پربت کی رانی قسط9

188

عبادت گاہ کے قریب آکر تمام لوگ عقیدت مندانہ انداز میں دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ سب کے بیٹھتے ہی ہلکے بادلوں پر چھائی روشنی اچانک بہت محدود ہو گئی اور ان ہی بادلوں پر ایک عورت کا چہرہ ابھرا جو مکمل حجاب میں تھا۔ صرف اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ آنکھیں کیا تھی کہ واقعی غضب ڈھا رہی تھیں اور اس بات کا ثبوت فراہم کر رہی تھیں کہ اگر یہی پربت کی رانی ہے تو بہت خوبصورت بھی ہوگی۔ جب چہرہ بہت واضح ہو گیا تو اس کی آواز چہار جانب سے گونجنے لگی۔ بلا شبہ اتنی خوبصورت آواز شاید ہی کسی نے کبھی سنی ہو۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میں ہر روز کی طرح آج بھی اپنی اسی بات کو دہراؤں گی کہ سب انسان ایک اللہ کے بندے ہیں۔ وہ اللہ جس کے ماننے والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ سب انسان برابر ہیں اور کسی پر کسی کو کوئی بر تری نہیں لہٰذا سب کے ساتھ برابر کا انصاف اور سلوک ہونا چاہیے۔ انسان کو اپنی زندگی سادگی سے گزارنی چاہیے بالکل اسی طرح جیسے یہاں سب سادگی سے رہتے ہیں۔ یہ عبادت گاہ جو یہاں تعمیر کی گئی ہے اس کی طرزِ تعمیر میں دنیا کے تمام مذاہب کی جھلکیاں موجود ہیں۔ سب مذاہب کو ماننے والے انسان ہیں اور بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ کسی کو محض مذہب کی بنیاد پر مار دینا حرام ہے البتہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ شدید ہے۔ یہاں کسی کو بھی غیر فطری زندگی گزارنے کی اجازت نہیں اس لیے یہاں ہم صرف حقیقی جوڑوں ہی کو آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ پاکیزہ زندگی گزاریں۔ ہمیں امید ہے کہ ان سے جو اولادیں ہونگی وہ سب فتنہ پروری سے آزاد ہونگی اور پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنائیں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا ماحول دیکھ کر اور میری نصیحتیں سن کر کوئی بھی یہاں سے لوٹ کر اپنی جہنم نما زندگی کی جانب نہیں جانا چاہتا۔ اگر کوئی یہاں سے نہیں جانا چاہتا تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسے یہاں سے کسی کو بھی زبر دستی نہیں لے جانے دیں گے البتہ جو لوٹ جانا چاہے تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ یہاں جو جب تک بھی رہنا چاہے گا ہمارا مہمان رہے گا اور ہم اپنی صلاحیت و حیثیت کے مطابق اس کی خاطر اس کے آخری سانسوں تک کرتے رہے گے۔ ہم یہاں لوگوں کی تربیت کرکے واپس ان کی اپنی دنیا میں بھی بھیجتے رہیں گے تاکہ وہ لوگوں کو سمجھائیں۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے قربانیاں تو دینا ہی پڑتی ہیں۔ جو اپنی خوشی سے یہاں سے جاکر امن کا درس دینے کے لیے جانا چاہے گا اسے ہم ضرور بھیجیں گے لیکن کسی پر کوئی جبر نہ ہوگا کہ وہ لازماً ایسا کرے۔ اب تک کئی سو افراد اپنے اپنے ممالک جا بھی چکے ہیں اور اس جہنم جیسی زندگی کو جنت نظیر بنانے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ یہاں جو اولادیں پیدا ہونگی وہ ان سے بھی زیادہ تربیت یافتہ اور قربانی دینے والی ہونگی۔ ہم اپنی آبادی کو بھی بڑھائیں گے اور یہاں ایسا نمونہ پیش کریں گے کہ ساری دنیا اسے دیکھ کر خود کو بدلنے پر مجبور ہو جائے گی۔ میں ہر روز یہی ساری باتیں کرتی ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں تب تک اس سے زیادہ کوئی اور نصیحت نہیں کرونگی۔ میں صرف اور صرف پوری دنیا میں امن چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کوئی مشن نہیں۔ اس جملے کے ساتھ ہی آسمان پر نظر آنے والا چہرہ غائب ہو گیا اور بادلوں کی چمک پھر سے بحال ہو گئی۔
اس پورے دورانیے میں نہ تو عقیدت مندوں کی جانب سے کوئی کلمہ بلند ہوا اور نہ ہی تقریر ختم ہونے کے بعد کسی نے سجدہ تعظیم پیش کیا۔ سب عبادت گاہ سے اٹھ کر اپنے اپنے خیموں کی جانب روانہ ہو گئے۔ جمال اور کمال کو ان سب کا یہ انداز بھی کچھ غیر فطری سا لگا لیکن انھوں نے اس پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی اقامت گاہ پر واپس آ گئے۔ اس دوران ایک کام ضرور کیا کہ عبادت گاہ کہ فضا کی اس تیز مہک کو بھی خاموشی کے ساتھ خالی شیشی میں سرنج کی مدد سے کافی دباؤ کے ساتھ محفوظ کر لیا۔
رات کے کھانے میں دال کے ساتھ روٹی پیش کی گئی تھی لیکن جمال اور کمال نے انسپکٹر حیدر علی تک یہ پیغام پہنچا دیا تھا کہ اول تو کوشش کریں کہ فاقہ کر لیں اور صبح ناشتے سے قبل نکلنے کی کریں یا پھر جتنا کم کھا سکتے ہیں کھائیں۔ پانی میں چونے کی آمیزش کر لیں ممکن ہے کہ اس سے مضر اثرات سے بچت ہو سکے۔ فضا کی مخصوص مہک کسی قسم کے خطرے کی علامت ہو سکتی ہے تو کھانا کیسے کسی کیمیکل سے پاک ہو سکتا ہے۔ انسپکٹر جمشید نے کہا کہ تم کسی حد تک درست ہی کہہ رہے ہو کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ساتھ دو اور فیملیاں جو آئی ہیں ان میں تو ایک ہمارے محکمے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ ہر قسم کی ہدایات پر عمل کر رہی ہے لیکن دوسری فیملی کے ساتھ جو خاتون ہیں ان کا تعلق ہمارے محکمے سے نہیں اور وہ مسلسل اپنے شوہر سے بضد ہیں وہ یہاں سے نہ جائیں۔ یعنی تمہارا شک درست ہے کہ فضا کی مہکار اور کھانوں میں یقیناً کوئی ایسی چیز ہے جو ذہنوں کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ یہی منظر عبادت گاہ میں شریک افراد کی جانب سے بھی دیکھنے میں آیا۔ وہ سب جس عقیدت سے پربت کی رانی کی باتیں سن رہے تھے اتنی توجہ سے تو لوگوں نے پیغمبرانِ کرام کی باتیں بھی کبھی نہیں سنی۔ پروگرام یہی ہے کہ صبح پو پھوٹتے ہی ہم یہاں سے روانہ ہو جائیں گے اور خاتون کو خواب آور دوا کھلا دیں گے تاکہ وہ کوئی فساد برپا نہ کر سکیں۔ (جاری ہے)

حصہ