پربت کی رانی قسط11

237

بات بے شک نہ تو دھمکی آمیز لہجے میں کہی گئی تھی نہ سخت لہجے میں لیکن تھی تو چیلنج والی۔ جس راستے کو اختیار کرکے وہ یہاں تک آئے تھے وہ کوئی روایتی راستہ تو تھا نہیں بلکہ ایک بہت اعلیٰ پیمانے پر سروے کر کے خفیہ کے ادارے کی جانب سے اسے اختیار کرنے کو کہا گیا تھا اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اس پورے راستے میں ان کے کب اور کہاں کیا رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے۔ انسپکٹر حیدر علی سخت پریشانی کے عالم میں نظر آ رہے تھے اور جمال اور کمال یہ سوچ رہے تھے کہ جس اہل کار کے قریب سے پربت کی رانی بول رہی تھی تو وہ آواز نشر کس میں سے ہو رہی تھی۔ آواز کسی انسٹرومنٹ سے نشر ہوتی ہوئی بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ یہ ویسی ہی حیران کن آواز تھی جو انھوں نے عبادت گاہ پر سنی تھی۔ اس وقت یوں لگتا تھا جیسے پربت کی رانی ٹھیک ان کے کانوں کے قریب بول رہی ہو لیکن اب جو آواز تھی وہ یوں لگتا تھا جیسے ڈرائیور کے منہ سے نکل رہی ہو۔ ایک جانب یہ ایک عجیب و غریب انہونی تھی تو دوسری جانب یہ فیصلہ بہت مشکل تھا کہ خاتون کو کس طرح یہاں چھوڑا جا سکتا ہے۔ عبادت گاہ کے خطاب میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں تھا جس پر کوئی قانونی ایکشن لیا جا سکتا تھا لیکن اپنے ہی فرد کو واپس لے جانے کی راہ میں رکاوٹ کا مطلب تو ریاست کے اندر ریاست والی بات تھی۔ پھر یہی نہیں بلکہ ہر مقام پر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کا مطلب صاف یہ تھا کہ ہم کسی بھی جگہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس ڈرائیور کی جانب سے پربت کی رانی کی آواز آ رہی تھی وہ تو مقرر ہی خاص ادارے کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اگر معتبر ادارہ بھی مشکوک ہو گیا ہے تو پھر کہیں کی بھی کوئی ضمانت دی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ ان تمام جیپوں میں کمیونی کیشن کا بہت اعلیٰ سٹلائٹ سسٹم تھا لیکن کیا اس صورت حال میں یہ سسٹم کام بھی کر سکے گا یا نہیں۔
انسپکٹر حیدر علی نے انسپکٹر سبطین کی جانب دیکھا جو اس وقت بھی مکمل میک اپ میں تھے۔ وہ ان سے رائے لینا چاہتے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ جمال اور کمال قریب ہی کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انکل ہمارے خیال میں ہمارا کمیونی کیشن سسٹم شاید ہی کام کرے۔ جن کی ترقی ہماری سمجھ سے باہر ہے ان سے یہ توقع رکھنا کہ انھوں نے سسٹم کو جام نہیں کیا ہوگا، بچپنے کی سی بات لگتی ہے۔ جیسا کہ آپ فرمارہے ہیں آپ کو یہاں بھیجنے کے احکامات ہمارے اعلیٰ ادارے کی جانب سے ہی ملے تھے تو ہم دونوں کو یقین ہے کہ ادارہ ہم سے بالکل بھی غافل نہیں ہوگا۔ اگر آپ ہماری سوچ اور صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں تو ایک کام یہ کریں جس اہل کار کے لب ہلے بغیر ہمیں پربت کی رانی کی آواز سنائی دیتی رہی اس کی جیپ میں کسی کو سوار نہ ہونے دیں اور اس سے کہیں کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے آئے۔ خاتون کے غل غپاڑے کی پرواہ نہ کریں اور اسے ساتھ رکھیں۔ جب کچھ فاصلہ طے ہو جائے تو جیپ کے چاروں ٹائر فائر کرکے ناکارہ بنادیں۔ پھر دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اتنی امید ہے کہ اگر آگے کوئی کارروائی ہوئی بھی تو وہ کسی قسم کی متشددانہ کارروائی نہیں ہوگی کیونکہ پربت کی رانی کبھی یہ نہ چاہے گی کہ وہ اپنے خلاف کوئی قانونی کارروائی کا جواز پیدا کرے البتہ راستے میں کسی اور قسم کی رکاوٹ پیدا کی جائے، اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انسپکٹر سبطین، جن کو ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ جمال اور کمال ان کو پہچان چکے ہیں، وہ ان دونوں کو بہت حیرانی اور تعریفی انداز میں دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ جمال اور کمال کے متعلق شروع سے ہی کنفیوز تھے اور اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے ان دو عمر بچوں کو ساتھ لیجانے کا مشورہ کیوں دیا تھا لیکن اس وقت کا فیصلہ آمیز مشورہ ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا تھا کہ اوپر جانے والے تمام افراد کو با رضا و رغبت واپس نکال لانے میں ان ہی کا ہاتھ لگتا ہے۔ وہ اور ان کی وائف بظاہر پولیس کی ڈیوٹیاں کیا کرتے تھے لیکن ان کا تعلق ملک کے سب سے اعلیٰ ادارے سے تھا۔ وہ جب تحقیق کے لیے پربت کی رانی کے ڈیرے پر گئے تھے تو انھوں نے وہاں پہنچتے ہی جب عجیب سی مہک محسوس کی تھی تو انھیں فوراً ہی کچھ شبہ سا ہوا تھا کہ اس مہک میں کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے۔ ان کی وائف کو ایک خاص عطر لگانے کا بہت شوق تھا اور وہ ہر وقت اسے اپنے ہمراہ رکھتی تھیں۔ نہ جانے کیوں اس نامعلوم مہک سے نجات کے لیے اس عطر کا سہارا لیا تو ان کا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ پھر ان دونوں نے مسلسل اسی کا سہارا لیا جس کی وجہ سے وہ پربت کی رانی کی باتوں کا اتنا اثر نہ لے سکے کہ وہیں کے ہی ہو رہتے۔ انسپکٹر حیدر علی اور اوپر جانے والوں نے اگر اس مہک کے توڑ میں کچھ کیا ہوگا تو معلوم نہیں کیوں انھیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ جمال اور کمال ہی کا کوئی مشورہ رہا ہوگا۔
انسپکٹر حیدر علی اور سبطین کو جمال اور کمال کا مشورہ مناسب لگا۔ سب لوگ اپنی اپنی جیپوں میں سوار ہوئے۔ جس ڈرائیور کے قریب سے پربت کی رانی کی آواز آئی تھی، اسے حکم دیا گیا کہ وہ اپنی جیپ اکیلے ڈرائیو کرے جس پر اس کی آنکھوں میں فکر مندی کے آثار دیکھے گئے لیکن آرڈر تو آرڈر ہی ہوتا ہے۔ دوچار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد انسپکٹر حیدر علی، جو کہ بہت ماہر نشانہ باز سمجھے جاتے تھے، انھوں نے کمالِ ہوشیاری سے اپنی چلتی گاڑی سے اپنے پیچھے چلتی ہوئی گاڑی کے چاروں ٹائر پھاڑ کر اپنی نشانہ بازی کا شاندار مظاہر پیش کرکے سب کو حیران کر دیا۔ (جاری ہے)

حصہ