بزمِ یارانِ سخن کا بہاریہ مشاعرہ

147

بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام بہاریہ مشاعرہ ترتیب یا گیا جس کی مجلسِ صدارت میں ساجد رضوی اور فیروز ناطق خسرو شامل تھے۔ زاہد حسین جوہری‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ مہمانانِ خصوصی اور تحسین احمد صدیقی مہمان اعزازی تھے جب کہ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تنویر سخن نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نعت رسولؐ پیش کی۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ مشاعرے ہر زمانے کی ضرورت رہے ہیں‘ جس معاشرے میں شاعری نہیں ہو رہی وہ معاشرے ترقی نہیں کر سکتے۔ شعرائے کرام وہ طبقہ ہے جو معاشرے کی ترقی میں اہم کردار کا حامل ہے۔ ہر دور میں قلم کاروں نے اصلاح معاشرہ پر کام کیا ہے۔ وقت و حالات کے تناظر میں شاعری کے عنوانات بدل جاتے ہیں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت شاعری کا سب سے اہم موضوع فلسطین اور اسرائیلی جنگ ہے۔ اس عنوان سے پاکستان اور دیگر ممالک میں ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شعرائے کرام غزہ پر ہونے والی اسرائیلی بم باری پر نوحہ خواں ہیں۔ شعرائے کرام قلمی جہاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کے زیر سایہ اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور اب اسرائیل ایٹمی پاور بن چکا ہے۔ وہ اس علاقے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ مسلم ممالک زبانی طور پر تو دہشت گردی کی مذمت کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل سے تعلقات ختم نہیں کر رہے۔ فی الوقت اسرائیل کی جانب سے ’’غزہ‘‘ میں قتل عام جاری ہے کوئی شخص محفوظ نہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ فلسطینیوں کی امداد کرنا ہمارا فرض ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعرائے کرام حماس کے مجاہدین کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں وہ غزہ کی حالتِ زار پر آنسو بہا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔

ساجد رضوی نے کہا کہ شاعری وہ میڈیا ہے جس کے ذریعے ہم معاشرتی‘ سیاسی مسائل اجاگر کر سکتے ہیں‘ ہم اپنی شعری میں زندگی کے تمام موضوعات کو زیر بحث لا سکتے ہیں کیوں کہ ادب برائے زندگی ہے۔ اب مزاحمتی شاعری میں فلسطین اور کشمیر اہم موضوعات ہیں۔ دونوں مقامات پر مسلمانوں کے خلاف مظالم اپنے عروج پر ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی حرام کر دی ہے جب کہ ہندوستان نے کشمیریوں کی آزادی سلپ کر رکھی ہے۔ آیئے ہم ظلم کے خلاف سیہ پلائی دیوار بن جائیں۔

فیروزناطق خسرو نے کہا کہ ادب کی ترقی کے لیے تمام ادبی اداروں کو متحد ہونا پڑے گا کراچی میں ادبی گروہ بندی سے ادب متاثر ہو رہا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی مستحق قلم کاروں کی اعانت کی جائے۔ قلم کاروں کے مسائل بھی حل کیے جائیں۔ جینوئن قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں جب سے امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے ادبی پروگراموں کی تعداد بڑھ گئی ہے‘ نوجوان شعرا بھی تیزی سے آگے آرہے ہیں جو ادبی ادارے شعرائے کرام کو پروموٹ کر رہے ہیں میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ بزمِ یارانِ سخن کو کامیاب مشاعرے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

زاہد حسین جوہری نے اپنا کلام سنانے سے قبل کہا کہ کراچی میں ادبی تنظیموں نے ادب کو زندہ رکھا ہوا ہے یہ تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام مرتب کرتی ہیں حکومتی سطح پر انہیں فنڈنگ نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری ایک پاور فل ویژن ہے‘ شاعری کے ذریعے ہم انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ شاعری ہماری روحانی غذا ہے‘ شاعری سے ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ شاعری بھی ہماری ضرورت ہے‘ شاعری کا غیر تحریر شدہ منشور یہ ہے کہ اپنے معاشرے سے برائیاں ختم کریں‘ اچھائیوں کو فروغ دیں‘ انسانیت کی خدمت کریں۔ جو شاعر بھی اپنی شاعری میں معاشرے کے حالات پر بات کرتا ہے اس کے اشعار زندہ رہتے ہیں۔ سرور چوہان نے کہا کہ بزمِ یارانِ سخن تواتر کے ساتھ ہر ماہ ادبی محفل سجا رہی ہے۔ انہوں نے تمام شعرا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی آمد سے مشاعر کامیاب ہوا۔ اس موقع پر ساجد رضوی‘ فیروز ناطق خسرو‘ زاہد حسین جوہری‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ تحسین احمد صدیقی‘ محسن اسرار‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ حجاب عباسی‘ ڈاکٹر نثار‘ حامد علی سید‘ مقبول زیدی‘ احمد سعید خان‘ دلشاد خیال ایڈووکیٹ‘ سلمان عزمی‘ صفدر علی انشاء‘ اختر ہاشمی‘ شائستہ سحر‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ عتیق الرحمن‘ حمیدہ کشش‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی‘ شازیہ عالم شازی‘ فخراللہ شاد‘ عینی میر عینی‘ سرور چوان‘ ہما ساریہ اور فرحانہ اشرف نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ بزمِ یارانِ سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی اپنی مصروفیات کے باعث اس پروگرام میں شریک نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنے ٹیلی فونک پیغام میں کہا کہ ادبی سرگرمیوں سے معاشرہ متحرک ہے‘ ادب کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ شامل کرتے رہیے تاکہ زبان و ادب کی ترویج و ترقی جاری ہے۔ حکومت سندھ اور وفاقی گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ ارد زبان و ادب کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں پر بھی توجہ دیں۔ اردو زبان کا کسی بھی علاقائی زبان و ثقافت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اردو ہماری قومی زبان ہے جب کہ علاقائی زبانیں بھی ہماری پہچان ہیں۔ علاقائی زبانوں کی ترقی سے اردو زبان مزید ترقی کرے گی۔

حصہ