سوشل میڈیا پر اسرائیلی بیانیہ, سوشل میڈیا ٹرینڈز کے اثرات, ورلڈ کپ میں کھیل

434

ورلڈ کپ تماشا:
کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں پر ٹھنڈے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر میدان کی کارکرد گی پر خوب تبصرے و تبرے جاری رہے۔پاکستان کی بھارت سے انتہائی عبرت ناک شکست نے خوب اثر ڈالاکہ بھارت ورلڈ کپ میں مستقل پاکستان سے فتح کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔اس کی عجیب عجیب وجوہات پیش کی گئیں۔ بابر اعظم کے دفاع کے لیے محض 50 رنز کو شیلڈ بنایا گیا، یہی نہیں اگلے دن انگلینڈ کی شکست سے بھی مدد لی گئی۔سوشل میڈیا پرپاکستانی کرکٹ ٹیم کے ایسے اندرونی معاملات سامنے آ رہے ہیں جو کہ ٹیم کے لیے مثبت نہیں۔آسٹریلیا کے ساتھ میچ سے قبل بھی ایسے مشورے و تجزیے چل رہے تھے کہ اگر یہ سب یا اس کا 10فیصد بھی کھلاڑی دیکھ لیں ، پڑھ لیں ، سن لیںتو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی کار کردگی پر یہ ٹوئیٹس لازمی منفی اثر ڈالیں گی۔اس کے علاوہ محمد رضوان کی ادائیگی نماز مغرب کی تصاویر نے بھی ہندو لبرل ذہنیت پرہلچل مچائی کہ کھیل میں مذہب کو کیوں شامل کیا؟سجدوں تک تو چلتا تھا ، اب پانی کے وقفے میں نماز پڑھنا یہ تو جیسے ناقابل برداشت ہی تھا۔اس کے علاوہ پاکستانی کھلاڑیوں میں وائرس کونسا پھیل گیا، کس کی جگہ کون کھیلے گا، ورلڈ کپ مقابلے دیکھنے کے لیے پاکستانیوں کو ویزے جاری نہ کرنے اور خاتون صحافی و انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی ڈیجیٹل ٹیم کی رکن زینب عباس کیس بھی ڈسکس ہوتا رہا۔خاتون نے ہندوؤں کے متعصبانہ رویے پر ( خاصا عرصہ قبل)ٹوئیٹ کی تھیں ، جس کا خمیازہ اس کو اب بھارتی دورے پر بھگتنا پڑا اور مبینہ جانی و دیگر نقصان کے خوف کی آڑ لیکر اپنا کام کیے بغیر ہی واپس پاکستان کی جانب سدھار گئیں ۔زینب عباس نے 9 اکتوبر کوبھارت سے دبئی واپسی پر معذرت کا ٹوئیٹ کر دیا تھاکہ ’’میں ان پوسٹس سے ہونے والی تکلیف کو سمجھ سکتی ہوں اور اس پر افسوس کرتی ہوں۔ اس طرح کی زبان کے لیے کوئی عذر یا گنجائش نہیں اور جن لوگوں کی بھی دل آزاری ہوئی میں اُن سے معافی چاہتی ہوں۔ میں اُن لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مشکل وقت میں میرے لیے فکرمندی اور تعاون کیا۔‘‘

ملک بچا لو نواز شریف:
آؤ پھر سے سنبھالو ،مشکل سے نکالو، یہ ملک بچا لو نواز شریف۔ کی شاعری کے ساتھ مسلم لیگ ن نے اپنا نیا پارٹی ترانہ لانچ کردیا ۔ سوشل میڈیا پراس کے کئی ٹریند بھی بنائے گئے ۔مطلب پارٹی نے اُسی اسٹائل میں خرچہ شروع کردیا، پوری جاندار مارکیٹنگ ترتیب کے ساتھ مسلم لیگ ن ، میدان میں اُتری ہے۔ میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی لاہور میں مینارپاکستان پر جلسے کی صورت ہوئی۔سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے ’’خلیج ٹائمز ڈجیٹل ‘‘کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ڈیل ہو چکی ہے کہ اب میاں نواز شریف وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر نواز شریف نے انتقامی سیاست کی تو پھر سب معاملہ خراب ہوجائے گا۔کم و بیش یہی بات اعتزاز احسن نے بھی کہی ۔ امن ، مہنگائی خاتمے و روزگار کے نعرے کے ساتھ ’میںبھی مینار پاکستان جاؤں گا‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ میں رہا۔ایسے میں سینئر صحافی مطیع اللہ نے دلچسپ ٹوئیٹ کی کہ ’’مینار پاکستان پر تقریر میں جنرل باجوہ یا جنرل فیض کا نام لیا تو پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت مسترد بھی ہو سکتی ہے؟‘ دوسری جانب تحریک انصاف ’’ہوگئی انصا ف کی موت‘‘ جیسے ٹرینڈچلا کر اپنے جذبات کا ظہار کرتے رہے۔نواز شریف کے مستقبل کے لیے عمران خان کے اقوال و تقاریر پر مبنی چاہے جتنی وڈیوز ڈال دی جائیں جو بعینہ درست ہی کیوں نہ ہوں ، صورتحال بالکل ویسی ہی سامنے آرہی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوشل میڈیا پر بغور نظر ڈالیں تویہ صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کو استحکام ہی ملا ہے مگر امکان یہی ہے کہ وہ مقبولیت دلوں تک محدود رہے گی اس کا اظہار ’انتخابی بیلٹ ‘پر ممکن نہیں ہوسکے گا۔

لبرل،سیکولر ، مذہبی سب ایک پیج پر؟
کہنے سننے لکھنے کو تو بڑا اچھالگ رہا ہے ۔ ڈان ، ٹریبیون جیسے اخبار ہی نہیں خالص مغرب سے بھی فلسطین کے لیے صدائیں اُٹھ رہی ہیں، سوشل میڈیا پر جیسے مظاہروں کی بہار ہے۔پاکستان میں تومسلم لیگ، ایم کیو ایم بھی ، پیپلز پارٹی بھی فلسطین کی حمایت میں نکل آئی ہیں۔اب بولنے کی آزادی میں ہو یہ رہا ہے کہ اصطلاحات گڈ مڈ ہو کر لبرل ازم کی فکر کو ہی پروموٹ کیاجارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹیں اور مواد کو دیکھیں تو یہ فرق صاف نظر آئے گا کہ لبرل ، سیکولر ، الٹر البرل ، دیسی لبرل سمیت سب لوگ فلسطین کے اندر مظلوم بچے، عورتوں ، ہسپتال پر ’رو‘ رہےہیں، اسرائیل کو قصائی کہہ رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ اچھا لگتاہے ، مگر اس کے پیچھے سفاکیت یہ ہے کہ دینی بیانیہ سرے سے ہی ختم کردیا گیا۔ دینی بیانیہ تو مسلمانوں پر غلبہ لادینیت سے نجات ، جہاد و شہادت ، غلبہ دین کا ہے۔ اسرائیل ایک غاصب قوت ہے ، اس پر لبرل ڈسکورس میں تنقید کی گنجائش تو شروع سے ہے ، مگر ہمارے لیے اِس کے خلاف مزاحمت کسی آزادی سے نہیں ’جہاد ‘ کے تصور سے جڑی ہوئی ہے جس کا براہ راست تعلق ’غلبہ دین ‘سے ہے ۔ اب جو لوگ اس کو سوشل میڈیا پر لبرل بیانیے، انسانی حقوق ، بچوں پر ظلم، اقوام متحدہ چارٹر سے ملا کردیکھ رہے ہیں ۔میں نے دنیابھر کے ، پاکستان بھر کے مظاہروں، کانفرنسوں ،احتجاجوں میں نوٹ کی یہ بات کہ یا تو اس کو زبردستی مسجد اقصیٰ سے جوڑا جا رہا ہے ، جو کہ ویسٹ بینک پر الگ خطہ ارضی ہے ، جو سارا علاقہ پی ایل او کے ماتحت ہے اور وہاں غزہ جیسے مسائل نہیں۔یا فلسطین کی آزادی کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کی بات ہورہی ہے۔ اسرائیل پر تبرے و لعن کیے جا رہے ہیں مگر کہیں بھی کھل کر حماس کی حمایت نہیں کی جا رہی۔پاکستان میں کم از کم دینی جماعتوں نےحماس کو کریڈٹ دیئے ہیں اس لیے کہ اصل مسئلہ فلسطین نہیں حماس ہے کیونکہ حماس کا پورا تصور جہاد و غلبہ دین سے جڑا ہوا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حماس 1987 میں بنی۔اس سے قبل فلسطین کی آزادی کی مسلح جدو جہد الفتح کرتی رہی ۔الفتح علانیہ سیکولر جماعت کی شناخت رکھتی ہے جبکہ حماس اسلامی کہلاتی ہے ۔

مسلح جدوجہد کی بہت مختصر تاریخ:
جان لیں کہ فلسطین کےمسئلے میں مسلح جدو جہد کی بنیاد عرب ممالک نے سیکولر پیراڈائم میں رکھی تھی۔ یہ سب سوشلسٹ فکر کے لوگ تھے ۔ ماؤزے تنگ، چی گویرا، فیڈل کاستروسوشلسٹ مسلح جدوجہد میں ان کے ’گرو ‘کہلاتے ہیں۔ جب قومی ریاستیں بن گئیں، اقوام متحدہ کی چودھراہٹ قائم ہوگئی تو اگر اس کے بنائے قوانین کے برخلاف کسی نے ، کسی زمین پرقبضہ کیاتو اُس کے رد عمل پر مسلح جدو جہد شروع ہوئی ۔ اِس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا، بنیاد اقوام متحدہ کے قوانین تھے ، یہی وجہ ہے کہ لبرل بھی اس معاملے پر بیان ، مذمت ،احتجاج وغیرہ کر دیتے ہیں ۔ الجزائر کی جنگ بھی ایسی آزادی کی جنگ تھی، جس کے پیچھے بین الاقوامی قانون کی سپورٹ تھی ۔1970 کے بعد اِن سوشلسٹ مسلح جدوجہد میں ’اسلامی ٹچ ‘شامل ہوا، کیونکہ اِس دہائی میں ایرانی انقلاب، پھر افغانستان ، چیچنیا میں روس کے قدم پڑے ،روس کی شکست سے سوشل ازم کی بھی کمر ٹوٹی ۔یوں تصور جہاد کو اسلامی علمیت میں دوبارہ زندگی ملی۔اِس لیے ہم بار بار متوجہ کرتے ہیں کہ اپنی اصطلاح کی واضح تفریق ’’لبرل اصطلاحات ‘‘ کے ساتھ انتہائی ضروری ہے۔سوشل میڈیا ایسا میڈیم ہے کہ یہاں آپ جوش میں ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ نوٹ کریں کہ کئی الفاظ لکھنا ہی منع ہیں کئی پلیٹ فارم پر۔ آپ نوٹ کیوں نہیں کرتے کہ ’اگر ایک ہی بات ہے‘ تو پھر وہ کیوں آپ کی اصطلاح برداشت کرنے کو تیار نہیں؟

اسرائیلی بیانیہ :
چلیں آپ کو سوشل میڈیا سے اہم خبر دوں کہ ایسا بالکل نہیںکہ صرف حماس، فلسطین، غزہ کے لیے ٹرینڈ بن رہے ہوں۔ حماس ٹیررسٹ ، اسرائیل کی حمایت پر بھی ٹرینڈ چل رہے تھے۔ یہ بڑے دلچسپ تھے ۔ ان میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر کی کئی وڈیو زجس میں وہ مغربی صحافیوں کو جواب دے رہا ہے بڑی دلچسپ تھی۔ اس نے اپنے بیانیے میںmilitant او ر Terroristکی اصطلاح کو بھی صاف الگ کر دیا۔یہ اس لیے بھی کہ آپ سمجھیں اور جانیں کہ اسرائیل اپنا کونسا بیانیہ ، کس طرح دنیا میں اُتار رہا ہے۔اسرائیلی مشیر مار ک ریگیو نے کہاکہ ’’ہم ویسے نہیں ہیں جیسے بیلجیم کونگو میں تھا، جیسے برطانیہ ہندوستان میں تھا، جیسا فرانس الجزائر میں تھا۔ یہ تو ہماری زمین ہے ، ہم باہر سے نہیں آئے۔ ہم شہریوں کو نہیں مارنا چاہتے۔ہم نے تو ہسپتال پر حملہ نہیں کیا ، وہ تو اسلامی جہاد نے کیا ہے۔ہم تو صاف کہہ رہے ہیں کہ جگہ خالی کردیں۔غزہ پر کنٹرول صرف حماس کا ہے تو یہ ساری معلومات آپ کو ایک دہشت گرد گروپ دے رہاہے۔اس کی بات پر آپ کیسے اعتبار کر سکتے ہو۔کبھی آپ نے اسلامی جہاد سے کوئی ڈیٹا لیکر نشر کیاہے؟‘‘ اسرائیلی مشیر نے شکوہ کیا کہ ’’میرے دہشت گردوں ( حماس) کو ویسا دہشت گرد کیوں نہیں سمجھا جا رہا جیسا داعش، القاعدہ ، طالبان کو مغرب مقام دیتا ہے۔امداد روکنے کا جواز بھی یہی دیا کہ اگر رستے کھول دیئے تو ساری امداد حماس لوٹ لے گی۔ہمارے 1300شہری مارے گئے ہیں ہم تو نہیں چھوڑیں گے۔ کیا آپ نے اپنی باری ( نائن الیون )میں چھوڑ دیا تھا۔ جب آپ موصل میں ، افغانستان میں بمباری کرتے تھے تو ہم تو کوئی احتجاج نہیں کرتے تھے کہ سویلین نہ مارو، تو آپ کیوں ایسے بیان دے رہے ہو؟اسرائیل و مغرب کے دہشت گردوں کے لیے دوہرا معیار کیوں ہے؟‘‘یہی نہیں دو اسلحے کے جہاز بھیجنے والا جب امریکی صدر بائیڈن آیا تو انہوں نے یقین دلوایا کہ ہسپتال پر حملہ اسرائیل نے نہیں کیا۔مزید صدر پرزور دیا کہ آپ حماس کو آئی ایس جیسا قرار دو کہ ہمیں ایک طرف سے حزب اللہ نے گھیرا ہوا ہے دوسری طرف حماس تو آپ ہمار اویسا ہی ساتھ دو جیسا آپ نے اپنے دشمنوں کے لیے کیا۔ امریکی صدر نے اس کو سمجھایا بھی کہ نائن الیون کے بعد ہماری جیسی غلطی مت کرنا۔ اب یہ کونسی غلطی ہے اسکی وضاحت نہیں کی گئی۔

کارروائی کا فائدہ :
یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس کارروائی کے بعد اسرائیل کی قربت لینے والے ممالک اب خاصے دور ہوگئے ہیں اور 80 کی دہائی کی صورتحال میں اس معاملے کو پہنچا دیا ہے۔سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ کی آمد پر اس کو میٹنگ کے لیے ایک دن انتظار کروا کر اپنا رد عمل دیا۔مگر مسلم ممالک کی جانب سے اب تک اسرائیل کوئی سفارتی قطع تعلق کی خبر نہیں سامنے آئی۔پاکستان کا معاملہ تو یوں صاف ہے کہ پاسپورٹ پر لکھ دیا کہ یہ اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ پاکستان کے آئین میں لفظ ’جہاد‘ کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تو پاکستان تو کبھی ایساکچھ کر ہی نہیں سکتا نہ کرنے دے گا۔اب رہ جاتا ہے ،ایران، جو کہ دنیا میں واحد اسلامی انقلابی ریاست کہلواتا ہے ،جس کی اپنی ’قدس فورس‘ بھی موجو دہے۔شاید آپ جانتے نہ ہوں کہ’ قدس فورس ‘کو ایک آزاد سروس برانچ کے طور پر قائم کیا گیا۔ اس کا صاف علانیہ مشن ”مسلم سرزمین“ کو آزاد کرانا ہے، خاص طور پر القدس ، جہاں سے اس کا نام انگریزی میں ”یروشلم فورس“ ہے۔ یہ کئی ممالک میں غیر ریاستی عناصر کی حمایت بھی کرتی ہے، جن میں حزب اللہ ، حماس ، فلسطینی اسلامی جہاد ، یمنی حوثی بھی شامل ہیں۔قاسم سلیمانی اس کے سرپرست بھی تھے جنہیں امریکہ نے 2020 میں شہید کیا۔یہ وہی قاسم ہیں جن کی شہادت پر بننے والاوائرل انقلابی ترانہ ’’ انا ثائر ۔اناثائر ۔ والخط حسینی ‘‘ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہادی طرز کی وڈیوز کے پس منظر میں استعمال ہوتا ہے۔بلاشبہ ترانہ انتہائی ایمان افروزشاعری و بہترین طرز کے ساتھ ایک کمسن بچے سے پڑھا یاگیا ہے۔تو اب سب کی نظریں ایران پر ہی جمی ہوئی ہیں۔

حصہ