سوشل میڈیا پر اسرائیلی جعل سازی

317

اسرائیلی جعل سازی:
Hamas HQ کے نام سے ٹاپ ٹرینڈ دیکھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی۔ میں سمجھا کہ شاید کوئی ہیڈ کوارٹر پکڑا گیا، مگر جب اندر جاکر تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوا کہ عوام، وہ بھی امریکی عوام اسرائیلی دعووں کا بھد اڑا رہے تھے۔ غزہ میں اسرائیل نے اسپتالوں کو جیسے ہی نشانہ بنانا شروع کیا، اُس پر شدید تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہاں تک کہ اس کے ساتھی فرانس نے بھی سخت الفاظ بول دیے (ایک فنڈ جمع کرنے کی کانفرنس بھی کرلی، بے شک 2دن بعد اپنے اسرائیل مخالف بیان سے یوٹرن لے کر الگ ہوگیا)۔ امریکی صدر نے بھی پریس کانفرنس میں اسرائیل کے عمل کی حمایت یہ کہہ کر، کرڈالی کہ ’’اُس کو معلوم ہے کہ حماس نے اسپتال کے نیچے سرنگ بنائی ہوئی ہے جہاں سے وہ یہ آپریشن کرتی ہے‘‘۔ یوں اسرائیل کو ’اسپتال کے مریضوں کو مارنے کا لائسنس مل گیا‘۔ اسپتالوں میں کئی بار حملے و چھاپے مارنے کے بعد اسرائیل نے اپنے دعوے میں جو بھی وڈیوز اور تصاویر پیش کیں، جو اُس کے میڈیا نے نشر کیں، عوام نے اُن سب کوآڑے ہاتھوں لیا۔ بھارت سے محمد زبیر جو فیکلٹ چیک (خبروں کی تصدیق) کا زبردست کام کرتے ہیں انہوں نے اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ خبر کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے بتایا کہ 2014ء کی ایک تصویر کو 2023ء میں استعمال کرکے حماس کی زیر زمین سرنگ کہہ کر پیش کیا ہے، تاکہ اسپتال پر حملے کا جواز مل سکے۔ یہی نہیں، اس کے بعد ایک وڈیو میں جو تھوڑا سا اسلحہ، ایک لیپ ٹاپ، دو تین جیکٹس دکھائی گئیں، یہ سامان یہ کہہ کر پیش کیا گیا کہ یہ حماس کے کمانڈ سینٹر سے ملا ہے۔ اس بیانیے پر امریکی عوام نے اپنے گھروں کے ذاتی اسلحے کی تصاویر ڈالیں کہ اس کمانڈ سینٹر سے کہیں زیادہ تو ہمارے پاس ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک اور وڈیو میں ایک دیوار پر لگے کاغذ کو اسرائیلی فوجی نے یرغمالیوں کی نگرانی کا ڈیوٹی چارٹ کہہ کر پیش کیا وہ سادہ سا ایک ہاتھ کا کیلنڈر نکلا۔ اب اسرائیل نے یہ ساری وڈیوز اُن اداروں کے نمائندوں کے ساتھ جاکر بنوائیں جہاں سے وہ اپنے مطلب کے نتائج و تجزیے چاہتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے وقت شاید یہ بھول گئے کہ سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے ایسا اب آسان نہیں۔ جعلی وڈیوز تو میڈیا کے محاذ پر تھیں جبکہ الشفا اسپتال سے زبردستی30 افراد بھی گرفتار کرلیے گئے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج الشفا اسپتال کی سرجری بلڈنگز میں داخل ہوئی اور خفیہ راستوں اور یرغمالیوں کی تلاش میںسب کچھ اکھاڑ دیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی ریڈیو کہہ چکا ہے کہ اسرائیل کو الشفا میں اپنے یرغمالیوں کا کوئی نشان نہیں ملا۔ دوسری جانب فلسطینیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اسپتال پر قبضہ کرکے اسے حماس سے منسوب کرکے کوئی غلط کام ہی کرے گی۔

اسرائیل پر اندرونی دبائو:
اسرائیل پر اندرونی دبائو بھی کم نہیں ہے۔40 دن میں ایک ہدف بھی حاصل نہ کرنا، نیتن یاہو کو بدمست ہاتھی کی مانند کرچکا ہے۔ سیاسی محاذ پر حزب اختلاف نیتن یاہو کوہٹانا چاہ رہی ہے اور کرسی پانے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہے۔ عالمی میڈیا پر کئی ممالک کی جانب سے تعلقات کا منقطع ہونا، تجارتی مسائل، معاشی مسائل اور جنگی مسائل کے بعد اغوا شدہ 240 گھرانوں کا دبائو… یہ ایسا دبائو ہے جو سب سے سخت ہے، کیونکہ اس میں حزب اختلاف بھی نمبر بڑھانے کے لیے شامل ہے۔ اس صورتِ حال میں سوشل میڈیا پر (ناجائز) اسرائیلی وزیراعظم کے گھر تک 5 روزہ احتجاجی مارچ کا آغاز اس ہفتے ہوگیا ہے جو اتوار کو یعنی آج ختم ہوگا۔ اغوا شدہ افراد کے اہل خانہ و دیگر یہودیوں نے تل ابیب سے یروشلم تک وزیراعظم کے خلاف احتجاجی مارچ شروع کردیا، ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پوسٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ یہ سوال بہت بھاری وزن کی مانند ہے کہ 240 یہودیوں کو اسرائیلی فوج امریکی، فرانسیسی، برطانوی مدد کے باوجود 44 دن بعد بھی واپس نہیں لا سکی۔ حماس تو اب تک 4 یہودی چھوڑ چکی ہے، مگر اسرائیل نے بمباری میں کوئی رعایت نہیں کی۔ نیتن یاہو اسرائیل کا طویل المدت، بدنام زمانہ وزیراعظم ہے، اس لیے یہ سارے دبائو جھیل رہا ہے۔ وہ اس سے پہلے2008ء، 2011ء، 2012ء پھر 2014ء میں 45 دن کی جنگ (بمباری)، پھر 2021ء میں 7 دن کی جنگیں جھیل چکا ہے۔ چھوٹی جھڑپیں اس کے علاوہ ہیں، اس لیے ابھی تک مضبوط اعصاب کے ساتھ سب کچھ جھیل رہا ہے۔

حماس کے ساتھ مہنگی جنگ:
’فنانشل ٹائمز‘ مغرب کے سرمایہ دارانہ ابلاغی نظام میں ایک کلیدی مقام رکھتا ہے۔ یہ صرف برطانوی کاروباری اخبار نہیں بلکہ یہ مالیاتی منڈیوں، کمپنیوں، معاشیات اور بین الاقوامی امور پر گہرے تجزیے کی ایسی شہرت رکھتا ہے کہ رائے بناتا نہیں، بتادیتا ہے۔ پھر مفت میں نہیں 70ڈالر ماہانہ لیتا ہے اپنے ہر قاری سے۔ اگر وہ اپنے روایتی حلیف کے لیے لکھ رہا ہے کہ ’’اسرائیل شاید 7 اکتوبر کے بعد کی معاشی تباہی کے اثرات سے باہر نہ نکل سکے گا۔ فلسطینی مزاحمت نہ صرف اسرائیل کے داخلی سلامتی کے تصور کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اہم خطرے کی رکاوٹیں کھڑی کرنے میں بھی کامیاب رہی‘‘ تو یہ تجزیہ کسی طور رد نہیں کیا جا سکتا۔6 نومبر کو فنانشل ٹائمز نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے ایک ماہ کے تباہ کن معاشی نقصانات پر اپنی تحقیقات شائع کیں۔ اس کے اثرات نجی سیکٹر سے لے کر ملازمتوں، کاروبار، صنعتوں اور خود اسرائیلی حکومت پر پڑ رہے ہیں۔جنگ کا دورانیہ غیر معمولی طور پر بڑھتا جا رہا ہے، FT نے رپورٹ کیا ہے’’اس کے اثرات نے ’’ہزاروں‘‘ کمپنیوں کو تباہ کردیا ہے، بہت سی تباہی کے دہانے پر جا رہی ہیں، اور کئی شعبے بحران کا شکار ہورہے ہیں۔ 7 اکتوبر کو آپریشن ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل میں ہر چار میں سے ایک کاروبار یا تو بند ہوچکا ہے یا 20 فیصد کی صلاحیت پر کام کررہا ہے۔ نصف سے زیادہ کاروباروں کو 50 فیصد نقصانات کا سامنا ہے۔ غزہ کے قریب ترین جنوبی علاقوں میں دو تہائی کاروبار یا تو بند ہیں یا ’’کم سے کم‘‘ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ بحران میں اضافہ کرتے ہوئے اسرائیل کی وزارتِ محنت نے رپورٹ کیا ہے کہ تقریباً 5 لاکھ شہری گھروں سے انخلاء اور اسکولوں کی بندش کے باعث بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں یا ریزرو ڈیوٹی کال اپس کی وجہ سے بے روزگار ہوچکے ہیں‘‘۔ ’بلومبرگ‘کی گزشتہ پیر کی اشاعت کے مطابق غزہ جنگ سے اسرائیلی معیشت کو ایک ماہ میں تقریباً 8 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید 260 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ ٹیک کمپنیوں کے سرمایہ کاری کے معاہدوں میں تاخیر یا منسوخی ہوئی، اور صرف 10 فیصد کمپنیاں ’’سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کرنے کا انتظام‘‘ کررہی تھیں۔ اسرائیلی ٹیک سیکٹر کی ناکامی کی ایک اور وجہ تل ابیب کی الیکٹرانک نگرانی اور جنگی نظام کی کمزوریوں کا انکشاف ہے، سب یہ سوال کررہے ہیں کہ اتنی جدید ٹیکنالوجی کے بعد اتنا بڑا آپریشن کیسے ہوگیا؟ طوفان الاقصیٰ نے ساڑھے تین لاکھ اسرائیلی فوجیوں کو کئی سرحدوں پر متحرک ہونے پر مجبور کردیا ہے، جس میں لبنان، شام ویمن سے حملے سرفہرست ہیں، ظاہر ہے یہ سب جنگی اخراجات میں اضافہ کررہے ہیں۔ نیتن یاہو اب تک صرف بیان بازی سے حماس اور غزہ میں اُس کی حکمرانی کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ تل ابیب کی معیشت بھی ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کررہی ہے۔ لوگوں نے خریداری اور باہر نکلنا بھی محدود کردیا ہے، سیاحوں کی آمد پہلے ہی ختم ہوچکی ہے جس سے ہوٹل انڈسٹری بیٹھ گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، وہ اس وقت صرف جنگ میں کامیابی یعنی حماس کے خاتمے کی خبر کے انتظار میں 39 دن سے اپنے ہی بال نوچ رہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام چلتا ہی صارفیت کی بنیادپر ہے۔ اگر مستقل خریدنے بیچنے کا عمل رک جائے تو یہ پورے نظام پر ضرب مارتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس موقع پر اپنی آکسیجن جنگوں میں سب سے زیادہ خریدی جانے والی شے یعنی اسلحہ سے گزارا کرتا ہے۔

کیا غزہ کی معیشت ٹھیک ہے؟
اوپر والا تجزیہ پڑھ کر یہ سوال فوراً ذہن میں آئے گا۔ بے شک ایسا نہیں کہ غزہ میں سب سکون سے ہے ،وہاں کی معیشت بہت اچھی چل رہی ہے۔ مگر غزہ تو مختلف انداز سے 76 سال سے ایسے ہی حالات جھیل رہا ہے۔ معیشت تو اصل میں ہے ہی اسرائیل کی۔غزہ کا تو کچھ اسٹیک پرہے ہی نہیں۔ وہ تو ہر دوسرے تیسرے سال ایسی بمباری کا سامنا کرتا ہے۔ یاد رہے کہ 2014ء میں اسرائیل نے اپنے 3 شہریوں کے اغوا کے بدلے بھی حماس کے خلاف ایسی ایک بڑی جنگ چھیڑ دی تھی جو 49 دن جاری رہی۔ 2021ء میں بھی 7 دن تک وحشیانہ بمباری ہوئی۔ 2014ء میں بھی اسرائیل نے 2 ہزار معصوم فلسطینیوں کو شہید کیا، مگر اسرائیل کے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق اُس کے بھی 2 ہزار لوگ مارے گئے۔ اسرائیل نے اُس وقت بھی خوب دعوے کیے کہ اُس نے حماس کی 34 سرنگیں تباہ کیں، بڑے کمانڈر شہید کیے۔ اسرائیل نے 2014ء کی جنگ میں اپنا 2.5 ارب ڈالر کا خرچ ظاہرکیا۔ مگر 2023ء میں اعداد و شمار کا معاملہ کہیں آگے جا چکا ہے۔ اِس بار کی جنگ اسرائیل کو کہیں زیادہ مہنگی پڑ رہی ہے۔ غزہ کا خطہ بلاشبہ ایسا ہے کہ وہاں سمندری، زرعی مواقع بھی ہیں۔ 2005ء تک غزہ اسرائیل کے کنٹرول میں تھا، اس کے بعد حماس نے الیکشن میں کامیابی کے بعد غزہ کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ اس کے بعد سے حماس نے کسی قسم کی پروا کیے بغیر کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزارا کہ اسرائیل کو سکون دیا ہو۔

ایرانی رجسٹریشن:
غزہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ایران ڈسکس ہوتا رہا۔ ایرانی حکومت نے آگے بڑھ کر ’’الاقصیٰ اسٹارم‘‘ www.alaqsastorm.comکے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جس میں فلسطین کے لیے جہاد پر جانے کے خواہش مند افراد کو رجسٹر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر ایرانی شہری اپنے کوائف ڈال کر رجسٹریشن کروا رہے ہیں۔ ایران کا کردار اگرچہ اس جنگ میں ابھی تک شکوک کے دائرے میں ہے، تاہم عوام کو ترغیب دینے کے لیے یہ عمل خاصا مقبول ہوا۔ سائٹ پر لکھا ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم کی عزت، وقار اور شان کو بحال کرنے میں ان کی شاندار حمایت کے لیے دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔ ویب سائٹ پر لائیو سیریل نمبر بھی ڈالا گیا ہے جس کے مطابق ایران بھر سے اب تک 92 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔ رجسٹریشن کرانے والوں کو بعد میں میسیج بھی موصول ہوتا ہے۔ اس میں مرد، خواتین سب کی شمولیت کی گنجائش ہے۔ دوسری جانب اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی توجہ آج بھی فیسٹیولز منانے اور مہنگے اجلاس کرنے سے ہٹ کر کسی عملی کام کی جانب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی بے بس سلامتی کونسل:
اب ذرا غور سے دیکھ لیں یہ ہیومن رائٹس… ہیومن رائٹس کے جعلی نعروں کی حقیقت کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں یہ شرمناک قرارداد پانچویں باری میں منظور ہوئی جب 12 ہزار معصوم جاں بحق ہوچکے،17 ہزار گھر تباہ ہوچکے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے،5 ہزار سے زائد بچے مارے جا چکے۔ اسپتال بھی تباہ کردیے گئے۔ 42 صحافی، 200 طبی عملہ، خود 110 کے قریب اقوام متحدہ کے ورکر مرنے والوں میں شامل ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی یہ جان کر کہ اقوام متحدہ نے اپنے ملازمین کی موت پر بھی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک منٹ کی ’’خاموشی‘‘ اختیار کی، جو حالتِ جنگ میں بھی اُس کے لیے کام کررہے تھے۔ بہرحال سیکورٹی کونسل نے اپنی شرمناک قرارداد میں یہ منظور کیا ہے کہ ’’جناب اسرائیل! آپ کرو جو کرنا ہے، مگر اس دوران کچھ ایسا وقفہ بھی کردو کہ کسی طرح غزہ میں امداد ی سامان کو رستہ دیا جاسکے‘‘۔ ساتھ ہی حماس سے بھی کہا ہے کہ ’’وہ قیدیوں کو چھوڑے‘‘۔ یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 15 میں سے 12 رکن ممالک نے منظور کرلی۔ امریکہ، روس، برطانیہ خاموش رہے اور ویٹو نہیں کیا۔ غزہ کے مسلمانوں کے لیے اتنی ’’زبردست‘‘ قرارداد منظور کرنے کے بعد اسرائیل نے صاف منع کردیا کہ وہ ایسی کسی بات پر عمل نہیں کرے گا جس سے اس کا ہدف متاثر ہو۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سارے طاقتور ممالک، طاقتور ادارے جو مشرقی تیمور، سوڈان، روانڈا، تاجکستان میں ایک ہفتے میں پہنچ جاتے ہیں، یہاں ان کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی! اسرائیل کے خلاف اب تک جنگی جرائم کے تین مقدمات درج ہوچکے ہیں، ایک مقدمہ امریکی صدرا ور دوسینیٹر ز کے خلاف نسل کشی نہ روکنے کا بھی درج ہوا ہے۔ اس مقدمے کی دستاویزات مجھے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملیں۔ اس میں سے چند اہم سطریں پیش ہیں۔صفحہ 24 میں ثبوت دیے گئے ہیں:

EVIDENCE OF ISRAEL’S EMERGING GENOCIDE AGAINST PALESTINIANS IN GAZA

ان ثبوتوں میں یہ بات دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں رہنے والوں کو’ہیومن‘ ہی نہیں مانتے، تو ا ب نہ ان کے کوئی ’حقوق‘ ہیں اور نہ ان کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت۔یہ بات ہم بار بار سمجھاتے رہے ہیں کہ ہیومن کا ترجمہ ’انسان‘ نہیں ہے، انسان کی انگریزی mankindہے۔ ہیومن نہ ہمارا لفظ ہے نہ اس کا کوئی ترجمہ ’انسان‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ نوٹ کریں کہ اس پوری جنگ یا اس کے علاوہ کسی جنگ میں کبھی آپ کو ’ہیومن‘ سمجھا گیا ہے؟ جنگ تو سوا سال سے یوکرین و روس میں بھی ہو رہی ہے، ذرا وہاں کی صورت حال دیکھ لیں، فرق سمجھ میں آجائے گا۔

حصہ