اسرائیلی مصنوعات بائیکاٹ مہم

300

پاکستانی مصنوعات کے فروغ اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے بزنس فورم کا سیمینار اسرائیلی اور اسرائیل کی حامی مغربی کمپنیوں کے برانڈز کے بائیکاٹ کی مہم میں تیزی آرہی ہے

اسرائیل کی دہشت گردی جاری ہے، مسلم حکمراں خوابِ غفلت میں ہیں اور تاریخ کے بدترین جرم میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں یا بے بس ہیں۔ مسلم عوام میں بیداری ہے، اور یہ بیداری دوسری قوموں کے لوگوں میں بھی پیدا ہورہی ہے جو درد رکھتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل کے بعد سے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف لوگ باہر نکلے ہیں، امریکا اور برطانیہ میں بھی نکلے ہیں اور عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ منظم انداز میں نظر آرہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے گلی محلّوں میں اسرائیلی اور یہودی ملکیت رکھنے والے برانڈز اور مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا پیغام پہنچ رہا ہے جو ایک سنجیدہ مہم کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ العربیہ کے مطابق ’’عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین میں اسرائیلی اور اسرائیل کی حامی مغربی کمپنیوں کے برانڈز کے بائیکاٹ کی مہم میں تیزی آرہی ہے۔ بائیکاٹ کی اس مہم کی زد میں وہ کمپنیاں بھی آرہی ہیں جو اسرائیل کے حق میں بیانات دے کر اس جنگ میں اُس کی کھلی حمایت کرچکی ہیں، اور کچھ ایسی کمپنیاں ہیں جو اسرائیل کو مالی امداد دینے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ کچھ کمپنیوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدات بھی ہیں۔ مصر اور اردن نے کئی سال پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے تھے لیکن اس کے باوجود عوامی سطح پر ان چیزوں کو مقبولیت نہیں ملی ہے۔ عوامی رجحان فلسطینیوں کی ہی طرف ہے۔‘‘

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’بائیکاٹ کی اس مہم کی زد میں آنے والے کچھ برانڈز ایسے ہیں جہاں عام طور پر بہت زیادہ رش دیکھنے کو ملتا تھا جو اب نظر نہیں آرہا۔ ایسے ہی برانڈز کو خام مال پہنچانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس مہم کے بعد سے ہماری سیل میں بھی کمی آئی ہے جبکہ متعدد کمپنیوں کی جانب سے آرڈر بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں آپریٹ کرنے والی ایک اور بین الاقوامی کمپنی میں کام کرنے والے ملازم نے بتایا کہ ہماری سیل میں 70 فیصد تک کمی آئی ہے۔ ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی کے مالک نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بائیکاٹ کا اثر ہر کمپنی پر مختلف انداز میں پڑ رہا ہے۔‘‘

اسی پس منظر میں جماعت اسلامی اور پاکستان بزنس فورم کے تحت ملک میں پاکستانی مصنوعات کے فروغ اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں پاکستان بزنس فورم کراچی کے صدر سہیل عزیز،کراچی چیمبر آف کامرس کے سنووائٹ کے شکیل، چیئرمین پی ایچ ایم اے انجینئر بابر خان، سابق ایم ڈی ایس ایس جی و ایف اینڈ ایم کے ڈائریکٹر سید فرخ،کراچی چیمبر آف کامرس کے ممبر اور یونائیٹڈ کنگ کے تحسین شیخ، پاکستان فوڈ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے وحید احمد، معروف صنعت کار ناظم ایف حاجی و دیگر نے اسرائیلی مصنوعات کے متبادل کے طور پر پاکستانی مصنوعات سے آگاہی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ملکی فوڈ کے ذیشان نے حافظ نعیم الرحمن، سہیل عزیز اور بابر خان کو شیلڈز پیش کیں۔

سیمینار میں پاکستانی مصنوعات پر مشتمل وال بنائی گئی تھی جس میں مقامی طور پر تیار کردہ ڈیری کی مصنوعات، آئس کریم، برتن دھونے اور صفائی کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات، صابن،کھانے پکانے کے تیل، کنفیکشنری، بسکٹ، جوس، ہینڈ واش، لوشن، پانی کی بوتلیں، چاکلیٹ اور دیگر مصنوعات بھی نمایاں کی گئی تھیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سیمینار سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ملکی مصنوعات کا فروغ ناگزیر ہے۔ سامراجی و صہیونی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ ہم غزہ نہیں جاسکتے لیکن یہاں رہتے ہوئے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اُن کی معیشت کو تباہ کرسکتے ہیں۔ فلسطینی مسلمان اسرائیلیوں کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور فلسطین چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم بھی ملک میں موجود طبقۂ اشرافیہ اور مغربی ساہوکاروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور ان کو بھاگنے پر مجبور کردیں گے۔ حماس کے مجاہدین کی مزاحمت کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی ہے جس میں حماس نے اپنی کئی چیزیں منوائی ہیں۔ حماس کی مزاحمت اور جدوجہد سے دنیا دوحصوں یعنی حکمران اور عوام میں تقسیم ہوگئی ہے،7اکتوبر کے واقعے کی بدولت دنیا کی تاریخ بدل رہی ہے، مسلمانوں کے پاس قیادت کرنے کا وقت ہے، پوری دنیا کے مسلمان پروڈکٹ دیکھ کر خرید رہے ہیں کہ کہیں اس سے اسرائیل کو فائدہ تو نہیں پہنچ رہا! آج کا یہ سیمینار فلسطینیوں کی قربانیوں کا صلہ ہے، اگر آج پیش رفت نہیں کی تو اس کا جواب دینا ہوگا۔ پاکستان بزنس فورم اور یہاں آنے والے تاجر و صنعت کار خدمت کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ پاکستانی عوام اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، چیمبرز اپنا ایک کلسٹر بنائیں اور مل کر کام کریں، اگر کسی بھی پروڈکٹ کو آگے بڑھانے میں حکومت رکاوٹ بنے تو جماعت اسلامی آپ کا بھرپور ساتھ دے گی۔

سیمینار سے خطاب میں سہیل عزیز نے کہاکہ پاکستان بزنس فورم انٹرنیشنل فورم کا ایک چیپٹر ہے۔ انٹرنیشنل فورم کا چیپٹر 1997ء میں اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ دیگر ممالک سے رابطے میں رہا جائے۔ 42 ممالک میں پاکستان بزنس فورم کے چیپٹر موجود ہیں۔ پاکستان میں بزنس فورم کی سرگرمی یہی ہے کہ جو لوگ پاکستان میں بزنس کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔ پاکستان کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی اور پاکستان بزنس فورم مل کر کام کریں گے۔ مقامی طور پر بنائے گئے تمام برانڈز موجود ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ انہیں دوسرے ممالک میں بھی ایکسپورٹ کریں۔

سنووائٹ کے چیئرمین شکیل نے کہاکہ ہمیں ’’پاکستانی بنیں اور پاکستانی مصنوعات خریدیں‘‘ کا سلوگن بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اچھی سے اچھی پروڈکٹ بنائیں اور ایمان داری سے فروخت کریں۔

انجینئر بابر خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بڑی تعداد میں بائیکاٹ کیا ہے۔ تقریباً ایسی اشیاء کا بائیکاٹ کیا گیا جو گھریلو استعمال کے لیے تھیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی ہدایت پر فیصلہ کیا گیا کہ لمبے وقت کے لیے پاکستانی پروڈکٹ کو متعارف کروایا جائے۔ ایسی مصنوعات متعارف کروائی جائیں جن سے گھریلو ضروریات پوری ہوسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریننگ پروگرامز منعقد کریں اور مقامی مصنوعات کو متعارف کرائیں۔ کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان بزنس فورم کے تحت معاشرے میں موجود بزنس کرنے والوں کو ٹریننگ کروائیں گے۔

سید فرخ نے کہاکہ ایس جی ایچ میں 26 سال کام کیا۔ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کے بعد پاکستانی کمپنی بنائی جس کا نام ایف اینڈ ایم رکھا۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں آپ بزنس میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں موجود تمام ایسوسی ایشنز کے ساتھ کام کیا۔کسی بھی کاروبار میں ضروری ہے کہ آپ کام کو ایمان داری کے ساتھ کریں۔ ہم پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے برانڈز بناسکتے ہیں، ہمیں باہر کی پروڈکٹ کی ضرورت نہیں۔

معروف بزنس مین تحسین شیخ نے کہاکہ ہمیں اپنے برانڈ کو پہچاننا چاہیے۔ کراچی سے پاکستان سمیت بین الاقوامی طور پراپنے برانڈز کو رجسٹرڈ کروایا۔ 50 ممالک میں ہمارے برانڈز رجسٹرڈ ہیں۔ ہمیں اپنے برانڈز کو پہچاننا ہے، ہمیں اپنے ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے برانڈز کو قومی و بین الاقوامی طور پر متعارف کروایا ہے۔

وحید احمد نے کہاکہ آج ہم پاکستانی مصنوعات کو متعارف کروانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہمیں خود سوچنے کی ضرورت ہے کہ عوام پاکستانی برانڈز کو کیوں قبول نہیں کرتے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں جس طرح کوالٹی کو بہتر بناتی ہیں ہمیں بھی اپنے برانڈز کی کوالٹی کو بہتر کرنا ہوگا۔ فوڈز اینڈ ویجیٹیبل کی ایکسپورٹ 30 ممالک میں جاتی ہے۔ ہمیں اپنی مصنوعات پر بھروسا ہونا چاہیے کہ ان سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتیں۔ ہمیں مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے 75 سال میں ملک میں کوئی ایسی انڈسٹری نہیں بنائی جو دنیا میں ایکسپورٹ کرتی ہو۔ پاکستان بزنس فورم کا سیمینار ایک امید، رہنمائی اور حوصلہ ہے کہ ہمارے ملک میں امکانات موجود ہے اور اس سمت توجہ دی جائے تو بڑی زرخیز ہے یہ مٹی ساقی۔

حصہ