فلسطین کے سلگتے سوالات

465

’’رب کعبہ کی قسم ! تجھ سے ہمیں محبت ہے‘ تُو قبلہ اوّل ہے، انبیا کی سرزمین ہے‘ ابوالانبیا کا مسکن ہے۔‘‘

جب میں نے فلسطین کا سفر کیا تھا اس کو اب چھ سال گزر چکے ہیں لیکن میں کیا کروں میرا دل اس سرزمین نے لے لیا ہے۔ نہ جانے کیا جادو ہے اس میں ؟ جو رہتے ہیں وہ اس کی محبت میں گندھے ہوئے ہیں، جو چھوڑ چکے ہیں ان کی کسک ان کو کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے بے چین رکھتی ہے، جو ایک دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اُن کا رواں رواں فلسطین کے لیے بے چین رہتا ہے اور جنھوں نے کبھی نہ دیکھا ہو اُن کے بھی اٹھے ہوئے ہاتھوں میں یہاں بسنے والوں کا معتدبہ حصہ ہوتا ہے۔

حدیث کو سمجھنا ہو کہ مسلمان ایک جسد واحد کی مانند ہیں تو ارض فلسطین اس کی کھلی تصویر ہے۔ لیکن بعض اوقات خصوصاً آج کل کے پروپیگنڈے کے دور میں لگتا ہے کہ شاید ہم جذباتی ہو کر سوچ رہے ہیں۔ بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں کیوں کہ ہم وہاں پر موجود نہیں ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں ہم سمجھنے کی پوری طرح کوشش بھی نہیں کرتے۔

چند سادہ سے سوالات ہیں جو ذہنوں کو پریشان کر رہے ہیں میں نے یہاں ان کو اپنی ذاتی معلومات اور یہاں پر موجود ایک فلسطینی دوست جس کا خاندان غزہ میں ہے کی مدد سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

غزہ کے شہری کون ہیں؟
یہاں کی آبادی دو ملین ہے جس میں سے تیس فیصد کے قریب مقامی لوگ ہیں باقی تقریباً ستر فیصد فلسطینی مہاجرین ہیں جن کے لیے دنیا میں اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ یہ وہ مہاجرین ہیں جو گزشتہ دو بڑی جنگوں میں اور وقت بہ وقت سابق فلسطین اور ویسٹ بینک سے اپنے گھروں سے دھکے دے دے کر نکال دیے گئے ہیں۔ ان کے اپنے آبائی شہر ڈرائیونگ کے فاصلہ پر ہیں۔ نکلتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ یہ پناہ لینے غزہ جا رہے ہیں‘ جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو یہ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔ لیکن یہ خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پایا۔

کیا غزہ کے فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ ہے؟ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں کہ وہ وہاں سے نکل جائیں؟

غزہ پر اسرائیل نے1967کی جنگ میں مصر سے چھینا تھا اور تقریباً چالیس سال بعد 2005ء میں ازخود مایوس ہو کر خالی کر دیا تھا۔ جس کے بعد سے وہاں پر حماس کی حکومت ہے۔ لیکن جاتے جاتے اسرائیل نے اس کے دو اطراف ایک طویل مضبوط اور گہری لوہے کی دیوار زمین پر اور زیر زمین بنا کر اس کو مستقل جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ تیسری طرف سمندر ہے اور چوتھی طرف صرف چھوٹا سا حصہ ہے جو مصر سے ملتا ہے جو ’’رفاہ کراسنگ‘‘ کہلاتا ہے اور سال میں بہ مشکل ایک دفعہ کھلتا ہے کہ لوگ اگر چاہیں تو اپنے پیاروں سے ملنے صرف یہیں سے جا سکتے ہیں اور وہ بھی انتہائی طویل صبر آزما سفر کے بعد۔ امدادی سامان بھی یہیں سے جاتا ہے۔ لیکن یہ راستہ جنرل سیسی کے آنے کے بعد سے غزہ کے رہنے والوں کے لیے بالکل بند ہے‘ وہ یہاں سے بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ مغرب ان کو لینے کے لیے بالکل تیار نہیں اور نہ ہی کوئی مسلم ملک اپنے دروازے ان کے لیے کھول رہا ہے۔ وہ ایک ایسی کھلی چھت کے قید خانہ میں ہیں جہاں سے آزادی کی واحد صورت موت ہے۔ پانی‘ بجلی اور گیس سب کچھ اسرائیل نے اپنے قبضے میں رکھا ہے۔ کھانا پینا بھی اسرائیل آبادی کا حساب کر کے جانے کی اجازت دیتا ہے اور یہ آج کی بات نہیں ہے جب اسرائیل کا قبضہ تھا یعنی 2005ء سے پہلے بھی اس نے یہاں کے لوگوں کی آمدورفت کو بالکل محدود کر کے رکھا تھا۔

جو ہم سنتے ہیں کہ فلسطینیوں کو ملین ملین ڈالر کی پیش کش ہوتی ہے زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کے بدلے اس کی کیا حقیقت ہے؟

یہ دراصل ویسٹ بینک کے شہر یروشلم کے باسیوں کو پیش کش ہوتی ہے۔ یروشلم شہر کو اسرائیل اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے اس کے لیے زبردستی بھی ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اپنی زمین اور گھر بیچنے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ بہت سے مصیبت کی زندگی سے تنگ آکر نکل چکے ہیں لیکن بہت سے لوگ بیت المقدس کی حفاظت کو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے‘ اور کافی حد تک درست ہے‘ کہ ان کی موجودگی اسرائیل کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ مسجد اقصیٰ اسلام میں تیسری مقدس مسجد ہے وہ اس کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

غزہ کو اسرائیل نے کیوں خالی کر دیا تھا؟
صرف پچیس میل طویل غزہ پٹی سے اسرائیل کو کوئی خاص دل چسپی نہ تھی اور نہ ہے، اس کا مسئلہ یہاں سے ہونے والی مزاحمت ہے کیوں کہ یہاں پر ان کا کوئی مقدس مقام واقع نہیں ہے۔ یہاں گنجان ترین آبادی ہے اور اس زمین کے ٹکڑے پر قبضہ کرنے اور اپنے دشمن کو زیر سایہ رکھ کر نگہداشت کرنا اسرائیل کے لیے ایک انتہائی مہنگا آپشن ہے اسی وجہ سے 2005ء میں یہاں سے اسرائیلی فوج ہٹا لی گئی تھی۔ لہٰذا بنیادی طور اسرائیلی حکومت کی ساری دل چسپی ویسٹ بینک سے ہے جہاں یروشلم جیسا قدیم شہر موجود ہے اور بنیادی طور پر وہ آہستہ آہستہ ویسٹ بینک کے مختلف علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔

حماس نے آخر اپنے سر یہ مصیبت کیوں مول لی؟ رہ تو رہے تھے اب تو نہ جانے اس کا انجام کیا ہوگا؟

اس کھلی چھت کے قید خانہ میں رہنے والے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کی مثال اس بوتل کی ہے جس کے منہ پر اسرائیل نے ہاتھ رکھ کر بند کیا ہوا ہے۔ جو امدادی سامان وہاں جاتا ہے صرف اتنا ہوتا ہے کہ بہ مشکل گزارہ ہو۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت گزارا کرتے ہیں۔ ہر خاندان شہیدوں کا خاندان ہے ان کے لیے دنیاوی ترقی کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ ان کے جوان مزاحمت کا راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کریں۔ ان کا غزہ میں پیدا ہونا جرم ہے۔ جب شیر کو پنجرہ میں قید کیا جاتا ہے تو وہ موقع ملنے پر حملہ کے علاوہ کیا کرے گا۔ اس وقت بھی رفاہ کے ذریعہ غزہ داخل ہونے کے لیے امدادی سامان سے بھرے سینکڑوں ٹرک کھڑے ہیں مگر اسرائیل نے بم باری کرکے اس کو تباہ کردیا ہے اور مرمت کی اجازت بھی نہیں دے رہا ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کر کے امن کے ساتھ رہنے کی سب سے بدترین مثال خود پی ایل او ہے جو 1993ء میں یاسر عرفات کی سربراہی میں مزاحمت ترک کر کے اسرائیل کو ریاست کے طور پر قبول کر کے پُرامن رہنے کا راستہ تلاش کر رہی تھی۔ ویسٹ بینک میں کہنے کو پی ایل او کی حکومت ہے مگر قبضہ اسرائیل کا ہے اور 2018ء میں اسرائیل نے امریکہ اور دیگر ممالک کو آمادہ کیا کہ وہ اپنی ایمبیسیز تل ابیب سے اٹھا کر یروشلم لے کر آئیں جو ہے تو ویسٹ بینک کا حصہ لیکن اس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی کوشش ہے۔

حماس نے اسرائیل کے بچوں، خواتین اور امن پسند شہریوں پر حملہ کیا ہے کیا یہ ان کو اسلام سکھاتا ہے؟
اسرائیل میں عام شہری نہیں ہوتے‘ اُن کا ہر شہری ایک فوجی ہے۔ ہر سترہ سال سے بڑی عمر کے مرد اور عورت دونوں کے لیے چوبیس سے سینتیس مہینے تک کی فوجی تربیت لازمی ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی ابتدا میں یہ بات اٹھائی تھی لیکن اس کو بھی اپنے بیان کی وضاحت کرنی پڑی کیوں کہ وہ حقیقت کے خلاف تھا۔ جیسے جیسے پرتیں کھل رہی ہیں تو اندازہ ہو رہا ہے کہ اکثریت ریزرو فوجیوں کی تھی لیکن بہرحال کچھ ایسے لوگ بھی مارے گئے ہیں جو معصوم تھے۔ مگر مسئلہ وہی ہے کہ جب کسی کو برسوں اس طرح کے حالات میں رکھا جاتا ہے تو پھر بعض اوقات انہیں جذبات قابو کر لیتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو حماس کے زیادہ تر جانباز سترہ سے پچیس سال کی عمر کے ہیں جب جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جنگ شروع ہونے کے بعد انفرادی فیصلہ کر رہا ہوتا ہے کوئی کمیونی کیشن نہیں ہوتی اس میں‘ بعض اوقات اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حماس قیدی کیوں پکڑ کر لے جاتے ہیں؟
پنجرہ میں بند انسانوں سے کیا توقع کی جائے وہ اپنے حالات کے مطابق اس طرح کی جنگ کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس آپشن کوئی نہیں ہے۔ چار ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدی اسرائیل کی جیلوں میں سڑ رہے ہیں جن میں سے ایک ہزار سے زائد کو تو اپنے جرم کا بھی نہیں پتا۔ ان کو قید سے آزادی کیسے دلوائی جائے؟ یہی طریقہ ہے جو ماضی میں حماس نے استعمال کر کے قیدیوں کو چھڑوایا تھا۔ 2006ء سے 2011ء تک جیلاد شالت نامی اسرائیلی فوجی کو قید میں رکھا اور اس کے بدلے میں 1200 فلسطینیوں کو آزاد کروایا تھا۔ لہٰذا ان کو امید ہے کہ اس دفعہ بھی ان کی یہ حکمت عملی کامیاب رہے گی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قیدی نہ ہوتے تو اب تک غزہ بموں سے تباہ و برباد ہو کر بالکل ختم ہو چکا ہوتا۔

حماس کا یہ حملہ کرنے کا مقصد کیا ہے؟
اس سب کا صرف ایک ہی مقصد کہ ان فلسطینیوں کو‘ جو ایک جیل میں جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ دنیا یاد رکھے۔ ان کا ذکر ہو‘ ان کے بارے میں بات ہو۔ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور بہتر مستقبل کے خواہش مند ہیں۔ وہ کسی اور طریقہ سے اپنی آواز دنیا کو نہیں سنا سکتے اس لیے وہ ہر کچھ سال بعد اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تاکہ ان کی آواز کی گونج دور تک سنائی دے جتنا زیادہ نقصان وہ اسرائیل کو پہنچائیں گے اتنی ان کی بات زیادہ ہوگی‘ وہ خبروں میں رہیں گے اور وہ یہی چاہتے ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں بات نہیں ہوگی لوگ سوچیں گے نہیں جب تک مسئلہ کے حل کی کوئی امید نہیں ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ سعودی عرب کا ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کر کے ابراہام اکارڈ کے معاہدہ میں داخل ہو نے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور سعودی عرب کا معاہدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خادمین حرمین شریفین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور پھر نہ صرف باقی اکا دکا مسلم ممالک کے حکمران جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں گے بلکہ عام مسلمان بھی بہت کنفیوژن کا شکار ہو جائے گا۔

حصہ