’’عائشہ یاسمین‘‘ یادیں ،تاثرات،ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا)

264

نام کتاب: ’’عائشہ یاسمین‘‘
( یادیں ،تاثرات،ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا)
مرتبہ:نائلہ اقتدار،نادیہ بشریٰ
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ
…٭…
کچھ شخصیات اسم بامسمیٰ ہوتی ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر ان کا نام شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ اس وقت جو کتاب میرے سامنے ہے یہ ایسی ہی خاتون کی ہے جن کے والدین نے ان کا نام جس شخصیت پر رکھاوہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس کی پیروی کی کوشش میں رہیں۔
میری زندگی کا بہت سا وقت اللہ کے فضل سے کتب بینی میں گزرا ہے۔ سفرنامے اور آپ بیتیاں پڑھنا مجھے بہت مرغوب ہے۔ جب کسی کے انتقال کے بعد اُس کی یاد میں کتاب لکھی گئی اور میرے مطالعے میں آئی تو اس کتاب میں (خواہ وہ کسی بھی شخصیت پر لکھی گئی ہو) تکرار پائی گئی۔ یہ وہ واحد کتاب ہے کہ ان کی یاد میں لکھنے والے سو سے زائد ہیں، لیکن کتاب میں تکرار نہیں ہے۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ ہر ملنے والی نے ان کی شخصیت میں الگ چیز پائی۔
کتاب بہت عمدہ کاغذ پر، اور موٹے فونٹ میں مرتب کی گئی ہے۔ لکھنے والوں نے عائشہ مرحومہ سے اپنے اپنے تعلق کی بنا پر جو دیکھا اور جو سیکھا وہ سادہ اور فطری انداز میں بیان کیا۔کتاب فہرست کے مطابق 9 ابواب میں منقسم ہے ۔
پہلے باب کا عنوان ’’والقیت علیک محبۃ منی‘‘ ہے جس میں ان سے وابستہ لوگوں نے بہت اچھے انداز میں گواہیاں دی ہیں۔ افشاں نوید، عطیہ نثار، ثمینہ سعید، قدسیہ ملک، فرحت طاہر سمیت 33 لوگوں نے تاثراتی مضامین لکھے ہیں۔ ان مضامین کی خوبی اختصار اور دلچسپ اندازِ بیان ہے ،ہر قلم کار نے ان کی شخصیت کے کسی نہ کسی منفرد پہلو کی گواہی دی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب ’’ تُو ہے فاتح عالم خوب و زشت‘‘ میں ان کی بیٹی مدیحہ عبدالرشید، ان کی دوست نائلہ اقتدار کے انٹرویوز ہیں جو صوبیہ نقی نے عمدگی سے لیے ہیں۔
بلاشبہ سب سے معتبر گواہی بہت قریب رہنے والوں کی ہوسکتی ہے۔ لکھنے میں مختصر سا فقرہ ہے لیکن زندگیاں اس کی تفسیر میں خرچ ہوجاتی ہیں، مدیحہ لکھتی ہیں ’’امی کی زندگی سے میں نے رخصت اور عزیمت کا فرق سیکھا۔ بلڈ کینسر کے علاج کے دوران وہ اپنے مشن سے جڑی رہیں، آخری دن بھی لوگوں کو میسج کیے۔ اسپتال میں یہ انتظام تھا کہ بچوں کے لیے ایل سی ڈی پر کارٹون وغیرہ چلتے رہتے تھے، امی نے ڈاکٹر سے بات کرکے شعبہ اطفال کے کارٹون وہاں چلوائے۔‘‘
دوست کی حیثیت سے نائلہ اقتدار نے بھی سونے کے پانی سے تاثرات بیان کیے۔ ہر کام میں مددگار دوست، صلاحیتوں کے بہترین استعمال سے کس طرح لوگوں کو اپنے قریب کیا، اپنے کام میں شامل کیا، کیسے سب میں اخلاص پیدا کیا۔ مختلف موضوعات پر ورکشاپس کا انعقاد، ان کی تیاری، افراد کو مدعو کرنا… یہ سب اگلی دائمی زندگی کے لیے بہترین سرمایہ ہے۔
کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ’’شجر طیبہ‘‘ ہے جو دراصل عائشہ یاسمین کے عزیزواقارب کی تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان کے میکے اور ننھیال ددھیال سے سب چھوٹوں، بڑوں نے ان کی یاد میں آنسو پروئے ہیں۔ ان کی بھاوج ثوبیہ عبدالسلام کہتی ہیں ’’بیماری کی شدت میں بخار سے کپکپارہی ہوتی تھیں لیکن منہ سے اللہ کا شکر ادا کرتیں‘‘۔ عائشہ کے داماد سید عبدالرشید سابق رکن سندھ اسمبلی نے لکھا کہ ’’مجھے پہلا تحفہ بحیثیت داماد، ساس کی طرف سے دیا گیا جو کہ سیرت کی کتاب الرحیق المختوم پر مشتمل تھا، اس سے پتا چلتا تھا کہ وہ مجھے کیسا دیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم سید علی عزام جو عائشہ کے بھانجے ہیں، لکھتے ہیں ’’اسلام آباد کی تاریخ میں جمعیت کا کام نئے سرے سے منظم کرنے میں بہت سے نام لیے جائیں گے لیکن مالی استحکام کے لیے نمایاں نام عائشہ خالہ کا ہی ہوگا۔‘‘
اس باب میں ان کے بھائی، بہنیں، بھانجیاں سب تعریفی انداز میں ان کی یاد تازہ کرتے پائے جاتے ہیں، جبکہ کتاب کے چوتھے باب ’’مینارۂ نور‘‘ میں بھی ساری تحریریں بہت اچھی ہیں۔ معراج الہدیٰ صدیقی ہوں یا فصیح اللہ حسینی… سب نے ان کی شخصیت کو مثالی قرار دیا۔ کتاب کے پانچویں باب ’’جوانوں کو سوزِ جگر دے‘‘ میں نوجوان طبقے کے تاثراتی پیغام سموئے گئے ہیں۔
کتاب کا چھٹا باب ’’گل ہائے عقیدت‘‘ پر مشتمل ہے جس میں مختصر مضامین ہیں۔انہیں اپنی بیٹی مدیحہ کی سہیلیاں بھی اپنی بیٹی کی طرح عزیز تھیں۔ مدیحہ کی سہیلی صالحہ شیروانی لکھتی ہیں: ’’انہوں نے مجھے بہت محبت دی۔ فرسٹ ائیر میں تھی کہ مجھے بخار ہوگیا، سمجھانے لگیں کہ اللہ کو کمزور مومن سے طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔‘‘
کتاب کے ساتویں باب ’’صبح دوام زندگی‘‘میں عائشہ کی سادہ مگر مؤثر تحریریں کتاب میں خوبصورت اضافہ ہیں، جبکہ کتاب کا آٹھواں باب ’’عشق از مومن است‘‘ میں نظمیہ تاثرات ہیں، اور کتاب کے آخری باب ’’ساربان۔کاروان‘‘میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی قیادت کے تاثرات ہیں۔ اس حصے میں ثمینہ سعید، نائلہ اقتدار، سمیحہ راحیل قاضی، ڈاکٹر رخسانہ جبین، قیمہ پاکستان دردانہ صدیقی سمیت آٹھ لوگوں کی تحریریں ہیں جو کہ اس خوبصورت کردار اور للہیت کے چلتے پھرتے نمونے عائشہ یاسمین کو خراج عقیدت ہے۔
بہت خوش قسمت ہیں وہ جن کے لیے قیادت بھی اسی طرح غمزدہ ہے جیسے عام کارکن۔ بیٹھک اسکول ہو یا شعبہ اطفال، ینگ مسلم ہو یا CERD، سب ان کے جذبے سے زندگی کے مفہوم سے آشنا ہوئے، رب کے قریب ہوئے۔ میں مبارک باد دیتی ہوں نائلہ اقتدار کو، جنہوں نے دوستی کا حق ادا کیا اور ان کی یادوں کو تادیر لفظوں کے صندوق میں محفوظ کردیا جو ہمیشہ کے لیے صدقۂ جاریہ رہے گا اِن شاء اللہ۔

حصہ