پربت کی رانی قسط6

215

صبح صادق کے ہوتے ہوتے فضا کافی حد تک بہتر ہو چکی تھی لیکن امکان یہی تھا کہ دن نکل آنے پر دوبارہ گرمی بڑھ جائے گی لیکن گرمی کے دوران کا یہ سفر ایئر کنڈیشن جیپوں میں ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی پریشانی کا سبب نہیں بن سکے گا۔
اگلا پڑاؤ جس مقام پر ہوا اس کو بھی پچھلے مقام کی طرح آراستہ کیا گیا تھا۔ اس سے اگلا اسٹیشن وہ مقام ہی تھا جہاں جانے کے احکامات انسپکٹر حیدر علی کو ملے تھے اور اس کا فاصلہ یہاں سے کوئی 50 کلو میٹر کا تھا۔ جہاں پڑاؤ ڈالا گیا تھا یہ ایک پہاڑ کا دامن تھا۔ اس سے قبل جو بھی راستہ تھا وہ تقریباً ہموار ہی تھا البتہ نہایت دشوار گزار ضرور تھا جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ سب لوگ جہاں جہاں سے بھی گزرے تھے وہ کوئی روایتی راستہ نہیں تھا۔ دراصل یہ ایک برسات کے پانی کی گزرگاہ تھی۔ کیونکہ فی الحال محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق آنے والے دس بارہ دنوں تک اس علاقے میں بارش کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے یہاں سے سفر کرنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
اس مقام پر بھی انسپکٹر حیدر علی نے جمال اور کمال سے کچھ اہم باتیں کی تھیں جس میں یہ بات بھی شامل تھی اس بات کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا جائے کہ آخر یہاں آنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد واپس جانے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوتی۔ یہ بات یوں بھی تشویشناک تھی کہ اس طرح تو یہاں دن بدن آبادی کا اضافہ ہوتا جائے گا اور اگر اس میں کوئی دشمن ملک ملوث ہوا تو اور بھی غور طلب بات ہوگی۔ جب یہاں پر آنے کے بعد آنے والے ذہنی طور پر واپسی کا نام ہی نہیں لینا چاہتے تو اس بات کا کیا بھروسہ کہ کل یہی سارے افراد ذہنی طور پر کوئی بھی غلط سے غلط کام کرنے پر مجبور ہو جائیں اور ہمارے ملک کے خلاف ایک الگ محاذ کھول بیٹھیں۔ جمال اور کمال نے کہا کہ انکل ہم اس بات پر پہلے ہی بہت غور کر چکے ہیں اور اس بات کو ٹھان کر بیٹھے ہیں کہ یہاں پربت کی رانی کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی حقیقت تک پہنچ سکیں۔ کوشش ہماری ہے باقی تو سب کچھ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمیں کامیابی ملتی ہے یا پھر ہم سب بھی (خدا نخواستہ) یہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اگلی صبح کا سفر 3 گھنٹے کی مسافت کے بعد ہی ختم ہو گیا تھا۔ تمام جیپیں ایک بلند پہاڑ کی چوٹی کے قریب روک لی گئی تھیں۔ یہاں بھی ایک چھوٹا سا سیٹ اپ بنا ہوا تھا۔ ایسے تمام افراد جو بنا فیملی تھے، انھیں یہیں قیام کرنا تھا جبکہ تین جیپوں میں چار فیملیاں آگے جا سکتی تھیں۔ پربت کی رانی کے علاقے کے قانون کے مطابق صرف فیملی والے ہی اس مقام پر جا سکتے تھے جس پر اس کی (غیر قانونی) حکمرانی تھی۔ اس میں کیا راز پوشیدہ تھا، اس کا کھوج لگانا بھی بے حد ضروری تھا۔
انسپکٹر حیدر علی نے جمال اور کمال کو اچھی طرح یہ بات سمجھا دی تھی کہ فی الحال یہاں انھیں اور جمال اور کمال کو بھیجنے کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کر سکیں کہ وہ فیملیاں جو ایک بار آ جاتی ہیں، لوٹ کر جانا کیوں پسند نہیں کرتیں نیز یہ کہ پربت کی رانی یہاں ایسا کیا کر رہی ہے جس کی وجہ سے جو بھی یہاں پہنچ جاتا ہے، وہ اسی کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ یہ معلومات ہمیں بہر صورت حساس اداروں تک پہنچانی ہیں اور وہاں سے لوٹ آنا ہے۔
جن چار فیملیوں کو مطلوبہ مقام تک روانہ ہونا تھا ان میں انسپکٹر حیدر علی کی فیملی، جمال اور کمال کی فیملی اور دو اور فیملیاں بھی شامل تھیں جن کے ساتھ کمسن بچے اور بچیاں بھی شامل تھے۔ انسپکٹر سبطین اور دیگر مدد گار عملے کو یہاں پر رک کر آگے جانے والوں کا لوٹ کر آنے تک انتظار کرنا تھا۔ یہ لوگ اس لیے بھی آگے نہیں جا سکتے تھے کہ یہ سب بنا فیملی تھے۔
آغازِ سفر سے لے کر اب تک کا سفر سخت گرمی میں گزرا تھا۔ اس لحاظ سے یہی لگتا تھا کہ نظر آنے والی بلندی پر بھی موسم گرم ہی ہوگا۔ ویسے یہاں سے پہاڑ کی چوٹی پر ہلکا ابر اور ہریالی صاف دیکھی جا سکتی تھی جو کہ ایک حیرت انگیز بات تھی کیونکہ پورے راستے انھیں چند خود رو جھاڑیوں کے علاوہ کوئی ایک بھی سایہ دار درخت یا گھاس نظر نہیں آئی تھی۔ تین جیپیں جس میں سے ایک میں دو فیملیاں تھیں، ایک میں انسپکٹر حیدر علی اور ان کی وائف اور ایک میں جمال اور کمال کے والدین تھے اوپر کی جانب رواں دواں تھیں۔ پہلی جیپ کو فیملی ممبر کے ایک صاحب ڈرائیو کر رہے تھے جبکہ انسپکٹر حیدر علی اپنی جیپ کو اور حیدر علی کے والد جمال اور کمال کی جیپ کو چلا رہے تھے۔ جمال اور کمال کو اپنے والد کی ڈرائیو کرنے کی صلاحیت کا تو بخوبی علم تھا لیکن اتنے دشوار گزار علاقے کی ایسی خطرناک ڈرائیونگ وہ پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ خوش تھے کہ ان کے والد صاحب اس معاملے میں بھی بہت طاق ہیں۔ فاصلہ کم ہونے کے باوجود بھی وہ مطلوبہ مقام کے نزدیک کوئی ایک گھنٹے کے لگ بھگ پہنچے میں کامیاب ہوئے۔ اب ہرے بھرے درختوں کے درمیان ان کی جیپیں رواں دواں تھیں۔ آسمان پر ہلکا ابر چھایا ہوا تھا اور بہت ہی باریک باریک پھوار کا احساس ہو رہا تھا۔ نیچے اور یہاں کے موسم میں بہت ہی واضح فرق ان کو حیران کئے دے رہا تھا۔ جیپوں کے اے سی بند کر دیئے گئے تھے اور گاڑیوں کے شیشے کرا دیئے گئے تھے۔ سب لوگ حیرانی سے یہ سارے مناظر دیکھ رہے تھے۔ کوئی دس منٹ بعد ایک مقام پر کچھ خوش پوش افراد نے ان کی جیپوں کو روک لیا تھا۔ یہ پہاڑ کا انتہائی بلند اور ہموار میدان تھا۔ ہر جانب ہریالی ہی ہریالی تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ سنگلاخ چٹانوں کے درمیان کوئی مقام جنت نظیر بھی ہوگا تو بے جا نہ ہوگا۔ نظروں کے سامنے ایک عبادت گاہ کی طرز کی عمارت کو صاف دیکھا جا سکتا لیکن اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس طرز کی عمارت کس مذہب کی عبادت گاہ ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)

حصہ