ناخدائو کہو

182

ناخدائو کہو/ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبرؔ

اتنی سفاکیت، اس قدر بے حسی اور کتنا لہو؟ ناخدائو کہو
زخم لگتے رہے، زخم بڑھتے رہے، کر سکے نہ رفو، ناخداؤ کہو
لوگ کٹتے رہے، لوگ مرتے رہے، پھول بچے بلکتے سسکتے رہے
روحِ انسانیت بلبلاتی رہی، محوِ جام و سبو ناخدائو کہو!
کیسی جمہوریت؟ کیسی انسانیت؟ ہے کہاں عدل و انصاف کا پیرہن؟
تم نے کی خودکشی، عرصۂ دہر میں کیا رہی آبرو، ناخدائو کہو!
ایسی قربانیاں جاں فروشوں کی ہیں، دل پریشان ہے، لوگ حیران ہیں!
ظالموں کے لیے ہے خدا کا غضب، اہلِ حق سرخرو! ناخدائو کہو
دوست دشمن کی پہچان بھی ہو گئی، دعویِٰ حق کی تصدیق بھی ہو گئی!
اب نکل آئے ہیں اہلِ دل ہر طرف، دیکھ لو چار سو، ناخدائو کہو!
ٹینک توپوں سے کب ڈرنے والے رہے، دیپ اپنے لہو سے جلا کے چلے
میرے ہتھیار کو، میری تاریخ کو جانتا ہے عدو، ناخدائو کہو!
دل تمہارے لیے، جاں تمہارے لیے، میری ساری دعائیں تمہارے لیے
اے غزہ کے شہیدانِ راہِ وفا، کفر کے روبرو، ناخدائو کہو!
…٭…
میں فلسطین ہوں/نعیم الدین نعیم

خوں میں رنگین ہوں شامِ غمگین ہوں
مسکنِ انبیاء… مرکزِ دین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
یہ زمیں بھی سنے آسماں بھی سنے
خوابِ خرگوش میں گم جہاں بھی سنے
عیش و عشرت میں گم حکمراں بھی سنے
خوں میں لتھڑی میری داستاں بھی سنے
خونِ انسانیت سے میں رنگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
میرے بچوںسے مقتل سجایا گیا
مائوں، بہنوں کو مری ستایا گیا
جشن بربادیوں پر منایا گیا
یو این او کے تلے زیرِ سنگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
جان جائے یا ہوں سر ہمارے قلم
اقصیٰ صہیونیوں سے چھڑائیں گئے ہم
عہد پورا کریں گے خدا کی قسم
دشمنوں تم کو کرتا میں تلقین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
سرزمیں پہ میری انبیاء آئے تھے
شب کو معراج کی مصطفیٰ آئے تھے
بن کے نبیوں کے وہ پیشوا آئے تھے
قابلِ فخر باعثِ تحسین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
مائوں، بہنوں کی لوٹی گئیں عصمتیں
دینِ حق کی ملیں خاک میں عظمتیں
بن کے ٹوٹی قہر کفر کی قوتیں
ہو رہی ہر قدم جس کی توہین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
تم ہو حماس کے شیر دل نوجواں
ہے شہادت تمہارے لہو میں رواں
تم اڑاتے چلو کفر کی دھجیاں
نہ میں مایوس ہوں نہ میں غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

حصہ