قیصروکسریٰ قسط(128)

252

تاجر نے کہا۔ ’’میرے لیے سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہی تھی کہ مسلمان ہجرت کے وقت جس قدر مظلوم تھے اس قدر اپنی فتح کے دن رحم دل تھے۔ قریش کے پرچم ٹوٹ چکے تھے۔ ان کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ کعبہ کے تین سو ساٹھ بت پائوں تلے روندے جاچکے ہیں لیکن اس عظیم فتح کے باوجود میں نے کسی مسلمان کے چہرے پر غرور کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ میں مختلف قبیلوں اور خاندانوں کے مسلمانوں سے مل چکا ہوں اور مجھے اس بات پر تعجب محسوس ہوتا تھا کہ و اپنے دین کے رشتے کو خون کے رشتوں پر مقدم سمجھتے ہیں۔ میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ ایک انسان اسلام قبول کرنے کے بعد ان تمام عادات اور خصائل سے محروم ہوجاتا ہے جن پر اہل عرب فخر کیا کرتے تھے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’اور تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود مسلمان نہیں ہوئے‘‘۔

تاجر نے جواب دیا۔ ’’ابھی میں نے ایک عرب کی زندگی کی راحتوں سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ابھی دو بھائیوں کا قصاص میرے ذمے ہے اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میرے سینے سے انتقام کی آگ بجھے جائے گی۔ اور اس کے بعد مجھے اپنی زندگی بے معنی محسوس ہوگی‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میرے دوست! تم مجھ سے زیادہ بدنصیب ہو۔ میں نے جوانی کے ایام میں اس احساس کے ساتھ اپنا وطن چھوڑا تھا کہ عرب کی پیاسی ریت کسی نیکی کو جنم نہیں دے سکتی۔ لیکن تم رحمت کے دریا کی طغیانیاں دیکھنے کے بعد بھی پیاسے ہو‘‘۔

تاجر نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔ ’’مکہ میں چند دن قیام کے دوران میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔ لیکن اب میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ میں نے وہاں جو نئی روشنی دیکھی تھی وہ مرتے دم تک میرا تعاقب کرتی رہے گی۔ اور شاید ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب میں اپنے سارے تعصبات کے باوجود اس دین کی صداقت پر ایمان لانے پر مجبور ہوجائوں گا جس نے مجھ سے کہیں زیادہ ضدی انسانوں کی کایا پلٹ دی ہے۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ اپنی ضد اور غرور کے معاملہ میں یمن کا کوئی قبیلہ قریش کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتا… میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ اہل عرب نے کئی برس جس دین کے راستے میں مزاحمت کی ہے وہ بڑی تیزی کے ساتھ عجم کی وسعتوں پر چھا جائے گا‘‘۔

تاجر نے جواب دیا۔ ’’میں صرف اپنے احساسِ مرعوبیت کی ترجمانی کررہا ہوں۔ اور آج اگر تم عرب کے کسی یہودی سے بات کرو تو وہ تمہیں مجھ سے کہیں زیادہ مرعوب نظر آئے گا‘‘۔

عاصم کچھ دیر بے خیالی کے عالم میں چھت کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’کاش میں وہاں جا سکتا۔ کاش میں اُسے دیکھ سکتا‘‘… پھر وہ تاجر کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’آپ میرے مہمان ہیں اور جب تک آپ دمشق میں ہیں اس گھر کو اپنا گھر سمجھیے‘‘۔

تاجر نے جواب دیا۔ ’’نہیں‘‘ میں کل یروشلم کے راستے سے واپس جارہا ہوں۔ اور اس وقت میرے ساتھی سرائے میں میرا انتظار کررہے ہوں گے‘‘۔

تھوڑی دیر بعد عاصم اُسے اپنے دروازے سے باہر رخصت کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ میرے پاس نہیں ٹھہر سکے۔ اب میں آپ کو ایک بار پھر یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کا ذکر کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ ایران کو شکست دینے کے بعد کوئی شامی یا رومی یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ اہل عرب ان کے لیے کسی خطرہ کا باعث ہوسکتے ہیں‘‘۔

تاجر نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔ آج مجھ سے جو حماقت ہوئی ہے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ بازار میں ایک غسانی مسلمانوں کے متعلق اپنی ذاتی معلومات بیان کررہا تھا۔ اور دو یہودی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ چونکہ میری معلومات ان سب سے زیادہ تھیں اس لیے میں خاموش نہ رہ سکا‘‘۔

اس واقعہ سے چند دن بعد دمشق میں یہ خبر گرم تھی کہ مسلمانوں کے خلاف غسانیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے شام کی سرحدی چوکیوں پر رومی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے اور قسطنطنیہ سے ہرقل کی تازہ افواج شام کے ساحل پر اُتر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات مشہور ہونے لگی کہ عنقریب غسانی اور رومی افواج عرب پر حملہ کرکے مسلمانوں کو کچل ڈالیں گی۔

عاصم کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اگر اہل شام نے عرب پر یلغار کردی تو اس کا طرزِ عمل کیا ہوگا۔ جب وہ اپنے مستقبل کے متعلق ’’سوچتا تو اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اب شام کے سوا میرا اور کوئی وطن نہیں۔ اس لیے اسے ہر اندرونی اور بیرونی خطرے سے محفوظ رہنا چاہیے۔ لیکن جب وہ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اس مسئلے پر غور کرتا تو وہ یہ محسوس کرتا کہ اسلام کے علمبرداروں کی شکست کے ساتھ عرب پھر ایک بار اپنے ماضی کی ظلمتوں کے آغوش میں چھپ جائے گا۔ وہ یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ جس دین کی قوت نے عربوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کردیا ہے اس کے کمزور ہوتے ہی عرب کے قبائل پھر ایک بار اندرونی خلفشار کا شکار ہوجائیں گے۔ چناں چہ کبھی کبھی اس کے دل سے غیر شعوری طور پر یہ دعا نکل جاتی تھی کہ کاش شام اور روم کی افواج عربوں کے خلاف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیں۔

ایک شام عاصم اور فسطینہ پائیں باغ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ننھا یونس پاس ہی ایک چھوٹی سی کمان کے ساتھ تیر اندری کی مشق کررہا تھا۔ ایک نوکر بھاگتا ہوا عاصم کے قریب پہنچا اور اس نے ایک خط پیش کرتے ہوئے کہا۔ جناب یروشلم سے کلاڈیوس کا ایلچی یہ خط لایا ہے‘‘۔

عاصم نے خط کھول کر فسطینہ کو پیش کردیا۔ اور اس نے کچھ کہے بغیر پڑھنا شروع کردیا۔

کلاڈیوس نے لکھا تھا:۔

میرے دوست! مسلمانوں کے عزائم کے متعلق ہمیں جو تازہ اطلاع ملی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نبیؐ تیس ہزار لشکر کے ساتھ تبوک پہنچ چکا ہے۔ یہ پیش قدمی اس قدر غیر متوقع تھی کہ ہم غسانیوں کی مدد کے لیے کوئی لشکر نہیں بھیج سکے۔ اس لشکر میں دس ہزار سوار ہیں اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایلۂ کے سردار نے مسلمانوں کی قوت سے مرعوب ہو کر جزیہ دینا منظور کرلیا ہے۔ مسلمانوں نے تبوک میں پڑائو ڈال دیا ہے۔ اور قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ تبوک سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن ہمارے جاسوسوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ مسلمانوں کی فوج کا ایک جری سالار چند دستوں کے ساتھ تبوک سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کی منزل مقصود کیا ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ جو فوج تبوک سے آگے بڑھے گی اس کا ہر قدم تباہی کی طرف ہوگا۔ بہرحال ان کی جسارت قابل داد ہے۔ اور اگر میں تمہاری طرح عرب کا باشندہ ہوتا تو میرے دل میں یقیناً یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوتی کہ مسلمانوں کے لشکر نے کس امید پر شام کا رخ کیا ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں؟: اگر عرب سے تمہاری دلچسپی یکسر ختم نہیں ہوگئی تو میری یہ خواہش ہے کہ تم تبوک سے ہو آئو۔ ہمارے پاس جاسوسوں کی کمی نہیں۔ وہ ہمیں ہر آن خبردار رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ عربوں کی اس جرأت کی وجہ کیا ہے؟ اگر مسلمانوں کا لشکر تبوک سے واپس چلا گیا تو میری یہ خواہش ہوگی کہ تم یثرب سے ہو آئو۔ اور ہمیں وہاں کے پارے حالات کی اطلاع دو۔ ممکن ہے کہ شام میں ہماری طاقت کے متعلق مسلمانوں کو تمہاری شہادت پر یقین آجائے اور وہ ایک ایسی جنگ کی ابتدا نہ کریں جس کا نتیجہ ان کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا… قیصر اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قوت میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ ہماری فوجی نقل و حرکت کا مقصد صرف ان لوگوں کو مرعوب کرنا ہے۔ رومی لشکر میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جو کسی نئی جنگ کو پسند نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی پوری تیاریوں کے باوجود تبوک کے محاذ کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم عرب کے حالات سے غافل رہ سکتے ہیں۔ اگر تبوک میں جنگ چھڑ گئی تو مجھے جس قدر اپنی فتح کا یقین ہے اسی قدر اس بات کا یقین ہے کہ عربوں کو پسپا کرنے کے بعد ہم صحرا کے آخری کونے تک ان کا پیچھا کریں گے۔ قیصر صرف اپنے ان مشیروں کی بات سنے گا جو لڑائی کو ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اب بھی میرا خط پہنچنے سے دوچار دن بعد تمہیں یہ اطلاع مل جائے کہ جنگ شروع ہوچکی ہے اور ہم نے پہلے معرکے میں ہی مسلمانوں کو میلوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس صورت میں بھی مسلمانوں کے لیے ایک ایسے حقیقت پسند آدمی کے مشورے سود مند ہوں گے جو انہیں یہ سمجھا سکے کہ روم اور عرب کے جنگی وسائل کے درمیان کتنا فرق ہے اور میرے خیال میں اس خدمت کے لیے کوئی اور تم سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ یہ باتیں میں نے رومی لشکر کے ایک افسر کی حیثیت سے لکھی ہیں لیکن ایک انسان کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ شاید وہ روشنی جس کی تلاش میں تم اپنے گھر سے نکلے تھے تمہارے اپنے وطن سے نمودار ہوچکی ہے اور انسانی تاریخ کا وہ دور شروع ہوچکا ہے جس کے لیے فرمس جیسے لوگ چشم براہ تھے۔ میرے نزدیک اس صورت میں بھی تمہارا وہاں جانا ضروری ہے اور یہ اس لیےضروری ہے کہ میں عرب کے انقلاب کے متعلق تم سے زیادہ کسی اور کی گواہی پر یقین نہیں کرسکتا۔ْ تمہارے لیے تبوک میں… مسلمانوں کے پڑائو تک رسائی حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ تم چند دن ان کے ساتھ رہ کر یہ معلوم کرسکو گے کہ قدرت کا وہ کونسا معجزہ ہے جس کی بدولت عربوں کے دل سے روما کی عظیم سلطنت کا رعب اُٹھ گیا ہے۔ اگر یہ لوگ تبوک سے واپس چلے گئے تو بھی تمہارے لیے اپنے وطن میں داخل ہونا مشکل نہیں ہوگا۔ اگر دنیا کے حال اور مستقبل کے متعلق تمہاری دلچسپیاں ختم نہیں ہوگئیں تو جلد از جلد یروشلم پہنچنے کی کوشش کرو۔

تمہارا دوست

کلاڈیوس

فسطینہ خط ختم کرنے کے بعد جواب طلب نگاہوں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگی۔ اور تھوڑی دیر بعد جب اُسے عاصم کی خاموشی تکلیف دہ محسوس ہونے لگی تو اس نے دبی زبان میں پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔

فسطینہ بولی۔ ’’لیکن مجھے معلوم ہے‘‘۔ اور اس کے مغموم چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ (جاری ہے)

حصہ