پربت کی رانی قسط11

155

جس جیپ کے ٹائر بھرسٹ کئے گئے تھے، اس سے جیسے ہی تین چار کلو میٹر کا فاصلہ بڑھا تو ایسا لگا جیسے ان کی سٹلائٹ وائرلیس سسٹم جاگ گیا ہو۔ گویا پیچھے رہ جانے والی جیپ میں جدید قسم کے ایسے جیمرز لگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کا کمیونی کیشن سسٹم منجمد ہو کر رہ گیا تھا۔ سسٹم کے بحال ہوتے ہی انسپکٹر سبطین نے بے اختیار جمال اور کمال کی جانب مڑ کر دیکھا۔ اور دل کی گہرائیوں سے واہ کی ایسی صدا بلند ہوئی جس کو صرف وہ ہی سن سکتے تھے۔ انھوں نے فوراً ہی اپنے محکمے کو صورت حال سے آگاہ کیا لیکن یہ خفیہ زبان میں تھا جس کو جمال اور کمال بھی نہیں سمجھ سکتے تھے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا بلکہ گہری خاموشی چھائی رہی۔ ایسا لگا کہ سسٹم بحال ضرور ہے لیکن وہ کسی بھی قسم کا پیغام کمیونی کیٹ کرنے میں ناکام ہے جس کے ردِ عمل پر انسپکٹر سبطین کی پیشانی پر فکر مندی کے بل نمودار ہوئے جیسے انھیں یہ بات بہت تشویش ناک لگی ہو۔ البتہ انہوں نے دوبارہ کال کرنا شاید مناسب نہیں سمجھا۔ جیپ کے اندر لگے بیک میرر سے جب انھوں نے ایک اچٹتی سے نظر جمال اور کمال پر ڈالی تو انھیں بہت مطمئن دیکھ کر بہت تعجب ہوا کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ سسٹم کے زندہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے ہیڈ کواٹر سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
ابھی آٹھ دس کلو میٹر کا مزید فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ انھوں نے دیکھا کہ راستے میں بڑی بڑی چٹانیں گری پڑی ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات تو نہ تھی اس لیے کہ یہاں کسی بھی وقت کسی بھی قسم کی سلائیڈنگ ہو جاتی ہے لیکن اس وقت جبکہ نہ تو کوئی زلزلہ آیا تھا اور نہ ہی شدید قسم کی برسات ہوئی تھی، اس لیے یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی تھی کہ ایسا سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا ہے جس کا مقصد پربت کی رانی کو اپنی رٹ منوانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ سارا قافلہ رک گیا تھا۔ سب کسی حد تک پریشان بھی تھے کہ اب کیا ہوگا اس لیے اس غیر روایتی راستے پر کسی بھاری مشینری کا پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔ کوئی اور راستہ نکالا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
سب لوگ بے حد پریشان تھے۔ جیپیں بند کردی گئیں تھیں، لوگ باہر نکل آئے تھے، خاتون ابھی تک واپس جانے پر بضد تھیں۔ مسئلہ کھانے پینے اور فیول کا بھی بہت گھمبیر تھا۔ باہر کا درجہ حرات بھی کافی زیادہ تھا۔ گویا پربت کی رانی نے ہمارے لیے ایک ہی راستہ چھوڑا تھا اور وہ واپس پربت کی رانی کی عبادت گاہ کی جانب لوٹ جانے کا تھا یا پھر دوسرا راستہ کسی غیبی امداد کا۔ انسپکٹر حیدر علی اور سبطین کی نظریں ایک مرتبہ پھر دو کمسن جمال اور کمال کی جانب اٹھیں تو وہ ان کو مسکراتا ہوا دیکھ کر کافی حیران سے ہو گئے۔ دونوں نے بیک وقت ان کے اطمینان اور مسکرانے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ اگر یہ ساری مہم جوئی ہمارے خفیہ ادارے کی ایما پر ہوئی ہے تو پھر کم از کم ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ ہم سے بالکل بھی غافل نہیں ہونگے۔ یہ جواب سن کر انسپکٹر سبطین کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے کہ کیا تم نے سسٹم بحال ہونے کے باوجود کسی جواب کو موصول ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جس پر جمال اور کمال نے کہا کہ بے شک جواب تو موصول نہیں ہوا لیکن کیا آپ اس بات کو یقین سے بتا سکتے ہیں کہ آپ کا پیغام دوسری جانب سنا ہی نہیں گیا ہوگا۔ یہ جواب سن کر جیسے کوئی بلندی سے گر جاتا ہے، انسپکٹر سبطین اس طرح چونک اٹھے۔ بات تو تم دونوں بہت ہی گہری کہہ رہے ہو۔ دیکھیں اب آگے کیا معاملہ ہوتا ہے۔
ابھی یہاں ٹھہرے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ فضا میں ہیلی کاپٹروں کی گونج سنائی دینے لگی۔ سب نے خیال یہی کیا کہ پربت کی رانی حرکت میں آ چکی ہے۔ سب کی نگاہیں آسمان کی جانب اٹھی ہوئی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں انھیں دو ہیلی کواپٹر دکھائی دینے لگے جب وہ مزید قریب اور نیچے آئے تو ان سب نے اپنے گرفتار ہونے کی تیاری شروع کردی کیوں کہ ان پر ہماری ملیٹری یا کسی ایجنسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ وہ اتنی بڑے تھے اس میں سب کے سب بآسانی سوار کئے جا سکتے تھے۔ جمال اور کمال نے کہا کہ انکل، سب سے کہیں کہ کوئی بھی مزاحمت نہ کرے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری مدد کے لیے آئے ہیں مگر کس نے بھیجے ہیں، اس کا علم تو ان کے ایکشن کے بعد ہی پتا چلے گا۔ (جاری ہے)
مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہاں لینڈ نہیں کر سکتے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر کچھ فاصلے پر ہوا میں معلق ہو گیا اور دوسرے نے ان کے سروں پر معلق ہو کر ایک مضبوط رسے کی مدد سے کافی بڑی کیبن زمین تک لٹکادی اور میگا فون سے کہا گیا کہ اس میں آدھے لوگ سوار ہو جائیں۔ حیدر علی ہچکچائے تو جمال اور کمال نے کہا کہ انکل دوست ہی لگتے ہیں، گھبرائیں نہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ مسلح ہیں لیکن پھر بھی انھوں نے اگر آپ سے ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہا تو یقیناً یہ ہمارے دوست ہیں۔ یہ بات سن کر جیسے انسپکٹر حیدر علی اور سبطین کے تنے ہوئے اعضا ڈھیلے پڑ گئے اور نھوں نے آدے افراد، جس میں غل غپاڑہ کرنے والی خاتون بھی تھیں، انھیں کیبن میں سوار کیا۔ کیبن ہیلی کواپٹر کے ساتھ اٹیچ ہو گیا تو ہیلی کواپٹر وہاں سے دور چلا گیا۔ دوسرے ہیلی کواپٹر نے قریب آکر اسی طرح کا ایک کیبن نیچے لٹکا دیا اور اس طرح باقی سارے افراد بھی اپنے اپنے سامان کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔ یہ ہیلی کواپٹر اپنے اپنے کیبنوں کو لے کر چند کلو میٹر دور ایک روایتی شاہراہ کے قریب ایک چھوٹے سے میدان میں اترے۔ سب جب نیچے اترے تو یہ دیکھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا کہ یہاں ادارے کی مضبوط اور تیز رفتار گاڑیاں کھڑی تھیں اور درجن بھر جوان ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں بہت ہی خوش ذائقہ مشروبات اور پھلوں کے علاوہ دیگر ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں بھی موجود تھیں۔ (جاری ہے)
غل مچانے والی خاتون آہستہ آہستہ پُر سکون ہوتی جا رہی تھیں شاید مہک کا اثر دم توڑتا جا رہا تھا۔ وہاں موجود عملے نے جمال اور کمال کے والدین سمیت تمام خواتین اور دیگر افراد کو گاڑیوں میں بٹھا کر اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ کر دیا تھا۔ روکے جانے افراد میں انسپکٹر حیدر علی، انسپکٹر سبطین، جمال اور کمال شامل تھے جب سب جیپیں دیگر افراد کو لے کر روانہ ہو گئیں تو ان سب کو ایک ہیلی کواپٹر میں سوار کرکے جس مقام پر لایا گیا اس کا علم انسپکٹر حیدر علی یا سبطین یا جمال اور کمال، کسی کو بھی نہ تھا۔ ان سب کو جس درمیانے درجے کے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا وہاں فی الحال ان کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اچانک دیوار میں نصب اسکرین روشن ہوا اور اس پر جو شکل ابھری وہ بھی ان سب کے لیے بالکل اجنبی تھی لیکن اس کی وردی اسے ایک بڑا آفیسر ثابت کر رہی تھی۔ اس کے منہ نکلنے والا پہلا لفظ ہے “ویلڈن” کا تھا۔ میں ساری ٹیم کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں جنھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک بہت عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ہم آپ سب لوگوں کی جانب سے بالکل بھی غافل نہیں تھے۔ ہم نے اپنے ایک عظیم سائنسدان، جس کا نام ہم فی الحال نہیں بتانا چاہتے، کی مدد سے اپنی جیپوں کی چھتوں کے پینٹ میں ایسے ہزاروں چپس نما ذرات شامل کر دیئے تھے جس کی مدد سے ہمیں ان کی موجودگی اور ایک ایک موومنٹ کا علم ہوتا جارہا تھا۔ یہ ہم نے اس لیے کیا تھا کہ ہمارے پڑوس کے ایک ترقی یافتہ ملک نے آگاہ کر دیا تھا کہ آپ کے سرحدی علاقے جو ہمارے اور آپ کے ایک اور ملک کی سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں، ایک علاقے پر کچھ مشکوک سر گرمیاں جاری کی ہوئی ہیں اور کچھ ایسی ایجادات ہمارے ہی ملک سے چراکر اپنے علاقے کو بہت سارے لحاظ سے کافی محفوظ کر لیا ہے۔ کیونکہ یہ سرگرمیاں آپ کی سرحد کے اندر ہو رہی ہیں اس لیے ہم آپ کو آگاہ کر رہے کہ آپ ان کا جائزہ لیں۔ وہاں جو بھی گروہ ہے وہ مذہب کا سہارا لیکر ایک عجیب و غریب فتنہ برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کی سٹلائٹ یا وائرلیس کمیونی کیشن کو جام کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے۔ اس لیے جس مشن کو بھی وہاں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا جائے اپنے رسک پر بھیجا جائے کیونکہ ان کے سسٹم کا توڑ ہمارے پاس بھی نہیں۔ ان سارے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سب کو وہاں بھیجنے سے قبل ہمارے سائنسدان نے کافی تحقیق کے بعد ایک ایسا پینٹ ایجاد کیا جس میں ایسے ذرات شامل تھے جو ہر قسم کے جیمرز کی موجودگی میں بھی اپنی ریزز فضا میں نشر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جن سے ان جیپوں کی موجودگی کے ساتھ وہاں کی پوری منظر کشی بھی دکھی جا سکتی تھی۔ اسی لیے ہم اس قابل ہوئے تھے کہ آپ کی واپسی کو مسلسل دیکھ سکیں۔ ہمارے لیے تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب باقی کاروان کو چھوڑ کر کچھ افراد تین جیپوں میں سوار ہو کر اس مقام تک پہنچے جو پربت کی رانی کی مکمل دسترس میں ہے۔ جیسے ہی تینوں جیپیں ابر نما حصار میں داخل ہوئیں تو ہماری اسکرینوں پر ہر منظر غائب ہو گیا یہاں تک کہ جب تک آپ سب لوگ اس حصار سے باہر نہیں آ گئے اس وقت تک ہم تشویش میں مبتلا ہی رہے۔ باہر آکر واپسی کے سارے مراحل کا ہم جائزہ لیتے رہے کیونکہ جو گروہ اتنا ایڈوانس ہو جو کسی ملک کے ہر سسٹم کو نابینا بنا سکتا ہو اس پر اس شک کا جانا بہر حال بنتا ہی ہے کہ واپس آنے والے دوست بن کر آ رہے ہیں یا دشمنوں کے حصار میں گرفتار ہونے کی وجہ سے انھیں واپسی کی اجازت ملی ہے لیکن جب ہم نے ایک خاتون کی واپسی جانے کی ضد سنی اور اس کا شور ہمارے کانوں تک پہنچا تو ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ وہاں جو کچھ بھی ہوا ہوگا اس کی متاثر ایک یہی خاتون ہے باقی افراد اپنی کسی نہ کسی حکمت عملی سے اپنے آپ کو ان کی سائنسی ایجادات کے حملے سے کسی نہ کسی ترکیب سے بچائے رکھا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ بات بھی بڑی حیرت انگیز اور غور طلب تھی کہ کافی فاصلہ گزر جانے کے باوجود نیچے بنائے گئے عارضی کیمپ میں جہاں باقی افراد اور جیپیں روک دی گئیں تھیں، وہاں سے ایک خاتون کی جانے کی ضد کی صدائیں پربت کی رانی تک کیسے پہنچیں۔ جانے کی ضد اور فریاد تو وہ راستے بھر کرتی رہی تھی تو وہاں پر جانے والی گاڑیوں کو کیوں روکا نہیں گیا۔ اس سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمارے عملے میں یقیناً کوئی کالی بھیڑ ضرور شامل ہے۔ جب آپ سب لوگ اپنے عارضی کیمپ کے قریب پہنچے تو تب پربت کی رانی تک یہاں کے حالات کمیونی کیٹ ہونے لگے۔ اب رہی یہ بات کہ پربت کی رانی کی آواز آپ سب تک کہاں سے آ رہی تھی، اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ آپ سب کا یہ فیصلہ کہ جس اہل کار کی وساطت سے پربت کی رانی بات کر رہی تھی اسے خاص ترکیب سے اپنے راستے سے ہٹا دیا جائے، بہت ہی دانشمندانہ تھا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس اہل کار کو راستے سے ہٹا دینے کا دانشمندانہ مشورہ جمال اور کمال ہی نے دیا تھا۔ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ آخر پربت کی رانی اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے مزید کیا کرتی ہے۔ جب ہم نے آپ کی راہوں میں بڑی بڑی چٹانوں کو حائل ہوتے دیکھا تو اب ہم مزید کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ آپ سب افراد کو بحفاظت وہاں سے نکال لانے میں ہی بہتری ہے۔

تھوڑے سے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم پربت کی رانی کے خاص مسکن، جہاں مصنوعی بادلوں کے سے انداز کا ہجوم تھا، وہاں آپ لوگ کن مراحل سے گزرے، ہم اس سے بالکل بے خبر ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے پاس وہاں کی بہت قیمتی معلومات ہونگی، ان کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ انسپکٹر حیدر علی نے وہاں ہونے والے ہر قسم کے سلوک اور رویے کی پوری تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا کہ وہاں سب سے پہلے جمال اور کمال نے پوری فضا میں ایک عجیب سے مہک محسوس کی جس کی وجہ سے ہم ہر قسم کی تھکن یوں بھول گئے جیسے ہم نے کوئی سفر ہی نہ کیا ہو۔ یہ بات محسوس کرتے ہیں خفیہ طریقے سے جمال اور کمال نے ہم سب کو آگاہ کیا اور مشورہ دیا کہ چونے کو ٹشو میں لپیٹ کر اگر ناک کے قریب رکھا جائے تو اس مہک میں کافی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس مخصوص مہک میں بھی کوئی راز پوشیدہ ہو۔ جمال اور کمال کی والدہ کیونکہ کبھی کبھی پان کھایا کرتی تھیں اس لیے وہ پان کے سارے لوازمات، جس میں چونا بھی شامل تھا، ساتھ لے گئیں تھیں۔ ہم سب نے جمال اور کمال کے مشورے پر عمل کیا۔ یہ مہک پربت کی رانی کے خطاب کے موقع پر اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی جس سے اس بات کا یقین ہو چلاتھا تھا اس مہک کے ذریعے انسانی ذہنوں کو یقیناً مفلوج کرکے اپنے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں اتارا جاتا تھا۔ ایسے موقع پر ہم نے چونے والے ٹشو پیپر کو اپنی اپنی ناک کے مزید قریب کر لیا تھا۔ اس بات کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ خاتون جو واپس نہیں آنا چاہتی تھیں، وہ ہماری کوئی تجویز ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پربت کی رانی کا پیغام اور اس بستی کا ماحول ان کے دل و دماغ پر بری طرح اثر انداز ہو گیا تھا۔ ہم کیونکہ وہاں بہت کم وقت کے لیے ٹھہرے تھے اس لیے ان کی یہ مسموم فضا ہمارے دل و دماغ کو زیادہ متاثر نہ کر سکی لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک دو دن اور گزر جاتے تو ہم بھی شاید وہیں کے ہی ہو رہتے۔

یہ بات سن کر گہری خاموشی چھائی رہی۔ بھر آواز ابھری کہ یہ سب بے شک درست ہی سہی لیکن ہمارے پاس ایسا کیا ٹھوس ثبوت ہے کہ وہاں کی فضا مسموم یعنی زہر آلودہ ہی ہوگی۔ ممکن ہے کہ ہم جب ویاں ریڈ کریں تو فضا کو ہر قسم کی مہک سے آزاد کر دیا جائے۔ یہ بات سن کر سب خاموش ہو گئے۔ اچانک جمال کی آواز گونجی کہ ہم دونوں وہاں کی فضا کے کچھ نمونے اپنے ہمراہ لائے ہیں بلکہ ان تمام اشیا کے نمونے بھی لائے ہیں جو ہمیں وہاں کھانے اور پینے کے لیے پیش کی گئی تھیں۔

یہ بات سن کر مخاطب کرنے والی کے چہرے سے عجیب قسم کی حیرت ٹپکنے لگی۔ جمال اور کمال کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہاں کی فضاؤں کی ہواؤں کو آپ اپنے مٹھیوں میں قید کر کے لائیں ہیں۔ اس انداز میں ہلکا سا طنز پوشیدہ جان لینے کے باوجود بھی فوری طور پر جمال اور کمال نے کسی ردِ عمل کا اظہار اس لیے نہیں کیا کہ آفیسر ابھی اپنی بات مکمل نہیں کر سکے تھے۔ سانس لینے کے بعد آواز آئی کہ کھانے پینے کی اشیا کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ غذا کو تھوڑی تھوڑی مقدار میں کسی کاغذ کے پرزے میں لپیٹا جا سکتا ہے لیکن ہواؤں کو تو مٹھی میں بند نہیں کیا جا سکتا۔

جب آفیسر کی بات ختم ہو گئی تو جمال اور کمال نے کہا کہ جناب ہم نے نہ صرف کھانے پینے کی اشیا کو محفوظ کیا ہوا ہے بلکہ وہاں کی فضا کا کافی ذخیرہ بھی قید کیا ہوا ہے لیکن یہاں میں ایک اہم بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب کوئی ایک ذمہ دار فرد بھی ایسا نہیں جو قابلِ اعتبار ہو۔ ہم سب کو جس انداز میں یہاں لایا گیا ہے اس میں غیر اطمینانیت کی مکمل گنجائش ہے۔ ہمارے پاس جو بھی شواہد ہیں ان کے لیے اس بات کا اطمینان و یقین دلانا ضروری ہے کہ آپ ہمارے سب سے بڑے خفیہ کے ادارے کی اجازت سے ہم سب سے وہاں کی تفصیل طلب کر رہے ہیں، ہماری عمریں بے شک بہت کم ہیں لیکن اللہ کی عنایت ہم پر الحمد اللہ بہت ہے۔ جب آپ ہی کا اہل کار دشمن کا کارندے ثابت ہو سکتا ہے تو اب ہر بات کی تصدیق اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس مہم پر ہمیں بھیجا گیا تھا اس قسم کی کسی بھی مہم کی سربراہی کسی پولیس انسپکٹر کو نہیں سونپی جا سکتی۔ یہ خاص ادارے ہی کا کام ہے۔ یہ بات کہتے ہی انھیں اسکرین پر ویلڈن جمال اور کمال کی ایک بلند آواز اسکرین پر گونجتی سنائی دی لیکن بولنے والا دکھائی دینے والا آفیسر نہیں تھا۔ اچانک پہلے آفیسر کی تصویر اسکرین پر سمٹ کر ایک کونے پر چلی گئی اور خفیہ ادارے کے سر براہ اسکرین پر نمودار ہوئے۔

ہم نے ایسے ہی جمال اور کمال کو مہم کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ گویا وہ انسپکٹر حیدر علی اور سبطین سے مخاطب تھے۔ اللہ ان کو اور بھی دانش و حکمت دے، ہمیں یقین ہے کہ انھوں نے وہاں پر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ وہاں کی ہواؤں کو بھی قیدی ضرور بنایا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ وہ تمام جمع شدہ معلومات ابھی ان کے پاس بھی نہ ہونگی اور جن کے ہاتھوں میں ہونگی ان کو ہدایت دی جا چکی ہو کہ اگر کوئی زبر دستی ان کو حاصل کرنا چاہے تو ہر صورت میں ان کو تلف کر دیا جائے اس لیے ہم جمال اور کمال سے از خود وہ ساری اشیا حاصل کر لیں گے۔ فی الحال آپ جس مشن پر بھیجے گئے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیا ہے۔ اب ہم لائے گئے نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پربت کی رانی کے خلاف کیا کیا قانونی جارہ جوئی کی جا سکتی ہے یا پھر ان کی ایجاداد کا کیا توڑ کیا جا سکتا ہے۔ ویلڈن انسپکٹر حیدر علی اور ان کی پوری ٹیم اور خصوصی ویلڈن جمال اور کمال۔

حصہ