا کے نام پر ایک رسالے ’’البرکات‘‘ کی طباعت شروع کی۔ البرکات ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ، اور اس کی ہاتھ سے ہی لکھ کر مزید نقول تیار کی جاتی تھیں۔ یا سوچتی ہوں یہاں سے بات شرو ع کروں کہ گرمیوں کی ایک دوپہر میں دو بچیاں اسکول کے یونی فارم میں ہمدرد کے آفس پہنچیں جہاں ہمدرد نونہال اسمبلی کی سرگرمی میں شریک ہونے کے لیے حکیم عثمان صاحب کی طرف سے ادارے میں ملنے کا کہا گیا۔ حکیم عثمان صاحب سے ملنے کے بعد ان بچیوں نے ’’ مسعود انکل‘‘ سے ملنے کی خواہش کی کہ ہر ماہ آدھی ملاقات تو ہوجاتی تھی آج پوری بھی ہوجائے۔ حکیم عثمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’ اپوائنٹمنٹ بھی لیا تھا؟ وہ تو بہت مصروف ہوتے ہیں۔‘‘

’’ اوہ وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ بچیوں نے پریشانی سے کہا۔

’’آپ ہمیں ان کے آفس کا راستہ بتا دیں ہم خود ہی لے لیں گے۔ ‘‘ یہ بچیاں بھی آخر ہم اور ہماری بہن ہی تھے جو سیدھا اسکول سے ہمدرد آفس پہنچے تھے اور اب یہاں تک آ کر ہرگز برکاتی صاحب سے ملے بغیر نہیں جانا چاہتے تھے۔

حکیم عثمان صاحب مسکرائے اور ہمیں ان کے آفس تک پہنچا کر آئے۔ چاروں طرف کتابوں سے سجے ہوئے ایک کمرے میں ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ یہی برکاتی صاحب تھے۔وہ نہ صرف ہمارے ساتھ بہت محبت سے پیش آئے بل کہ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ ہم دونوں حافظہ بھی ہیں ہم سے سورہ رحمٰن اور سورہ یسین کی ابتدائی رکوع سنے۔ چائے بسکٹ سے ہماری تواضع کی اور ہم دونوں کو ایک ایک آٹو گراف بک تحفے میں اپنے آٹوگراف کے ساتھ دی۔ بچپن کی اس خوب صورت ملاقات کا ایک ایک منظر آج تک تازہ ہے۔

اس کے بعد ایک مرتبہ بھرپور ملاقات ان کے آفس میں ہوئی جب میں نے ماہنامہ پیغام دائجسٹ کے شرارت نمبر کے لیے آپ کا انٹرویو کیا تھا۔ سنجیدہ بچپن، اور معصوم سی شرارتوں کی خواہش ، جس میں پتنگ اڑانا دلی تمنا تھی لیکن بڑے بھائی کو بالکل پسند نہ تھا۔اور اسی بات پر انہوں نے ایک مرتبہ اپنے بھائی سے مار بھی کھائی ۔ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی سنایا کہ وہ ایک دن کہیں سے پتنگ خرید لائے ابھی اسے چھپانے کی جگہ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ پیچھے سے سے بڑے بھائی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ بڑے پریشان ہوئے کہ کیا جائے۔ کچھ نہ سوجھا تو جلدی اپنی پشت پر کر لی۔۔۔ پتنگ بڑی تھی اور کمر کے دائیں بائیں سے جھانک بھی رہی تھی۔ بھائی جان نے پوچھا ہاتھ میں کیا ہے؟

ننھے مسعود نے جلدی سے کہا، ’’کچھ نہیں۔۔‘‘

بھائی جان نے ہاتھ بڑھا کر پتنگ برآمد کر لی۔۔ اب تو یہ حالت کہ کاٹو تو لہو نہیں۔

1952 میں وہ ہندوستان سے پاکستان گھومنے کی غرض سے آئے تھے لیکن حالات کشیدہ ہوجانے کے سبب جا نہ سکے۔ اس کے بعد راستے کھلے تو ان کے بھائی اور والدہ بھی پاکستان آگئے۔ وہاں ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی تھی۔ 1953 میں انہیں حکیم سعید کا ساتھ ملا اور اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے ہمدرد کے ہو کر رہ گئے۔حکیم محمد سعید شہید نے بچوں کا رسالہ ہمدرد نکالا تو آپ نے معاون کے طور پر ان کا ساتھ دیا۔ اگرچہ نونہال کی ابتدائی زندگی میں معاون مدیروں میں ثریا ہمدرد، مولوی یسین وغیرہ کے نام بھی آتے رہے ہیں ہیں لیکن 1958 سے تا حیات ،یعنی 10 دسمبر 2017 تک وہ نونہال کے مدیر رہے۔ بچوں کے ادب میں یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اتنا عرصے ایک رسالے کا مدیر رہا ہو۔ ہر ماہ وہ پہلی بات کے عنوان سے رسالے کا اداریہ لکھا کرتے تھے۔ اس اداریے میں وہ ایک قول ، اس ماہ کا خیال لکھتے اس کی تشریح کرتے ، نونہال میں اپنی کہانیاں ، نظمیں اور لطیفے وغیرہ بھیجنے والے بچوں کو درست طریقے سمجھایا کرتے تھے ۔

وہ ہمدرد صحت کے ساتھ یونیسکو کے تعاون سے نکلنے والے رسالے پیامی کے بھی ایڈیٹر تھے۔

ان کی بچوں اور بڑوں کے لیے لکھی گئی کئی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں جو باآسانی انٹرنیٹ پر میسر ہیں۔ وہ اردو کے علاوہ فارسی، عربی ،انگریزی اور روسی زبان بھی جانتے تھے۔معاشیات پر مضمون لکھ کر لکھنے کی ابتدا کرنے والے مسعود احمد برکاتی نے طبع زاد کے علاوہ انگریزی کہانیوں کے تراجم کیے، بچوں کے لیے سفرنامے لکھے، بچوں کے لیے پہلا حج کا سفرنامہ لکھنے والے بھی وہی تھے، انگریزی کہانیوں کے ترجمے کی تلخیص کی ، الیگزینڈر ڈوما کا ناول تین بندوقچی ناول کے ترجمے کی تلخیص ہے۔ لیکن مجال ہے جو دلچسپی کہیں بھی کم ہو، چھوٹی سی پہاڑی لڑکی، ننھا سراغ رساں، چور پکڑو وغیرہ ان کی بچوں پر لکھی گئی تراجم و تصانیف ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہی نہیں بلکہ پاکستان کی تین چار نسلیں جو نونہال پڑھتے ہوئے بڑی ہوئیں، مجھ سمیت وہ ادیب جن کی ابتدا میں ننھی ننھی کہانیاں نونہال میں شائع ہونا شروع ہوئیں ، وہ کہانیوں کی نوک پلک سنوارتے، نوآموز ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرتے کہ آج ہم اس قابل ہیں کہ بچوں کے لیے کوئی کہانی لکھ سکیں دراصل ہم ہی ان کی تصنیف ہیں۔ وہ بچوں کے ادب کا ایک عہد تھے ۔ ایک بہترین زندگی گزار کر وہ 10 دسمبر 2017کو اپنے خالق حقیقی کے پاس حاضر ہوگئے اللہ تعالی ان پر اپنی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔

(نوٹ: یہ مضمون آرٹس کونسل کراچی میں سولھویں عالمی اردو کانفرنس میں ہونے والے پروگرام بچوں کے ادب کے مشاہیر کے لیے لکھا گیا تھا، وقت کی کمی کے باعث اس کے چند پیراگراف ہی پیش کیے جاسکے تھے۔)

حصہ