یوسف کی کہانی

304

’’میرا نام یوسف ہے اور میرے بابا طبیب ہیں۔ میرے گھر میں میرے علاوہ امی، بابا اور چھوٹا بھائی رہتے تھے۔ پتا ہے، جب میری امی مجھے شہادت کا مقام بتاتیں تو میں کہتا ’’اِن شاء اللہ میں آپ سب سے پہلے جنت میں جاؤں گا۔‘‘ وہ ہنس کر میرے سنہرے گھنگریالے بال اپنی انگلیوں سے سلجھانے کی ناکام کوشش کرتیں اور میرا ماتھا چوم لیتیں۔

اُس دن بھی بابا ڈیوٹی پر جانے کے لیے نکل رہے تھے، میں ناشتا کرتے ہوئے اُن کو دیکھتا رہا۔ آج وہ بہت لمبی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب انہوں نے دعا مانگ لی تو میں نے ان سے پوچھا:

’’بابا! آج آپ بہت اداس لگ رہے ہیں؟‘‘

وہ کہنے لگے ’’اسپتال میں ادویہ اور بنیادی ضروریات کا سامان ختم ہورہا ہے، مریضوں کو دیکھ کر میرا دل کٹتا ہے، دعا کرو یوسف! میں آخری سانس تک لوگوں کی تکالیف دور کرتا رہوں۔‘‘

میں نے کہا ’’بابا! آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں، آپ کو پتا ہے نا، اللہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک مومن کی زندگی تو ایسے ہی گزرتی ہے نا جیسے ہم سب کی گزر رہی ہے توپوں کے سائے میں، آزمائشوں کے ہمراہ… لیکن بابا! ہم موت سے نہیں ڈرتے، وہ تو ہمارے لیے جنت کا پیغام ہوتی ہے۔ آپ جو کرسکتے ہیں، کریں، باقی اللہ تعالیٰ خود نمٹ لیں گے۔‘‘

بابا کی آنکھیں نم ہوگئیں، وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور امی کی طرف چہرہ کرکے بولے ’’ہمارا یوسف اتنا بڑا ہوگیا ہمیں پتا ہی نہ چلا! اسی خوشی میں آج میرے بیٹے کو کچھ کھلاؤ۔‘‘

’’کھانا کہاں ہے؟‘‘میں مسکرا دیا۔

بابا نے مجھے بھی ہنسا دیا اور اپنے فرض کی ادائی کے لیے روانہ ہوگئے۔ بم باری کی مسلسل آوازیں ہماری سماعتوں کو عادی کرچکی تھیں، کل ہی میرے تین دوست جنت کے سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔

میں سوچتے ہوئے اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ تاحدِ نگاہ ملبہ ہی ملبہ نظر آرہا تھا۔ فضا میں موجود مشک کی خوشبو یہاں مدفون شہدا کی قبروں اور غازیوں کی جدوجہد کا اعلان کررہی تھی۔ یہاں کے لوگوں کی محبت اور خلوص آپس میں ان کے جنت کے ساتھی ہونے کا ثبوت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کھڑکیوں سے مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو صف بستہ ضرور دیکھوں۔ ہماری محنتیں ضائع نہیں جائیں گی۔

’’یوسف بیٹا! قرآن پڑھ لیں، میں پڑوس سے حالات پوچھ کر آتی ہوں۔‘‘

میں نے پلٹ کر امی کو دیکھا لیکن روک نہ سکا۔ نہ جانے کیوں میری امی اور یہاں پر ساری خواتین پچھلے بیس دنوں سے باحجاب ہی ہیں اور باحجاب ہی سوتی ہیں کہ کہیں بم باری میں شہید ہونے کی صورت میں ان کے جسم کا کوئی حصہ نہ کھل جائے۔

اوہو! میں تو بھول ہی گیا، امی نے قرآن کی تلاوت کے لیے کہا تھا۔

میں تیمم کرنے لگا کیوں کہ پانی تو بند ہے۔ میں جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا کہ اب بھی ایک شعبِ ابی طالب کی گھاٹی ہے دنیا میں، اور مسلمان بھی بہت ہیں، لیکن خوش قسمت چند لاکھ ہی لوگ ہیں جن کو یہ نصیب ہوئی۔

ویسے آپ کو پتا ہے ہماری سرحدیں کیوں بند کی گئی ہیں؟

تاکہ انہی خالص لوگوں میں ہی جنتیں بانٹی جائیں جو خلوصِ نیت سے کئی برسوں سے نبیوں کی اس سرزمین کی حفاظت کررہے ہیں۔

یااللہ رحم! یہ شور کیسا؟ میرا سانس رک رہا ہے، یہ دھواں کیسا ہے؟ امی امی آپ کہاں ہیں؟ بابا…!

اوہو ماشاء اللہ! مجھے تو فرشتے لینے آئے ہیں، میری سواری جنت کی طرف رواں دواں ہے۔ مشک کی خوشبو تو خوب آرہی ہے، میں بہت خوش ہوں، میں اپنی لامتناہی زندگی کی طرف جارہا ہوں۔ اب نہ کوئی غم ہوگا، نہ ملال! بس ایک دعا ہے کہ میرے امی بابا کو منزلِ مقصود مل جائے، مسجدِ اقصیٰ آزاد ہوجائے جس کے لیے سب کوشاں ہیں۔ اور ہاں امی، بابا! ایک بات بتانی تھی، آپ بالکل پریشان نہ ہونا، مجھے بالکل تکلیف نہیں ہوئی سوائے ایک سوئی چبھنے کے برابر۔

جنت واقعی بہت حسین ہے، مجھے یقین ہے کہ بابا مجھے دیکھ کر بالکل نہیں روئیں گے بلکہ دلی طور پر مطمئن ہوں گے۔ میری امی بھی بہت مضبوط ہیں۔

چلیں بھئی! میں تو چلا، مجھے میرے دوست نظر آرہے ہیں، یہاں آکر تو یہ مزید خوب صورت ہوگئے۔‘‘

حصہ