سابق سفارت کار طارق فاطمی کا ایک یادگار انٹریو

241

تقسیم برصغیر سے قبل ہی پاکستان اپنی اسٹریجٹک اہمیت کے باعث پنٹاگون کا مرکز نگاہ تھا،روس کی جانب سے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت ایک دل کش کہانی سے زیادہ نہیں

طارق فاطمی 1969ء سے 2004ء تک فارن سروس سے وابستہ رہے۔ آپ پاکستان کی طرف سے زمبابوے‘ واشنگٹن‘عمان‘ یورپی یونین اور برسلز میں سفیر رہے۔ وہ ماسکو‘ نیویارک‘ واشنگٹن‘بیلجیئم اور برسلز سمیت اہم ممالک میں مشن کے سلسلے میں مختلف ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے۔ اپنے طویل کیریئر میں آپ وزارت خارجہ کی اہم سیاسی ڈیسک میں بھی رہے اور اسی طرح وزیراعظم آفس میں بھی جہاں وہ دفاع‘ دفاعی پیداوار‘ بیرونی تعلقات اور جوہری توانائی سے متعلق امور کے بھی ذمہ دار رہے۔ 2004ء میں ریٹائر ہونے کے بعد آپ تدریس کے شعبے سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انگریزی اخبار میں کالم نگاری اور ریڈیو اور ٹی وی پر متواتر تجزیے اور تبصرے بھی کرتے ہیں۔آپ سا بق وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر بھی تھے اور ہیں ۔ ماضی میں آپ سے اسلام آباد میں ایک خصوصی نشست میں ملکی اور بین الاقوامی صورت حال‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی‘ پاک بھارت تعلقات‘ دہشت گردی کی جنگ پر اٹھنے والے سوالات سمیت دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی جو آج بھی اہمیت رکھتی ہے۔

سوال : ابتدائی حالات اور سفرِ زندگی کے بارے میں بتایئے۔

طارق فاطمی: ہمارے خاندان کے اجداد ایران اور عراق سے ہندوستان آئے تھے۔ یہ صوفیا اور مبلغین کا خاندان تھا۔ تقریباً سو ڈیڑھ سو سال پہلے وہ وسطی ہندوستان سے مغربی ہندوستان (ویسٹ بنگال) منتقل ہو گئے۔ والد صاحب کی تعلیم اور میری پیدائش وہیں ہوئی۔ وہاں سے مشرقی پاکستان ڈھاکا چلے گئے۔ ہمارے والد صاحب تاریخ کے پروفیسر تھے اور ساری زندگی شعبہ تعلیم میں گزاری تو ہماری دل چسپی بھی بین الاقوامی تعلقات‘ تاریخ اور سیاسیات کی طرف ہوگئی۔ پھر تعلیم کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ شعبۂ امورِ خارجہ میں کام کروں اور مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد 1969ء میں فارن سروس میں رپورٹ کیا۔ یہاں بھی ابھی تربیت چل رہی تھی کہ پوچھا گیا آپ کس علاقے اور کس شعبے میںمہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ میری دل چسپی شروع ہی سے روس‘ روس کی تاریخ اور اس کی ثقافت میں بہت گہری تھی‘ میں نے کہا کہ میں روس جانا چاہتا ہوں‘ مجھے وہاں کچھ کام کرنے اور روسی زبان سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ پھر مجھے روسی فلسفہ و ادب کو سمجھنے کا موقع ملا تو میں نے ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی جو یہاں کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹی میں سے ایک تھی‘ وہاں پڑھا اور اس کے بعد ایمبیسی سے منسلک ہو گیا۔ اس زمانے میں پاکستان میں سیاسی بحران شروع ہوگیا۔ سقوط مشرقی پاکستان میں روس کا بہت اہم کردار رہا تھا جو کہ ہندوستان کا دوست اور اتحادی تھا۔ بین الاقوامی سفارت کاری کا عملی تجربہ ہوا جو بہت ہی غیر معمولی تجربہ تھا۔ اس کے بعد الحمدللہ مختلف ممالک میں تعیناتی ہوئی جو بڑی اہم اور دلچسپ بھی تھی۔ نیویارک‘ واشنگٹن‘ بیجنگ اور اسلام آباد میں ہیڈ کوارٹر میں ہمیں ذمہ داریاں سونپی گئیں‘ وہ ساری سیاسی تھیں۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپ کا ڈائریکٹر فارن منسٹر کے دفتر کا انچارج پانچ سال تک رہا۔ جب تیسری دفعہ اسلام آباد آیا تو ایڈیشنل سیکرٹری برائے امریکہ تھا اور پھر آخر میں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بھی ڈیفنس پروڈکشن آف اٹامک انرجی افیئر اور نیشنل سیکورٹی کے معاملات بھی میری ذمہ داریوں میں تھے۔ تو الحمدللہ 35,36 سال عزت سے نوکری کے بعد بالآخر جولائی 2004ء میں 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو کر برسلز سے جہاں میں پاکستان کا سفیر تھا‘ واپس آیا اور آنے کے بعد تحریر و تصنیف کا کام جاری رکھا۔ ڈیفنس انسٹی ٹیوشن میں لیکچر دیتا ہوں‘ سیمینار میں حصہ لیتاہوں اور ڈان اخبار کے لیے الگ ایک کالم لکھتا ہوں۔

سوال : آپ نے مشرقی پاکستان کے سانحے میں روس کے کردار کا ذکر کیا‘ اس کی تفصیلات اور پس منظر کیا ہے؟

طارق فاطمی: روس نے کھلم کھلا ہندوستان کا ساتھ دیا۔ انہیں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ مغربی پاکستان کی قیادت مشرقی پاکستان کی قیادت سے سیاسی مذاکرات کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتی اور جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ اس مسئلے کا حل اسلام آباد فوجی کارروائی سے نکالنا چاہ رہا ہے تو اس وقت بھی واضح طور پر روس کے مؤقف میں تبدیلی نظر آئی اور ساتھ ساتھ آپ کو یاد ہوگا کہ جولائی میں پاکستان نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا چین کا خفیہ دورہ Arrange کیا جسے امریکہ میں تو بہت ہی سراہا گیا مگر روس میں اس کا بڑا مخالفانہ ردعمل ہوا‘ کیوں کہ اس کے نتیجے میں طاقت کا پورا توازن بگڑ گیا اور امریکہ اور چین کے رسمی تعلقات بحال ہونے کے بعد جو چین کی تنہائی تھی‘ ختم ہوگئی‘ تو روسی رہنما بہت ناراض ہوئے۔ ان کی ناراضی کا آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ نجی اور عوامی دونوںسطح پر انہوں نے اس ناراضی کا اظہارکیا مگر چند ہی دنوں میں روس اور بھارت نے اس سے زیادہ ایک بہت طویل المیعاد معاہدہ (تقریباً 25 سال) treaty of Peace and Friendship of mutual Co-operation کے نام سے کیا جس کے دراصل دو نتائج نکلے تھے‘ ایک تو یہ کہ روس نے بھارت کو اس کی فوجی ضروریات پوری کرنے کا یقین دلایا۔ سب سے اہم یہ کہ اگر آپ کی پاکستان کی ساتھ جنگ ہوتی ہے تو اس میں آپ کو ہمارا پورا تعاون ملے گا۔ ہندوستان نے جب پاکستان پر حملہ کیا جس کا امکان تھا تو آپ نے دیکھا کہ روسی سفارت کاری نے پہلے تو کوشش کی کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی کوئی قرارداد پاس نہ ہو اور پورا وقت دیاکہ ہندوستان اپنا ہدف حاصل کر لے‘ اور جب مقصد حاصل کرلیا تو کہاکہ اب آپ جنگ بندی کر لیجیے۔ تو یہ کردار اور مدالت تھی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو چند مہینے کے اندر فیصلہ کیا کہ وہ روس کا دورہ کریں گے اور مارچ 1972ء میں تاریخی دورہ کیا جس میں انہوں نے بڑی ذہانت سے روس کی عداوت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ اس دورے کے نتیجے میں روس نے جو معاشی تعاون ملتوی کر دیا تھا‘ اسے دوبارہ شروع کرنے کا فصلہ کیا اور اسٹیل مل اور پاور پلانٹ کے تین منصوبوں کو اس نے ملتوی کر دیا تھا انہیں بھی شروع کیا اور پاکستان کو ایک Diplomatic Space ملا جو کہ میرا خیال ہے ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور بھٹو صاحب کو اس سے بڑی پذیرائی ملی۔ میں ان ساری چیزوںکے درمیان موجود رہا اور پہلی دفعہ دیکھنے اور تجربہ کرنے کا موقع ملا۔

سوال : اس سے پہلے کہا یہ جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کو بیک وقت سوویت یونین اور امریکہ کے دورے کی دعوت ملی لیکن انہوں نے سوویت یونین کے بجائے امریکہ کا دورہ کرنا پسند کیا اور ہماری خارہ پالیسی کی سمت متعین کر دی۔ اس تاثر میں کس حد تک صداقت ہے؟

طارق فاطمی: پاکستان میں 99 فیصد لوگوں کا یہی خیال ہے جو بالکل بے بنیاد اور غلط سوچ ہے اور اس میں اس اتھارٹی کے ساتھ اس لیے آپ کے سامنے یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ روس میں نہ صرف ایک دفعہ‘ بلکہ دو دفعہ ہماری تعیناتی رہی اور اسلام اباد میں بھی روس کا میں ڈیسک آفیسر تھا۔ جب ایڈیشنل سیکرٹری برائے امریکہ و یورپ تھا تو پھر روس سے معاملہ کیا اور صاحبزادہ یعقوب علی خان جب وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے یہ ذمہ داری سونپی کہ آپ اس مسئلے پر تحقیق کریں۔ وزارتِ خارجہ کی تمام مستند دستاویزات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت ہی خوب صورت اور دل کش کہانی ہے جس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ کوئی دعوت نامہ نہیں آیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف معلوم کیا تھا کہ آپ دل چسپی لیتے ہیں آنے میں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان نے فوراً ہی مثبت جواب دیا۔ اس کے بجائے (ہنستے ہوئے) مرحوم لیاقت علی خان کو اس کا ذِمہ دار ٹھہرایا جاتاہے۔ مگر وہ دنیا اور تھی‘ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ نہ ٹیلی فون تھا‘ نہ فیکس تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ تھا‘ نہ وائرلیس تھا‘ نہ موبائل تھا۔ خط و کتابت کے ذریعے ہی پیغامات آتے تھے اور نہ رو س کی ایمبیسی یہاں تھی اور منہ ہماری ایمبیسی وہاں تھی۔ تو یہاں سے تہران جاتا تھا‘ تہران سے روسی سفارت خانے کے ذریعے ماسکو جاتا تھا‘ تو ایک عام خط کتابت میں بھی تین ہفتے لگ جاتے تھے۔ اس وقت اسلام آباد تو نہیں کراچی دارالسلطنت تھا۔ اُس وقت بڑی بے چینی تھی کہ یہ Major Innitiative تھی تو کیوں نہیں رشین Respond کر رہے ہیں۔ کبھی انہوں نے کوئی بہانہ کیا‘ کبھی کوئی بہانہ۔ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دعوت نامے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ہندوستان کی طرف سے جواہر لعل نہرو روس کا دورہ کرنے میں کوئی بہت زیادہ دل چسپی کا اظہار نہیں کر رہے تھے اور جب یہ پیشکش پاکستان کی طرف کی گئی تو فوری اثر اس کا دلی پر پڑا‘ جس کے بعد ہندوستانی قیادت نے فوراً فیصلہ کیا کہ روس کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے کی ضرورت ہے۔ یہاں انتظار کرنے اور مایوسی کے بعد امریکہ کے دورے کی دعوت کو قبول کیا گیا اور یہ دورہ کامیاب رہا۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ پاکستان کا اس خطے میں جو اسٹریٹجک محل وقوع ہے اس کی امریکن منصوبہ سازوں کے یہاں پاکستان بننے سے پہلے آپ کو شہادت ملتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ 1946ء میں یعنی پاکستان بننے سے ایک سال پہلے پینٹا گون میں پاکستان کی لوکیشن پر تبادلہ خیال ہو چکا تھا اور کراچی پورٹ کو کس طرح سے استعمال کیا جاسکتا ہے اس پر بھی گفتگو ہو چکی تھی اور اُس وقت سرد جنگ کی ابتدا تھی‘ سوویت یونین کا عروج شروع ہو چکا تھا‘ سینٹرل یورپ اور مشرقی یورپ خوفزدہ تھے۔ اٹلی اور یونان میں کمیونسٹ حکومتوں کے آنے کا امکان تھا اور امریکہ بڑی بے چینی سے دوست اور حلیفوں کو تلاش کر رہا تھا۔ پاکستان کی لوکیشن جو گلف کی ابتدا میں ہے اور جنوبی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور گلف کے درمیان ہے اس کی اہمیت کا اندازہ واشنگٹن نے پہلے کر لیا تھا۔ اور جب لیاقت علی خان صاحب کا واشنگٹن کا دورہ ہوا تو اس کا امریکہ میں خیر مقدم کیا گیا اور اس دورے کے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

سوال : اور ہم آج تک واشنگٹن کے راستے پر ہی سفر کر رہے ہیں؟

طارق فاطمی: حالات میں مدوجزر آتے رہتے ہیں۔ یہ بڑی لمبی داستان ہے‘ اس پر مہینوں گفتگو جاری رہ سکتی ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی اور بدقسمتی دونوں ہیں کہ اس کی لوکیشن اس کے لیے طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اگر یہاں قیادت سمجھ داری‘ دور اندیشی اور بردباری سے ایشوز کو ہینڈل کرے تو وہ قومی مفاد کے لیے فائدہ مند بنا سکتی ہے اور اگر نہیں کرتی ہے تو پھر یہ کمزور بن جائے گی اور غیر ملکی طاقتیں آپ کا استحصال کریں گی جیسا کہ پچھلے پانچ چھ برس سے کر رہی ہیں۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء کے بعد ہندوستان کے رویے میں کبھی آپ کو دوستی کا اظہار نظر نہیں آیا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ پاکستان کی بیورو کریسی کا مصنوعی تیار کردہ تاثر ہے‘ مگر ہندوستان کے بہت سارے سیاسی تجزیہ نگار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ ہم نے بنیادی غلطیاں کی ہیں۔ ہندوستان کی قیادت نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان یا پاکستان کے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو۔ ملک کی قیادت معاشی ترقی اور سماجی اصلاحات کے بجائے صحت‘ تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کے بجائے قومی سلامتی کی طرف چلی گئی۔ فوج میں توسیع ہونے لگی‘ دفاعی بجٹ بڑھتا گیا‘ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کی مداخلت اندرونی معاملات میں بڑھتی چلی گئی اور ہر وہ قدم اٹھا لیا جس سے ملک کی ترجیحات میں بنیادی انحرافات ہوئے۔ مگر کوئی بھی پاکستانی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ ایشو یہ تھا کہ آپ پاکستان کو بحیثیت آزاد اور مقتدر اعلیٰ مملکت دیکھنا چاہتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ پاکستان پر بھارت کی بالادستی قائم ہو جائے؟ یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی خود مختار قوم یہ قبول نہیں کرسکتی۔

سوال : کیا دفاعی حکمت عملی کے لحاظ سے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال دینا درست حکمت عملی ہے؟

طارق فاطمی: آپ کے پاس متبادل کیا ہے؟ آپ مجھے بتایئے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پاکستان کے پاس کیا آپشن تھا؟ انگلینڈ میں تو انڈے اور دودھ کی راشنگ ہو رہی تھی‘ چین بھی آزاد نہیں ہوا تھا اور 1949ء میں آزاد ہونے کے بعد ایک بہت ہی غریب‘ پسماندہ اور ترقی پذیر ملک تھا۔ روس ایک فاشسٹ ملک تھا‘ ان کے اور ہمارے نظریات کے بارے میں بڑے شکوک تھے‘ تو اگر آپ کو پاکستان کی آزادی برقرار رکھنا تھی تو کسی کے پاس توجانا ہی تھا‘ واشنگٹن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ بھی اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ میری کو Involvement تھی‘ میںتو اُس وقت پیدا ہی ہوا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ اگر آپ اس وقت اقتدار میں ہوتے تو ان میں سے کون سے راستے کا انتخاب کرتے؟ آپ کا پڑوسی آپ سے اتنا بڑا اور طاقتور اور اس کی اتنی کھلم کھلا دشمنی ہو‘ اور ہندوستانی قیادت ہر دوسرے دن عوامی سطح پر یہ اعلان کرتی تھی کہ انکا پانی روک دو‘ کشمیر میں داخل ہو جائو‘ جونا گڑھ پر قبضہ کرلو‘ اتنا دبائو ڈالو کہ یہ ملک بالآخر ٹوٹ جائے اور مسلمان جنہوںنے زبردستی ضد سے اس ملک کو بنایا وہ واپس ہمارے پاس آجائیں۔ تو اس وجہ سے وہ امریکہ کے پاس گئے۔ اور کیوں کہ اس وقت سرد جنگ چل رہی تھی‘ امریکہ سے امداد لینے کے لیے ضروری تھا کہ آپ امریکہ کے ایک اتحادی بنیں‘ کیوں کہ جارج فاسٹر ڈلس جو آئزن ہاور کے سیکرٹری آف اسٹیٹ تھے‘ انہوں نے بہت واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ Non- alignment (غیر جانبداری) ایک غیر اخلاقی پالیسی ہے‘ اور جو بش نے کہا ’’یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف؟‘‘ اس سے بہت ملتا جلتا جملہ جارج فارسٹر ڈلس کا بھی آیا تھاکہ یا تو آپ جمہوریت یا آزادی کے ساتھ ہو جائیں یا پھر آمریت کے ساتھ۔ اور پاکستان کو اس سے فائدہ بھی پہنچا۔ معاشی امداد ملی‘ فوجی ساز و سامان ملا‘ یہاں تک کہ 1964ء میں پاکستان کی قیادت کویہ غلط فہمی ہو گئی کہ شاید پاکستان کی افواج اور اس کا ساز و سامان ہندوستان سے بہتر ہے اور یہ ایک تاریخی موقع ہے جسے استعمال کرکے کشمیر کو بزور قوت لینے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ حکمت عملی بدقسمتی سے ناکام رہی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم فوجی ساز و سامان کے حوالے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے لیکن کمزور قیادت‘ خراب منصوبہ بندی‘ تیاری کا فقدان ایسے عوامل ہیںجو کہ جنگ میں شکست کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیے امریکہ نے ہم پر پابندیاں لگا دیں جس سے بڑی ناراضی ہوئی مگر سیاسی قیادت نے پہلے ہی ہوا کے رخ کو محسوس کر لیا تھا اور بھٹو کے اقدامات کی بدولت چین کی طرف ہم نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ جب 1965ء کی جنگ ہوئی اور امریکہ نے ہندوستان اور پاکستان پر پابندیاں لگائیں تو اس کے زیادہ اثرات پاکستان پر پڑے‘ کیوںکہ ہندوستان صرف امریکہ سے امداد نہیںلیتا تھا۔ اُس وقت چین نے آگے بڑھ کر ہماری مدد کی‘ لیکن اس کی مدد عسکری سے زیادہ سیاسی اور سفارتی تھی تاکہ ہمیں اعتماد کا احساس ہو۔ اس مدد سے ملک کو بڑا حوصلہ ملا۔ پھر آپ دیِکھیں کہ 27 دسمبر 1979ء کو جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا تو پاکستان پھر عالمی سیاست کا مرکز بن گیا اور پاکستان سے کہا گیا کہ آپ افغان مہاجرین کو قبول کریں‘ آپ کوجس قسم کی معاشی امداد چاہیے وہ ہم آپ کو دینے کو تیار ہیں‘ کیوں کہ یہ صرف افغانستان کی جنگ نہیں ہے‘ ماسکو نے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر جو قبضہ کیا ہے وہ دراصل افغانستان کے لیے نہیں ہے بلکہ افغانستان تو دراصل ان کی ایک راہ داری ہے‘ ان کا اصل ہدف اور نطریںبحر ہند کے گرم پانیوں پر ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا راستہ اختیار کریں۔ اسکے بعد قریب قریب دس سال تک یہ معاملہ چلتارہا‘ اس دوران آپ کی فوجی حکومت کو قانونی جواز ملا‘ بین الاقوامی قبولیت حاصل ہوئی‘ کئی سال تک معاشی اور فوجی امداد ملی جس پر ہم بڑے خوش تھے۔ اُس وقت ہم نے اس کے دوررس اثرات کا اندازہ نہیں لگایا کہ یہ پہلا 3.2 بلین کا پانچ سالہ پیکج ہے۔ دوسرا 3.4 بلین کا پیکج تھا اور پاکستان میں جو امریکہ اور مغربی ممالک کی مداخلت ہوئی اور جس پالیسی کے تحت ہم نے 3.5 ملین افغان مہاجرین کو یہاں آنے کی اجازت دی‘ جس کی وجہ سے آپ نے ہزاروں عرب‘ وسط ایشیائی مجاہدین کو اجازت دی کہ وہ پاکستان آئیں‘یہاں رہائش ختیار کریں اور ان کی تربیت ہو۔ اس کے دو رس اثرات پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے کتنے نقصان دہ تھے اس کا اب اندازہ ہو رہا ہے۔ ہمارایہ خیال تھا کہ ہم صرف معاشی اور فوجی امداد رکھ لیں گے باقی سارے مسائل مثلاً مہاجرین‘ دہشت گردی‘ منشیات‘ کلاشنکوف کلچر سے ہم پاک رہیںگے۔ ایسا تو نہیں ہوتا ہے اس کے بعد آپ دیکھیں کہ امریکہ نے اکتوبر 1990ء میں دوبارہ پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جوہری اسلحہ سازی کا منصوبہ بنا رہا ہے اور یہ امریکی قانون کے خلاف ہے۔ یہ حالات 9/11 تک چلتے رہے۔ یعنی پاکستان نے 1998ء میں جب جوہری دھماکے کیے تو پہلے ہی ہم پر پابندیاں عائد تھیں اور اکتوبر 1999ء میں مزید لگ گئیں جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس لیے 2000ء کے شروع میںکہا جاتا تھا کہ پاکستان امریکہ کا وہ اتحادی ہے جس پر سب سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔

سوال : کیا روس کا خطرہ پاکستان اور اس کی سلامتی حقیقی خطرہ نہیں تھا؟

طارق فاطمی: دیکھے آپ تاریخ سے ہٹ کر قیاسات میں چلے جاتے ہیں انگریزی میں بڑی مشہور مچل ہے اس کی اردو آپ بہتر جانتے ہوں گے کہ “You are always smart in the hide side” تیسرا ایک اور ایکسپریشن ہے امریکہ میں اسے کہا جاتا ہے Monday Quarter, Quarted backing-backing کی Origin کیا ہے؟ اس کو اس طرح سمجھیں ’’میں نکلا تو حادثہ ہو گیا۔‘‘ جب آپ بھی کہیں گے کہ بھئی آپ کو اتنا تیز نہیں نکلنا چاہیے‘ آپ کو دائیں بائیں دیکھنا چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے میں کہتاہوںکہ میں بڑی جلدی میں تھا‘ میں نے سمجھا کہ راستہ خالی ہے‘ میں سمجھا پولیس بھی نہیں ہے‘ میں سمجھا وہاں پر ٹریفک لائٹ بھی نہیں ہے تو یہ With the event having been already taken place سوال یہ ہے کہ 1980ء میں یا 1981ء میںکتنے آپ جیسے لوگ تھے یا پاکستانی دانشور تھے۔ یہ انٹرنیشنل پولیٹیکل سائلنسٹ تھے جنہوںنے یہ کہا کہ روس نے غلطی کی ہے اور بہت بڑی سزا اس کو ملے گی اور نہ اس کی خواہش ہے پاکستان جانے کی اور نہ اس میں صلاحیت ہے پاکستان جانے کی۔ دنیا نے تو یہی کہا اور پاکستان کو بہت سراہا اور پہلے سال ہمیں جنرل اسمبلی سے 104 ووٹ اور دوسرے سال 111 ووٹ ملے‘ تیسرے سال 117 ووٹ ملے اور چوتھے سال 128 ووٹ ملے۔ روس مکمل تنہائی کا شکار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ روس کی پالیسی اتنی دیوالیہ ہو چکی ہے کہ وہ افغانستان میں فوجی طور پر پٹ رہا ہے‘ عالمی سیاست میں وہ تنہا ہے اور پوری دنیا اس پر تھوک رہی ہے‘ تو سمجھا یہ جاتا تھا کہ پاکستان کی بڑی کامیاب حکمت عملی ہے‘ اس کے بعد ایسے اور کئی حادثے ہوئے۔ ہمیں اتنی کھلی چھوٹ نہیں دینی چاہیے تھی۔ افغان مہاجرین کو ایرانیوں نے بھی پناہ دی‘ لیکن وہ صرف 2 ملین کے قریب تھے‘ مگر ایران میں اتنی سختی تھی کہ وہ اپنے کیمپ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ ان کے شناختی کارڈ بنتے تھے۔ سب سے پہلے ان کی ملازمت پر پابندی تھی‘ ان کی نقل و حرکت پر پابندی تھی‘ یہاں تو یہ سمجھا گیا کہ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اور ان کا اتنا ہی حق ہے پاکستان پر جتنا پاکستانیوں کا حق ہے۔ انہیں جائیدادیں خریدنے کی اجازت دی گئی‘ ٹرانسپورٹ کمپنی انہوںنے بنائی‘ پھر اسکول اور مدرسے انہوں نے بنائے اور اس طرح ریاست کے اندر ریاست بن گئی۔ آپ بتایئے کہ اس کا خارجہ پالیسی سے کیا تعلق ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے بہت سارے سینئر فوجی جنرلوں کا یہ دعویٰ تھا کہ اسلامی قوتوں کی مدد سے پاکستان کی وسط ایشیا پر بھی حکمرانی قائم ہو جائے گی‘ اسلامی تحریکیں وسط ایشیا میں روس کے خاتمے کے بعد مضبوط ہو جائیں گی اور وسط ایشیا میں بھی ایک اسلامی تبدیلی آئے گی۔ تاریخ بہت بے رحم ہے‘ یہ کسی کو معاف نہیں کتی۔ ان میں ان لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے جو ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ (جاری ہے)

حصہ