قیصروکسریٰ قسط(126)

216

تم کہا کرتے تھے کہ اس وقت عرب میں یہودیوں سے زیادہ منظم اور متحد اور کوئی طاقت نہیں۔ اور ان کا سب سے بڑا مرکز خیبر ہے۔ لیکن میں ان یہودیوں سے مل چکا ہوں جو خیبر میں شکست کھانے کے بعد شام کی حدود میں پناہ لے چکے ہیں۔ اور انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ عرب میں ایک دین کے ساتھ ایک عظیم فوجی قوت کا ظہور ہورہا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے پیرو جب انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے تو بھی وہ عرب کے اندر اور عرب سے باہر کسی طاقت سے مرعوب نہیں تھے اور جب انہیں مٹانے کے لیے عرب قبائل متحد اور منظم ہورہے تھے تو ان کے ہادی کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ وہ مشرق و مغرب کے حکمرانوں کو ایک ایسا دین قبول کرنے کی دعوت دے رہا تھا جس کی تعلیم اس دنیا سے بندہ و آقا کا امتیاز مٹانا چاہتی ہے۔ یہ نیا دین جو دنیا کے تمام قبیلوں اور نسلوں کے درمیان اخوت اور مساوات کے رشتے قائم کرنا چاہتا ہے۔ صرف عرب کی قبائلی عصبیتوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہر اس معاشرے کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتاہے جو طاقت ور کو کمزور، امیر کو غریب اور اعلیٰ کو ادنیٰ پر آقائی کا حق دیتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ آج اگر ہمارا قیصر بھی یہ اعلان کردے کہ ایک رومی، ایک شامی یا مصری پر برتری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ یا خدا کے سامنے میرا اور میری رعایا کے ہر فرد کا درجہ برابر ہے تو سلطنت کے امراء اور کلیسا کے پیشوا یکساں جوش و خروش کے ساتھ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور میرے خیال میں اِس دُنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں کسی حکومت کے ایوانوں یا کسی مذہب کی عبادت گاہوں میں انسانی مساوات کے لیے جگہ ہو۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دین کو پوری دُنیا کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھتا ہوں اور میرے دل میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب کی سرزمین کسی ایسی عظیم قوت کو جنم دے سکے گی جو اس عظیم جنگ سے عہدہ برآ ہوسکے؟ تم عرب کے مستقبل سے مایوس ہو کر نکلے تھے اور میں بھی اس بے آب و گیاہ زمین کے مستقبل کے ساتھ کوئی بلند توقعات وابستہ نہیں کرسکتا۔ لیکن تم حیران ہوگے کہ جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے ہیں، میں ان کے بدترین دشمنوں سے مل چکا ہوں اور وہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دُنیا کی کوئی مصیبت یا آزمائش اپنے ہادی کی صداقت پر ان کا یقین متزلزل نہیں کرسکتی۔ پچھلے دنوں ایک تاجر سے جو مکہ اور مدینہ کے راستے یروشلم پہنچا تھا، میری ملاقات ہوئی تھی۔ اور وہ یہ کہتا تھا کہ اگر یہ لوگ آسمان کے تارے نوچ لیں تو بھی مجھے تعجب نہیں ہوگا۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دنیا کو اخوت اور مساوات کا درس دینا آسمان کے تارے نوچنے سے آسان نہیں۔

عاصم! تم حیران ہوگے کہ موتہ کی جنگ کے بعد ہم کافی سنجیدگی کے ساتھ اپنی مشرقی سرحدوں کی طرف مسلمانوں کی پیش قدمی کا خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ میں قریباً چار مہینے غسانی رئوسا کے قلعوں اور چوکیوں کا معائنہ کرنے کے بعد یروشلم واپس آیا ہوں۔ وہاں یہودیوں نے اس قسم کی افواہیں پھیلا رکھی ہیں کہ مسلمان حملے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے۔ موتہ کی جنگ کے بعد انہیں ہماری قوت کا تھوڑا بہت اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا۔ اور اس کے بعد اگر انہوں نے شام کا رُخ کرنے کی جسارت کی تو مجھے اندیشہ ہے کہ ہم ان ریگ زاروں تک ان کا تعاقب کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جہاں ببول کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں اس نبی کو قریب سے دیکھ سکتا۔

قیصر کو اس نئے دین کے حامیوں کے ساتھ اُلجھنا پسند نہیں، لیکن سلطنت اور کلیسا کے اکابر یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ جو قوت عرب قبائل کے اندر اتحاد اور مرکزیت پیدا کرسکتی ہے وہ آگے چل کر عرب کے ہمسایہ ممالک پر رومیوں کے اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ شام، ایشیائے کوچک اور مصر کے ممالک میں ہم ہر اس تحریک کی مخالفت کریں گے جو وہاں کے عوام میں رومی حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات بیدار کرسکتی ہو۔ اور اس مقصد کے لیے اگر ہمیں عرب پر چڑھائی کرنی پڑی تو بھی ہم اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ روم اور ایران کی جنگ کی ہولناکیاں مجھے کسی نئی جنگ سے متنفر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن امن کا طلب گار ہونے کے باوجود میں ایک سپاہی ہوں اور اس دنیا میں اسباب و نتائج کے متعلق صرف ایک سپاہی کے ذہن سے سوچ سکتا ہوں۔ اور عرب کے نبی کے متعلق سنی سنائی باتوں سے متاثر ہونے کے باوجود مجھے وہ اسباب نظر نہیں آتے جو رومی سلطنت کی عطیم قوت کے ساتھ متصادم ہونے کے بعد اس کے ماننے والوں کے لیے ایک عبرتناک شکست یا مکمل تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر اس دین کے علمبرداروں کی نگاہیں صرف عرب پر مرکوز رہتیں تو ممکن تھا کہ وہ کسی دن جہالت کی دلدل سے نکل کر ایک متمدن قوم بن جاتے۔ لیکن انہوں نے ابتدا میں ہی مشرق و مغرب کے حکمرانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ امن اور عدل آج انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت انسانوں کے درمیان اخوت اور مساوات کے رشتے قائم کیے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ لیکن روم و ایران کے شہنشاہوں اور دوسرے چھوٹے اور بڑے حکمرانوں کو ایسے امن کی ضرورت نہیں جس کی اولین شرط آقا اور غلام کا امتیاز مٹانا ہے۔

ان دنوں میرے دل میں بار بار صرف ایک ہی سوال آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کونسی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر عرب کے نبی (سلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ایران اور روم کے فرمانرواں کو اپنے دین کی دعوت دینے کی جسارت کی ہے؟ اور وہ کونسی قوت ہے جس کی بدولت اس کے پیروکسی کامیابی یا فتح کی اُمید رکھتے ہیں؟ اور میں جس قدر سوچتا ہوں اسی قدر مجھے اُلجھن محسوس ہوتی ہے اور میری اُلجھن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مَیں یروشل میں کئی ایسے خدا رسیدہ آدمیوں سے مل چکا ہوں جو فرمس کی طرح کسی نبی کے منتظر ہیں۔

میں اب تک عرب کے کئی تاجروں سے اس نبیؐ کے متعلق پوچھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے چند ایسے بھی تھے جو کہ مکہ کے رہنے والے تھے اور وہ سب اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ جب ایرانیوں کی فتوحات کا سیلاب بحیرہ روم کے کناروں تک پہنچ چکا تھا اور ہمارے دوبارہ اُٹھنے اور سنبھلنے کی تمام اُمیدیں معدوم ہوچکی تھیں تو اس نبیؐ نے پورے وثوق کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ یہ جنگ بالآخر رومیوں کی فتح پر ختم ہوگی۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ خدا نے اپنے کسی بندے کو آنے والے حالات سے آگاہ کردیا ہو اور میں یہ بھی تسلیم کرسکتا ہوں کہ عربوں کی کایا پلٹ کے لیے قدرت کی اَن دیکھی اور اَن جانی قوتیں اس نبی کی رہنمائی کررہی ہوں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ قدرت کا کوئی معجزہ ان صحرا نشینوں کو ہمارے مقابلے میں کھڑا کرسکتا ہے۔ ہم گئی گزری حالت میں بھی ایرانیوں کے بعد دُنیا کی دوسری عظیم قوت تھے اور اپنی بدترین شکستوں کے دور میں بھی یہ اُمید ہمارا آخری سہارا تھی کہ شاید حالات بدل جائیں اور ہمارا مایوس اور بددل حکمران کسی دن اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے گرے ہوئے پرچم کو اُٹھالے لیکن عرب اور روم کی طاقت میں اتنا فرق ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام خدا رسیدہ لوگ یک زبان ہو کر یہ پیش گوئی کریں کہ ہماری سلطنت کو اہل عرب سے کوئی خطرہ پیش آسکتا ہے تو بھی مجھے یقین نہیں آئے گا۔ اور مسلمانوں کے نبیؐ کے عزائم یہ ہیں کہ اس نے قیصر کے علاوہ کئی اور حکمرانوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے اور اُسے ماننے والوں کو اس بات کا یقین ہے کہ دُنیا کی کوئی سلطنت ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔

عاصم! مجھے یقین ہے کہ جس سیلاب کی لہر موتہ تک پہنچ گئی تھی وہ دوبارہ شام کی سرحدوں کا رُخ نہیں کرے گا۔ تاہم کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کا یہ دور ناقابل یقین واقعات کا دور ہے۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں تمہاری طرح ایک عرب ہوتا تو موت سے پہلے اس نبی کو دیکھنے کی کوشش ضرور کرتا جس کی تعلیم دنیا کے تمام حکمرانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے اور جسے ماننے والے مٹھی بھر انسان اپنی فتح پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اگر مجھے اس میں کوئی صداقت نظر آتی تو میں واپس آکر اپنے رومی دوستوں کے سامنے یہ اعلان کرتا کہ اس نے میری نگاہوں سے مستقبل کے سارے پردے اُٹھادیئے ہیں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ مغرب اور مشرق کے انسانوں کو صرف اسی کے دامن رحمت میں پناہ مل سکتی ہے اور جب اس کا قافلہ عرب کی حدود سے باہر نکلے گا تو تمہاری تلواریں اس کا راستہ نہیں روک سکیں گی۔

میرے دوست! قیصر کا ایک جان نثار ہونے، اور صبح و شام بازنطینی سلطنت کی سلامتی کی دُعائیں مانگنے کے باوجود کبھی کبھی مجھے اپنے دل میں یہ خلش محسوس ہوتی ہے کہ اگر وہ سچا ہے، اگر یہ وہی ہے جس کا اِس دُنیا کو انتظار ہے تو کیا میں اپنے ضمیر کو ہلاک کیے بغیر اس کے خلاف تلوار اُٹھا سکوں گا؟

یہاں میری عقل جواب دے جاتی ہے اور پھر میں اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ کلاڈیوس تم ایک رومی ہو، تم قیصر کے سپاہی ہو اور تمہارا کام صرف بازنطینی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت ہے اور پھر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے دماغ کا بوجھ ہلکا ہورہا ہے۔ اگر تم میرے پاس ہوتے تو شاید میں اِس اُمید پر تہیں یثرب کا سفر کرنے پر مجبور کرتا کہ تم واپس آکر مجھے ان لوگوں کے صحیح حالات بتا سکو گے کہ جن کے متعلق سوچتے ہوئے مجھے اضطراب، اُلجھن اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یروشلم کی طرح دمشق میں بھی عرب تاجر آتے ہوں گے۔ کیا ان کی باتیں سن کر تمہارے دل میں کسی دن وہاں جانے کا خیال پیدا نہیں ہوا؟ اور میں یہ سوال اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ہمیں کسی دن عرب کے حالات کے متعلق پوری واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس مقصد کے لیے میرے نزدیک تم سے زیادہ قابل اعتماد اور کوئی نہیں ہوگا۔

تمہارا دوست

کلاڈیوس

O

فسطینہ سے کلاڈیوس کے خط کا مضمون سننے کے بعد عاصم کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ اچانک یونس بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور اس نے عاصم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب عاصم نے اس کی طرف توجہ نہ دی تو وہ پریشان سا ہو کر ماں کی طرف بڑھا اور اس کی گود میں بیٹھ گیا۔
(جاری ہے)

حصہ