زندگی آموز،زندگی آمیز،زندگی بخش پیغام کو یاد رکھیں،نامور مصنفہ فرزانہ چیمہ سے گفتگو

389

محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ تقریباً 40 سال تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد ڈپٹی چیف لائبریرین کی حیثیت سے 2013ء میں عہدے سے سبکدوش ہوئیں۔ ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ تالیف و تصنیف سے منسلک رہیں۔ محترمہ فرزانہ چیمہ ایک نامور مصنف اور ادیب ہیں، اِس وقت تک بچوں اور بڑوں کے لیے ان کی21 کتب طبع ہوچکی ہیں جبکہ مزید کتب پر کام جاری ہے۔ ان کی متعدد کتب کو صدارتی ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ کالم نگار بھی ہیں، متعدد اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین، کالم، نظمیں اور افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ انصاف، ہفت روزنامہ ایشیا، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ، ماہنامہ خواتین میگزین، ماہنامہ بتول، ماہنامہ عفت، ماہنامہ تعلیم و تربیت، ماہنامہ پھول، ماہنامہ نور وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محترمہ فرزانہ چیمہ کے سیرتِ رسولؐ پر مقالے کو بفضل ِ تعالیٰ دنیا بھر میں دوسری پوزیشن کا اعزاز حاصل ہوا۔

س: آپ کیسی ہیں؟

ج: الحمدللہ ٹھیک ٹھاک۔ اللہ کا بہت احسان اور اس کا فضل ہے۔

س: اپنے بارے میں کچھ ایسا بتایئے کہ جو کوئی دوسرا نہ جانتا ہو۔

ج: دیکھیے جی! یہ تو گویا ہم منافق ہوئے، جب کہ ایک مومن کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ ہم اندر سے بھی وہی ہیں جیسا لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ وہ ہمیں سچا‘ مخلص‘ نیک نیت‘ تعلقات نبھانے والا کے طور پر جانتے ہیں، اور یقین مانیے ہم ایسے ہی ہیں۔ غم گسار، ہنسنے ہنسانے پہ تیار، نہ دبلے نہ بیمار، حلقۂ احباب بے شمار، کتابوں سے پیار، لکھنے لکھانے کے مرض میں گرفتار… غرض کہ کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائیں۔

س: آپ کا بچپن کیسا گزرا؟ ادب سے لگائو وراثت میں ملا یا ازخود پروان چڑھا ہے؟

ج: بچپن…؟ کیا یاد کروا دیا آپ نے۔ اتنا شاندار بچپن کم ہی کسی کو ملا ہوگا۔ کھیلنے کودنے سے زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھی مگر اللہ کا ہزارہا شکر ہے کہ اس لاڈ پیار نے ہمیں بگاڑا بالکل نہیں۔ ہمیں جب اردو لکھنی پڑھنی آگئی تو پھر بڑے بہن بھائیوں کی اردو اور اسلامیات کی درسی کتب ہماری دسترس سے بچ نہ سکیں۔ نشتر کالج ملتان کے ہوادار گھر میں گرما کی لمبی دوپہریں ہوتیں۔ کتاب یا رسالہ ہوتا اور ہم ہوتے۔ اُس زمانے میں اخبار دوپہر کو ملتان آیا کرتے۔ ہمارا اخبار والا ایک دبلا پتلا سا لڑکا تھا۔ مجھے ابھی تک اُس کا نام یاد ہے۔ میں اُس سے ہر ماہ ایک رسالہ خریدتی تھی۔ وافر پیسے ہی نہ ہوتے تھے، اور بچوں کے باقی رسالے فرید بھائی مجھے ایک ایک کرکے پڑھنے کو دیا کرتے۔ دو دن یا اگلے دن بعد اسے واپس کرکے کوئی دوسرا لے لیتی اور رات بھر میں وہ رسالہ پڑھ کر اگلے دن پھر کوئی نیا رسالہ میرے ہاتھ میں ہوتا۔ بس ایک بات وہ روزانہ کہتے ’’بے بی! رسالہ سنبھال کر رکھنا‘‘۔ کتنے اچھے تھے فرید بھائی۔

لیل و نہار میں بچوں کا صفحہ، کھلونا، نونہال، تعلیم و تربیت، حور، زیب النساء، خدام الدین، مسجد سے ملے ہوئے پمفلٹ… غرض کوئی چھوٹا بڑا رسالہ، کتاب میرے ہاتھ لگتی تو پڑھ کر دم لیتی۔ یہاں تک کہ بھائی جان سکندر کی الماری سے مشکوٰۃ شریف کی ایک جلد کا اردو حصہ پورا پڑھ ڈالا، الحمدللہ۔ آپ سوچیں گی کہ اسکول کا کام کب ہوتا ہوگا؟ تو جناب ہم نے چار جماعتیں گھر میں پڑھنے کے بعد سیدھے پانچویں جماعت میں داخلہ لیا تھا اور وظیفہ یعنی اسکالرشپ پاکر چھٹی میں گئے تھے۔ لہٰذا وقت ہمارے پاس بہت تھا۔ ادب سے لگائو بچوں کے رسالوں نے شاید پیدا کردیا تھا۔ وراثت میں نہیں، بس اللہ کی رحمت سے دوچار حروف لکھنے آگئے ہیں۔

س: آپ کے ادبی سفر کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

ج: یہ تو شاید میں بھی نہیں جانتی۔ آٹھویں کلاس میں تھی جب بھائی جان خضر کی شادی ہوئی۔ اُن سے بڑے بھائی جو ڈاکٹر تھے، ان کی شادی پہ میری عمر چار سال ہوگی۔ اب آٹھویں میں جب بھابھی کو دیکھا… خوب صورت لباس، زیورات، سرخی پائوڈر لگا ہوا تو مجھے بہت پیاری لگیں اور ولیمے سے اگلے دن میں نے دو، تین شعر جوڑ لیے۔ نہ جانے وہ کیسے تھے مگر مجھے ابھی تک نہیں بھولے:

بڑی بھولی بھالی ہیں بھابھی ہماری
صورت ہے ان کی بہت ہی پیاری
جو کرتی ہیں باتیں تو جھڑتے ہیں پھول
اگر مسکرائیں تو کھلتے ہیں پھول
پیاری سی بھابھی کا پیارا ہے نام
خوش و خرم رہنا، یاسمین کا ہے کام

بس اسے آپ جو نام دے لیں۔ پَر کالج جاکر ایک، دو بلکہ شاید چار پانچ مزاحیہ نظمیں لکھیں۔ پھر یونیورسٹی میں کبھی کبھار کوئی مضمون لکھ لیا۔

س: ایک لکھاری میں کن خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے؟ بطور لکھاری ایک قلم کار پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟

ج: لکھاری ایک مقرر، خطیب، واعظ یا استاد سے زیادہ وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ مندرجہ بالا قابلِ احترام پیشوں کے حامل افراد بیک وقت دس، بیس ہزار افراد تک پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ آج آئی ٹی کے دور میں سامعین کے حلقے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ہمارے اسلاف کی کتب سے اب تک لوگ روشنی حاصل کررہے ہیں۔ یہ بڑے مرتبے کی بات ہے۔ قلم کار میں سچائی، دیانت، حُبِّ دین، وسیع مطالعہ، خوب صورت اندازِ تحریر اور احساسِ ذمہ داری ہونا چاہیے، کہ ہماے ہر عمل، ہر گفتگو اور ہر لکھے لفظ کا حساب ہوگا۔ ایک قلم کار پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جس چیز کی اللہ علیم و خبیر نے قسم کھائی ہے وہ قلم اِدھر اُدھر کی نہیں ہانک سکتا۔ مومن کی زندگی یہاں عمل ہے تو آخرت اس عمل کی جزا کا دن ہے۔ تو پھر ہم قلم سے بے مقصد کام کیسے لے سکتے ہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قلم سے وہ ادب تخلیق کرنا چاہیے جو زندگی آموز ہو، اور… زندگی بے بندگی، شرمندگی۔

س: انسان کی تخلیق اس کے کردارکی آئینہ دار ہوتی ہے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؟

ج: بالکل درست فرمایا آپ نے، سو فیصد اتفاق کرتی ہوں۔ انسان کے اندر جو ہوتا ہے وہی باہر آتا ہے۔ یادوں کی بارات اور نسیم حجازی کے تاریخی ناول اپنے اپنے مصنفین کے کردار ہی کے آئینہ دار ہیں۔

س: آپ کی پسندیدہ صنف کون سی ہے؟ اور اب تک کن کن اصناف میں لکھ چکی ہیں؟

ج: میری پسندیدہ صنفف طنز و مزاح ہے، اس میں ایک کتاب آچکی ہے ’’شگفتہ شگفتہ‘‘۔ ویسے کالم نگاری بھی خاصی کی ہے۔ روزنامہ ’’انصاف‘‘ اور ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ میں ’’دستک‘‘ کے زیر عنوان، ’’بتول‘‘ اور ’’عفت‘‘ میں ’’چلتے چلتے‘‘ کے عنوا ن سے افسانے بھی لکھے ہیں، مضامین بھی۔ ڈرامے اور ناول کا کبھی نہیں سوچا۔

س: ادبی سفر میں کس قسم کی مشکلات پیش آئیں؟

ج: کچھ بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ میرے مضامین ’’نوائے وقت‘‘ میں پہلے پہل شائع ہوتے رہے۔ میرے ڈائریکٹر سرفراز حسین مرزا کہا کرتے تھے کہ میں مجید نظامی صاحب کے آفس میں جاتا رہتا ہوں، وہاں لوگوں کے مسودے یوں پھینکے جاتے ہیں، جب کہ آپ کے مضامین کا ایک فقرہ تک نہیں کاٹا جاتا۔ یہ سب اللہ ہی کا فضل و کرم ہے۔ کچھ لوگ اپنی تحریر کو بار بار لکھتے ہیں، کاٹتے ہیں پھر لکھتے ہیں۔ میں پہلی ہی بار صفحے پر لکھنے لگ جاتی ہوں جیسے کسی کو خط لکھا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کی رحمت ہے۔

س: آپ کی تحریر کو حلقۂ احباب میں کس قسم کا رسپانس ملتا ہے؟

ج: یہ سوال تو میرے قارئین سے کریں، میں کیا کہہ سکتی ہوں! لگتا تو ہے کہ کافی پسند کرتے ہیں، ایوارڈز بھی بہت مل چکے ہیں۔

س: ادبی سفر میں فیملی کی جانب سے کس قدر تعاون رہا؟

ج: جب میں لکھنے لکھانے لگی تب والدین فوت ہوچکے تھے۔ لازمی بات ہے وہ بہت خوش ہوتے۔ میری تحریریں پڑھتے، تبصرہ کرتے، دعائیں دیتے۔ میں نے زیادہ لکھنا شادی کے بعد شروع کیا۔ چنانچہ میاں صاحب کو دکھانا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ رفیقِ حیات میرے رفیقِ تحریر نہ بن سکے۔ ان میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن بے ادب تھے، یعنی کتاب قلم سے دور۔ پہلے پہل ایک مضمون لکھ کر انہیں دکھایا کہ پڑھ کر رائے دیں۔ انہوں نے پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی کرنسی نوٹوں کی طرح صفحات گنے اور واپس دیتے ہوئے کہا ’’شاباش بہت اچھا لکھا ہے‘‘۔ ظاہر ہے دل جل ہی تو گیا۔ پھر کبھی اُن کے آگے اپنی کوئی تحریر نہیں رکھی۔ ویسے جب اُن کے دوست انہیں فون کرتے کہ آج نوائے وقت میں بھابھی کا مضمون پڑھا ہے، بہت اچھا لکھا ہے تو پھر گھر آکر مسکراتے ہوئے یہ بات بتاتے۔

س: اب تک کتنے ایوارڈ، اسناد، انعامات حاصل کرچکی ہیں؟

ج: میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے لکھتی ہوں۔ بچوں کی کئی کتب پر انعامات و ایوارڈ مل چکے ہیں۔ مثال کے طور پر نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کی طرف سے درج ذیل کتب کو انعامات و اسناد مل چکی ہیں: ہنیا کی سالگرہ، ہمارے قائداعظمُ… اور پاکستان بن گیا، ہمارے علامہ اقبال کو 2009ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سیرت مقالہ نگاری میں عالمی مقابلے میں دوسرے انعام کی حق دار ٹھیری تھی سیرت کانفرنس میں۔

پنجاب میں ایک سال میرا مقالہ اوّل انعام کا حق دار ٹھیرا۔ دعوۃ اکیڈمی شعبۂ بچوں کا ادب سے کئی کہانیوں کو انعامات مل چکے ہیں۔ ہفت روزہ ’’بچوں کا اسلام‘‘ میں میری ایک کہانی انعامی مقابلے میں اوّل آئی تھی۔ یہ سب اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔

س: اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔ تعلیم، فیملی کے افراد، شادی شدہ یا غیر شادی شدہ وغیرہ۔

ج: ’’کیا سنائیں ہم تمہیں اس زندگی کی داستاں، کبھی مشکل سے باہر اور کبھی مشکل میں ہے‘‘

شہر اقبال میں آنکھ کھولی، اسی لیے شاید ہم شہر ہونے کی وجہ سے اقبال بچپن سے پسندیدہ شاعر ٹھیرے۔ پرائمری تعلیم ملتان کے نواں شہر اسکول سے، بی اے سیالکوٹ ویمن ڈگری کالج سے، اور پھر ایم اے کرنے کے لیے جو پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا تو پھر تادم لاہور میں ہیں۔ رزلٹ کے تین ماہ بعد جامعہ پنجاب کے ایک شعبے میں ملازمت مل گئی۔ پھر شادی، بچے، اپنا گھر سب کچھ لاہور میں ہی ہوگیا۔

تعلیم کے حوالے سے دو ایم اے، دو سالہ ڈپلومہ کورس عربی زبان اور دو سالہ ڈپلومہ کورس ہندی زبان کر رکھا ہے۔ مطالعے کا مرض لگا ہوا ہے۔ اسکول کے زمانے میں چاندنی رات میں پورا ایک ناول پڑھ کر فجر کی اذان کے وقت سوئی تھی۔ یہ ناول آپا کالج کی لائبریری سے لائی تھیں اور مجھے تب ناول پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اسی طرح ایف اے کے بورڈ کے امتحانات دینے کے بعد میں نے گھر آکر (دسویں کلاس سے میں ہاسٹل چلی گئی تھی) ایک دن فہرست بنائی کہ اب تک بھلا کتنے ناول، کتابیں اور افسانوی مجموعے پڑھ چکی ہوں، تو سو کی تعداد پوری ہونے پر آگے لکھنا چھوڑ دیا۔ سینچری جو پوری کر لی تھی۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ ان کے بھی بچے ہیں۔ الحمدللہ۔

س: اپنے مشاغل اور مصروفیات کے بارے میں بتائیں۔

ج: ساتویں کلاس میں اردو ادب کے پرچے میں ایک مضمون لکھا تھا ’’میرا پسندیدہ مشغلہ‘‘، اس میں مطالعے کو مشغلہ قرار دیا تھا۔ میری استادِ محترم نے پوری کلاس کے سامنے یہ مضمون پڑھ کر سنایا تھا اس فقرے کے ساتھ کہ ’’دیکھو بچو! مضمون اس طرح لکھتے ہیں۔‘‘

سو اسکول کے زمانے سے انتخاب کردہ مشغلے میں قطعاً فرق نہیں آیا۔ کتاب سے دوستی جاری و ساری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب پڑھنے کا وافر وقت نہیں ملتا۔ کچھ لکھنے لکھانے میں، کچھ خدمتِ خلق میں لگ جاتا ہے کہ یہ ہمارا ایک دوسرا مرض ہے۔ کسی شاعر نے یہ شعر شاید ہمارے لیے ہی کہا ہے:

اس نے میرے کمرے کو سجانے کی تمنا کی ہے
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

رہ گئیں مصروفیات، تو وہ بے پناہ ہیں اور مصروف رہنا اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اللہ کا ہزارہا شکر ہے کہ اپنا کوئی دن سوتے ہوئے یا بے کاری میں نہیں گزرتا۔

س: آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں؟

ج: اللہ رحمن و رحیم کا ہزارہا شکر ہے کہ اب تک میری 21 کتب منظر عام پر چکی ہیں، دو کتب تیاری اور پرنٹنگ کے مرحلے میں ہیں۔ بچوں کے لیے نظمیں بھی کتابی شکل میں آنے کی منتظر ہیں۔

س: آپ کو صاحبِ کتاب بننے کا خیال کیسے آیا؟

ج: مزے کا سوال ہے بھئی! جب کوئی لکھے گا تو پھر کتابی شکل میں محفوظ تو ہوگا نا۔ خیال یوں آیا اور پہلی کتاب کی ابتدا یوں ہوئی کہ میری بیٹی ماریہ انور جو دوسری یا تیسری کلاس میں تھی، ایک دن اسکول سے آکر کہنے لگی ’’مجھے صفائی پر تقریر کرنے کے لیے استاد صاحبہ نے کہا ہے۔ آپ لکھ دیں، میں یاد کر لوں گی۔‘‘

مجھے اپنے بچوں کا ہم نصابی کاموں میں حصہ لینا بہت اچھا لگتا تھا۔ میرے بیٹے محمد علی انور نے آٹھویں کلاس میں الحمرا ہال میں منعقدہ سالانہ تقریب میں تلاوتِ قرآن پاک کی تھی اور چھوٹے بیٹے احمد علی انور نے غالباً آٹھویں یا نویں جماعت میں وزیر تعلیم کا کردار ادا کیا تھا ایک ڈرامے میں۔ یہ تقریب بھی الحمرا ہال میں ہوئی تھی۔ ہاں تو ماریہ کو تقریر لکھ کر اسے یاد بھی کروا دی۔ پھر خیال آیا کہ یہ تقریر مضمون کی شکل میں ماہنامہ ’’نور‘‘ کو بھیج دی جائے۔ اس سے اگلے ماہ اخلاقی پہلو پر ایک اور مضمون لکھ کر بھیج دیا۔ اس طرح پورا سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن خیال آیا کہ کیوں نا دعوۃ اکیڈمی شعبۂ بچوں کا ادب اسلام آباد سے اسے کتابی شکل دینے کے لیے رابطہ کیا جائے۔ انہوں نی مسودہ منگوا بھیجا۔ پھر کچھ ماہ بعد ’’بارہ موتی‘‘ کے نام سے ایک خوب صورت کتاب میرے ہاتھوں میں تھی۔ اِس سال اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن آیا ہے اور مجموعی طور پر 6 ہزار کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ماہنامہ ’’بتول‘‘ میں دس سال تک میرا مزاحیہ، سیاسی اور ادبی کالم ’’چلتے چلتے‘‘ کے عنوان سے آتا رہا۔ پھر اگلے دو سال ماہنامہ ’’عفت‘‘ میں شائع ہوتا رہا۔ ان کالموں پر مشتمل کتاب ’’چلتے چلتے‘‘ کے نام سے دوسری مرتبہ شائع ہوئی ہے۔ یہ خبروں پر تبصرے ہیں، اور ہر خبر کا تبصرہ ایک شعر پہ ختم ہوتا ہے۔ گویا ہماری سیاست و معاشرت پر شگفتہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور لیڈرانِِ کرام کی عمدہ سیاست کی خوب خبر لی گئی ہے۔ اس طرح کتابیں لکھنے کا اور شائع کروانے کا سلسلہ چلتا رہا۔

س: آپ بڑوں کے ساتھ ساتھج: الحمدللہ مجھے کبھی مشکل نہیں لگا۔ دراصل مجھے باتیں کرنے والے یعنی تین، چار سال کی عمر کے بچوں سے بہت محبت ہے۔ بہت چھوٹے بچے مجھے سنبھالنے، اٹھانے نہیں آتے۔ تو میں نے اپنے بچپن میں جیسی کہانیاں پڑھنا پسند کی تھیں اب ویسی ہی لکھتی بھی ہوں۔ مجھے سن، تاریخ والے مضمون اچھے نہیں لگتے تھے۔ جنوں، بھوتوں کی کہانیاں سخت بچوں کے ادب میں اچھا اضافہ کررہی ہیں، کیا بچوں کے لیے لکھنا مشکل نہیں ہوتا؟

ناپسند تھیں۔ میں نے ان پر کبھی نہیں لکھا۔ میں تعمیری سوچ، عمدہ اخلاق، شگفتہ لہجے میں کام کی باتیں بچوں کے گوش گزار کرتی ہوں۔ میرا بچوں کا ادب ان کے والدین اور بڑے بہن بھائی بھی نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ سب اللہ کا احسان ہے، اسی کی عطا ہے۔

س: ایک لکھاری کے لیے صاحبِ کتاب ہونا کتنا ضروری ہے؟

ج: ضروری…؟ ضروری تو میرا خیال ہے کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے ایمان لانے اور اللہ کی ماننے کے۔ اس پہ ایک شعر یاد آگیا ہے:

وہ مجھے چھوڑ گیا تو خیال آیا
کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لیے

تو بھئی کسی لکھاری کے لیے صاحبِ کتاب ہونا بھی کچھ ضروری ہونے لگا؟ وہ لکھتا جائے، کاغذ اڑاتا جائے… بچے ان کاغذوں سے کشتی بناکر بارش کے پانی میں یا نزدیکی ندی نالے میں بہاتے جائیں۔ ہاں اگر کام کا لکھاری ہے یعنی اچھا لکھنے والا ہے تو اُسے اپنی تخلیقات کو محفوظ تو کرنا پڑے گا، اور تحریر کو محفوظ کرنے یا رکھنے کا ایک بہترین طریقہ کتابی شکل دینا ہے تاکہ اس سے برسہا برس تک آنے والے لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔

ہماری ایک عالم فاضل لکھاری سہیلی ہیں، وہ بہت سال اپنی ایک آدھ تحریر کو پمفلٹ کی شکل میں چھپوا کر ڈھیر لگاتی رہیں۔ ہم نے بہت سمجھایا کہ ان پمفلٹ نما کاغذوں کو الماری میں ترتیب دینا مشکل ہوتا ہے، کتابی شکل میں اپنا فن محفوظ کریں۔ مگر وہ نہ مانیں۔ اب انہی پمفلٹس کو کتابی شکل دینے میں مصروف ہیں جو بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے گراں قیمت اور گراں بار ہیں۔ آپا نیر بانو ’’سیارہ‘‘ کے بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے کہا کرتی تھیں کہ نعیم صدیقی صاحب سے کہیں کہ اتنا موٹا پرچہ نہ نکالا کریں، یہ تو رحل پر رکھ کر پڑھنے والا ہے۔

س: آپ کے خیال میں دورِ حاضر میں کتب فروخت ہوتی ہیں؟

ج: ہوتی ہیں مگر پہلے جیسا ذوق و شوق نہیں رہا۔ لیکن جس طرح سچے انسان ہر دور میں رہے ہیں اسی طرح کتاب کا ذوق رکھنے والے بھی ہر دور میں رہے ہیں اور اِن شاء اللہ رہیں گے۔ سنجیدہ اور فہمیدہ والدین ابھی بھی بچوں کا کتاب سے تعلق بنانے کے لیے کتاب خرید کر انہیں پڑھنے کے لیے دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک شخص نے رابطہ کیا تھا کہ میں تعلیم سے فارغ ہوکر معاش کے میدان میں قدم رکھ رہا ہوں، اس کے لیے اپنے شہر میں کتابوں کی ایک دکان کھولنا چاہتا ہوں، آپ اپنی کتابوں کے حوالے سے میرے ساتھ تعاون فرمایئے گا۔ میں نے انہیں حوصلہ افزا اور امید افزا جواب دیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ کتب کی فروخت متاثر تو ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔

س: کن موضوعات پر آپ لکھنا پسند کرتی ہیں؟

ج: مجھے اصلاحِ احوال، اصلاحِ معاشرہ اور دینی موضوعات پر قلم اٹھانا پسند ہے۔ ویسے سوانح عمری پڑھنے کا بھی اپنا لطف ہے اور بچوں کے لیے ان پر لکھنا بھی اچھا لگتا ہے۔ جیسے میری ’’اسلام کے چمکتے ستارے‘‘ نام کی کتاب کے دو حصے ہیں۔ محمد بن قاسم اور دوسری کئی اہم شخصیات پر لکھا ہے۔ میرا ایک بیٹا اس سلسلے کو مزید بڑھانے کا کہتا رہتا ہے مگر پھر کوئی اور کام درمیان میں نکل آتا ہے۔

بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کا بھی شوق ہے۔ ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’نور‘‘ اور ’’پھول‘‘ وغیرہ میں نظم لکھ کر بھیج دیتی ہوں کبھی۔ ستمبر 2023ء کے تعلیم و تربیت میں میری تین نظمیں شائع ہوئی ہیں۔

س: آگے کیا کیا لکھنے کے ارادے ہیں؟

ج: آگے کا حال تو اللہ قادرِمطلق ہی جانتا ہے۔ شام قریب ہے۔ زندگی نے وفا کی تو یادِ رفتگاں کے سلسلے میں بہت سی پیاری ہستیوں پہ تعزیتی مضامین لکھنے ہیں۔ آپا جی بنتِ الاسلام، بیگم میاں طفیل محمد، بیگم اسعد گیلانی، محترمہ اسماء مودودی، آپا جی رشیدہ قطب اور بہت سے لوگ۔ ان سب کو ایک کتاب میں محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ کچھ لکھا جائے گا تو کچھ اور کتابیں شاید آجائیں۔ دو کتابیں تو تیاری کے مراحل میں ہیں۔ بڑوں کے لیے افسانے، کہانیاں اور بچوں کے لیے صحابہ کرامؓ سے متعلق کوئی عمدہ چیز پیش کرنا چاہتی ہوں، اللہ کے اِذن سے۔

س: آپ زندگی کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

ج: اسلام کی نظر سے۔ آخرت کی نظر سے۔ یہ دنیا محض تفریح گاہ تو نہیں کہ من چاہی چیز چگ لی۔ عیش و آرام میں گزار دی… نہیں یہ زندگی، یہ شب و روز… انہیں بنیاد بنانا ہے فلاحِِ آخرت کی۔ گویا زندگی اعمالِ حسنہ کے نام ہے، اور آخرت ان اعمال کی جزا کا، وہ بھی جو احکم الحاکمین چاہے گا۔ یہاں ہم نے اخلاصِ نیت سے بونا ہے اور وہاں اسی بوئے کے مطابق کاٹنا ہے۔

س: کہتے ہیں یہ صدی کتاب کی آخری صدی ہے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟

ج: کہنے کو لوگ کیا کچھ نہیں کہتے! اتنی حتمی بات انسان کیسے کرسکتا ہے! محض اندازوں کے بل پر بولتا رہتا ہے۔ میرے خیال میں کتاب نابود نہیں ہوگی، پھر لوٹ کر انسان اسی میں پناہ ڈھونڈے گا۔ اگلے دور کا تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔

س: زندگی کی کوئی حسین یاد جو آپ فراموش نہ کرسکی ہوں؟

ج: یاد… یادیں نہیں۔ بھئی! یہ تو ذرا مشکل سوال ہے۔ ہاں ایک یاد جو سب پہ بھاری ہے اچانک اس کی یاد آگئی ہے۔ حج بیت اللہ کا کب سے شوق تھا، جو بھی میرے حلقۂ تعلق سے یہ سعادت حاصل کر آتا اُس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر وہاں کا احوال سنا کرتی۔ اگلے گھر رخصتی ہوگئی، اب رفیقِِ حیات بے ادب تو تھے ہی، دین سے بھی… یہ ایک الگ داستانِِ جہاد ہے میری، جس میں رحمن و رحیم اللہ نے مجھے ہی سرخرو کیا اور کامیابی عطا کی۔

ہاں تو میری خواہش تھی کہ انور صاحب ازخود حج پہ جانے کا کہیں۔ میرے کہنے پر مان تو جاتے لیکن مجھے دلی خوشی نہ ہوتی۔ بس اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ آخر 1995ء کے موسمِ بہار میں انہوں نے مژدۂ بہار سنا ہی دیا یہ پوچھ کر کہ ’’فرزانہ اس سال حج کر آئیں…؟ بچے رہ جائیں گے ہمارے بغیر؟‘‘

’’ضرور… ضرور… بچوں کو چھوڑیں، ان کا میں بہترین انتظام کر جائوں گی۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ حج پہ جانے والے کے بچوں کو خوب خوش رکھتا ہے۔ بہت سارے بچوں کو میں نے دیکھا ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے انہیں اطمینان دلایا۔ پھر یوں ہوا کہ 30 اپریل کو ہم احرام باندھے ائرپورٹ کی طرف جارہے تھے۔ عین 30 اپریل 1994ء کو میری والدہ کا انتقال ہوا تھا اور میں اللہ رب کریم کی رحمت پر شکر گزار تھی کہ اتنے بڑے دکھ کے پورے ایک سال بعد اتنا خوب صورت ازالہ۔ سبحان اللہ۔

س: پسندیدہ مصنف یا مصنفہ؟

ج: کسی ایک کا بتانا تو مشکل ہے۔ اتنے پیارے لکھاری گزرے ہیں، البتہ نعیم صدیقی صاحب کی شاعری اور نثر دونوں بہت پسند ہیں۔ اسی طرح ابوالحسن علی ندوی کی نثر بہت خوب ہے۔

س: لکھنے والوں کو کوئی پیغام دیں گی؟

ج: ہم کون ہوتے ہیں پیغام دینے والے! پیغام سننے، سمجھنے اور عمل کرنے کی نیت ہو تو قرآن و حدیث کی شکل میں کیا ہی پیغام موجود ہے۔ زندگی آموز، زندگی آمیز، زندگی بخش پیغام۔ اپنے قلم سے کوئی بھی ایسی تحریر نہ لکھیں جس پر کل شرم سار ہونا پڑے۔ اپنے قلم سے اخلاص و وفا کے پھول کھلائیں۔ اسے اپنے لیے صدقۂ جاریہ بنائیں۔

س: آخری سوال، قاری کو کیا پیغام دیں گی؟

ج: صرف ایک درخواست کروں گی بچوں سے بھی اور بڑوں سے بھی کہ حیا کو اپنا لیں۔ حیا سے بولیں، چلیں پھریں، حیا سے ملیں… حیا آمیز ادب پڑھیں، کہ جس چیز میں حیا ہوتی ہے اسے خوب صورت بنا دیتی ہے۔ تو پیارے قارئین! کیا آپ خوب صورت بننا نہیں چاہتے؟

حصہ