اسرائیلی جارحیت اور سوشل میڈیا مباحث

461

سوشل میڈیا جنگ:
آزادی کو نظریہ قرار دینے والوں کی جانب سے آزاد ی اظہار پر جبر کا عالم یہ ہے کہ کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حماس لکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ایک تو حقیقی جنگ ہے جو فلسطین و اسرائیل میں جاری ہے جس میں بم ہیں ، گولہ باری ہے۔دوسری جانب ان واقعات و لمحات کو دنیا بھر کو دکھانا بھی اب کچھ لوگوں کو ویسی جنگ جیسا ہی مزہ دے رہا ہے ۔ کئی دوستوں نے لکھا کہ اکاؤنٹ پر مختلف پابندیاں لگا دی گئی ہیں ۔حماس کے رہنما ؤں کی تقاریر شیئر کرنے پر اکاؤنٹ پابند ہو رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس سلگ کے ساتھ رپورٹ شائع کی کہ

In Israel-Hamas war, social media isn’t neutral

انٹرنیٹ کی دنیا میں مغرب یہ بیانیہ ٹھونس رہا ہے کہ جنگ اسرائیل و حماس کے مابین ہے۔حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار رے رہاہے۔ اس اہم حقیقت کو چھپا کر کہ حماس فلسطین کی حکومتی جماعت ہے۔ پھر اس کارروائی کو فلسطین کی تمام مقبول مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت ہے۔فلسطینی عوام کئی برسوں سے جاری بمباری کے باوجود بھی حماس ہی کے ساتھ ہےمگر مغربی میڈیا یہ سب حقیقت چھپا رہا ہے۔

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مستقل اپ لوڈ ہونے والا مواد دُنیا کو جنگ سمجھا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اس میں کئی وڈیو گیمز کی تیار شدہ گمراہ کن پوسٹیں بھی مقبولیت پارہی ہیں ۔ گارجین کے مطابق’’حماس کے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جنگی صورتحال والے مواد پر کارروائی کرنے پر زور دیا گیا۔اس میں ٹوئٹر کی جانب سے بھرپور رعایت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ TikTok، نے واشنگٹن پوسٹ کو تصدیق کر دی ہے کہ حماس پر اس کے پلیٹ فارم پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔فیس بک اس معاملے میں ویسے سب سے زیادہ سخت ہے ۔ ٹوئٹر ( ایکس) اور ٹیلیگرام سروس نے خاصی رعایت دی ہوئی ہے جس کا فائدہ فلسطینی مزاحمت کار بھی خوب اُٹھا رہے ہیں۔این بی سی کے مطابق ٹوئٹر ( ایکس) کے درجنوں جعلی اکاؤنٹس کا پردہ فاش ہوا جوجنگ کے بارے میں مربوط غلط معلومات پھیلا رہے تھے۔

ایکس کے مالک ایلون مسک نے جواب دیا ہے کہ ’ہماری پالیسی ہے کہ ہر چیز اوپن سورس اور شفاف ہے۔ جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں انہیں سامنے لائیں تاکہ عوام بھی دیکھیں اور ہم بھی دیکھ سکیں‘۔بہرحال یہ جیسا بھی ہے صرف اٹینشن اکانمی کا مسئلہ ہے ، کیسے زیادہ ناظرین کو جوڑ کر رکھا جائے ۔

فلسطینی مسلمانوں کی مزاحمت کو سلام :
قبلہ اول کی آزادی اور یہودیوں کا قبضہ ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں۔ اس دوران اب پہلی بار ایسا محسوس ہوا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے اسرائیل کو جو مزاحمتی رد عمل دیا گیا وہ اپنی نوعیت کا سب سے منفرد، تاریخی اور کامیاب تھا۔ لوگوں نے اس کو دوسرا نائن الیون کا نام بھی دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں یہ واقعہ اور یہودیوں کی ایک بار پھر تاریخی پٹائی پرخوب پذیرائی بھی پا گیا۔سوشل میڈیا پر مستقل ٹرینڈ لسٹ میں طوفان الاقصی،

freegaza, Israel terrorist, Gaza Underattack, AlaqsacallsArmies,Palestine underattack

سمیت مختلف ہیش ٹیگز ٹرینڈ لسٹ میں بھرے رہے۔ظاہر ہے کہ ان میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہار ہمدردی، یکجہتی ، کے ساتھ ساتھ ان کی مظلومیت اور اسرائیلی جارحیت کی فوٹیجز بھری ہوئی تھیں۔فلسطینی مسلمانوں کے جذبہ کو سب نے سراہا اور اسلامی ممالک کو غفلت سے جگانے کی کوشش کی ۔کسی نے صلاح الدین ایوبی مانگا، کسی نے مدد کی دعا کی، کسی نے انسانی حقوق کی آڑ لی ، عالمی برادری و اقوام متحدہ ،یورپی یونین کے سوکھے بیانات کو بھی خوب رگڑا دیا گیا ۔ اس سے لوگوں کو کم از کم یہ تو اندازہ ہو ہی گیاکہ یہ جو ’’ہیومن رائٹس‘‘ کا جعلی نعر ہ ہے ، وہ صرف اُن ’ ہیومن‘ کے لیے ہے جسے وہ ’ہیومن ‘سمجھتے ہیں۔آپ کو لاکھ لگے کہ آپ انسان ہیں ، مگر وہ آپ کو ’ہیومن‘ کی گنتی میں نہیں لاتے۔ کیوں نہیں لاتے یہ ہم آگے سمجھائیں گے۔یہ ضرور ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ کو اس ضمن میں کئی ایسے لوگ بھی فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں نظر آئیں گے کہ آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی۔

فلسطین پر مختلف لبرل و سیاسی موقف:
2009ء سے پاکستان سے خود ساختہ جلا وطن ہوکر امریکہ میں مقیم جاوید غامدی نے اسرائیل کے حوالے سے جو بیانیہ آیا وہ خاصا دلچسپ ہے۔ اس کو 2ماہ قبل دوبارہ اپلوڈ کیا گیا۔اعزاز سید کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے یہ بات دہرائی کہ ’عالم اسلام کو 1948 میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے تھا، اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ اِسرائیل جتنا بنا تھا وہ اُتنا ہی رہتا اور فلسطین کو اتنا نقصان نہیں اٹھانا پڑتا۔‘ اِس کی دَلیل انہوں نے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے اور قبول کرنے سے بھی دی اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ میں اُنہوں نے مسلمانوں کی دینی جذباتیت کو قرارد یا۔اُنکی گفتگو یا تحریر پڑھ کر ، نیوز بلیٹن اور سوشل میڈیا وڈیوز دیکھ کر آپ کو بھی ایسا لگے گاکہ واقعی اگر 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا جاتا تو اسرائیل پھر اُتنا ہی چھوٹا سا نقطہ رہتا ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور مقبول سیکولر بیانیہ یہ بھی تھا کہ سب کچھ حماس کی غلطی ہے ، ان کو ایسا نہیں کرنا تھا کہ سارے بے گناہ عوام کو اور پورے شہر کو آگ میں جھونک دیا گیا ۔غامدی اور سیکولر لابی کا یہ بیانیہ تاریخ سے باہر بیٹھ کر تاریخ کا تجزیہ کرنے جیسا ہے جو کہ کبھی درست نہیں ہوسکتا۔یہ باتیں کرتے وقت غامدی صاحب جان بوجھ کر یہ اہم بات بھلا دیتے ہیں کہ قیام اِسرائیل مکمل خانہ جنگی سے جنگ کے نتیجے میں اُبھرا۔اِس کے قیام کے لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کوئی تقسیم کی لکیر نہیں کھینچی تھی ۔یہ ٹھیک ہے کہ یہودیوں نے پہلے خوب زمینیں خریدیں مگر اُن کے وہاں آنے ، بسنے پر مقامی مسلمانوں سے مستقل جھڑپیں اور خانہ جنگی کا سلسلہ مستقل چلتا رہا۔یہ مزاحمت کوئی 1948 سے نہیں شروع ہوئی ، بلکہ یوں جان لیں کہ پہلے یہودی خاندان کے سکونت لینے سے شروع ہوئی تھی۔غامدی صاحب بس یہ جان لیں کہ دنیا کی تاریخ میں مزاحمت کا اصول نہیں کہ طاقتور کے سامنے سرینڈر کردیا گیا ہو۔ناحق قبضے پر خوش دلی سے سرینڈر کی کوئی مثال دنیا کی معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔اسرائیل کی بنیادوں میں جو اِستعماری فکر ہے وہ سکڑنے کے لیے نہیں تھی۔

ایک جانب یہ حال تھا تو دوسری جانب تحریک انصاف اس معاملے پر عجیب حمایت لینے کی کیفیت کا شکار نظر آئی ۔پی ٹی آئی آفیشل سے یہ ٹوئیٹ ہوئی کہ’’ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا میرا ضمیر کبھی مجھے اجازت نہیں دے گا کیونکہ فلسطین کے معاملے میں ہمیں اللہ کو جواب دینا ہے! وزیراعظم عمران خان۔‘‘ کمال بات یہ تھی کہ عمران نے دامادی کے باوجود بیان سے زیادہ کبھی کچھ نہیں کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ایسا عجیب افسوس ناک بیان دیا کہ فہم سے باہر تھا۔ انہوں نے حماس کی بھرپور حمایت کی، تعریف کی ، سراہا اور بیچ میں جملہ داغ دیا کہ فلسطینی بھائی اور مجاہدین سے درخواست ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کریں ۔ اس پر مولانا کے ناقدین نے بھی اور دیگر باشعور لوگوں نے بھی شدید رد عمل دیا۔‘ اگر آپ اپنے عقیدے کے برخلاف کسی اور کی چپل میں پیر دیں گےتو قطعاً وہ آپ کو فٹ نہیں ہوگی ۔ یہ ایسے پیش کیا جاتا ہےکہ مسلمانوں اور مغرب کا صرف انتظامی امور پر مسئلہ ہے ، کوئی انسانی حقوق ہوتے ہیں جو مغرب نے اپنے انسان کو ڈیفائن کرکے بنائے ہیں اور ہم اپنے آپ کو ایک دستخط کی وجہ سے اہل سمجھتے ہیں کہ ہم پر بھی وہ اُصول کسی شکل میں لاگو ہونگے ۔ مگر تین سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا کو یہ ساری تاریخ مدرسے میں نہ پڑھائی گئی ہو ، مگر اُنہوں نے سورۃ الحزاب، سورۃ الحشر اور سیرۃ النبی ﷺ تو پڑھی ہوگی۔ اُن کو بنو قریظہ، بنو نظیر، بنو قینقاع کیوں یاد نہیں رہے ایسی بات کرتے وقت یعنی مغرب کے جوتے میں پیر ڈالتے وقت؟ اُس کا جواب کوئی نہیں دے رہا۔

ایران ایئر سپورٹ کب دےگا؟
سوشل میڈیا پر جنگ کی گرم خبروں میں اسرائیلی جارحیت پر سعودی عرب کا ایران سے ٹیلی فونک رابطہ بلاشبہ ایک اہم قدم ہے ۔ عرب ممالک میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے،مگر امریکی غلامی کے طوق کی وجہ سے سب کی آوازیں صاف طور پر نہیں گونج پا رہیں۔ اِس وقت پوری دنیا میں حماس کا سب سے بڑا اعلانیہ سپورٹر ایران ہے ۔سب کہہ رہے ہیں کہ ایران کی مدد سے یہ حملہ ہوا ہے۔ ایرانی صدر کا حماس کے عمل کو سیلف ڈیفنس قرار دینا، زائنسٹوں کو ذمہ دار قراردینا، قابل فخر آپریشن قرار دینا اور قیادت سے ٹیلیفون پر خراج تحسین اور یہ جملے کہ’یہ جو آپ نے صیہونی مارے ہیں میں اس پر آپ کے ہاتھ چومتا ہوں، صفیں درست کریں مسجد اقصیٰ میں ساتھ نماز پڑھیں گے ۔ ‘ اَب ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہواہےکہ حماس کی اتنی زبردست کارروائی کے بعد ظاہر ہے کہ رد عمل تو آنا تھا تو اب جو صورتحال فلسطینی مسلمان جھیل رہے ہیں اُس کو ختم کرانے کے لیے کون آگے بڑھنے کا سب سے بڑا حقدار بنتا ہے؟ اَب ساری اسلامی ممالک اور اسلامی جماعتوں کو یہی کرنا چاہیے کہ وہ ایران کی ہمت بڑھائیں کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے دعوے اور ارادے کے مطابق فلسطین کو کم ازکم مضبوط ایئر سپورٹ فراہم کرے ۔یاد رکھیں کہ اب جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں یا تو آپ کے پاس امریکہ جیسی ٹیکنالوجی ہو ، ہتھیار ہوں، ساز و سامان ہوورنہ پھر کچھ بھی نہ ہو۔اس کے درمیانے درجے والا تو کبھی لڑے گا نہیں کہ اس کو ہمیشہ تباہ ہونے کا ڈر ہوگا۔وہ ہمیشہ باتیں کرے گا، اپنے سے کمزور پر ہتھیار آزمائے گا مگر اوپر کی طرف کچھ بھی نہیں کرے گا۔

Settler Colonialismسیٹلر استعماریت کو نہ بھولیں:
سیٹلر استعماریت کو سمجھے بغیر فلسطین کا مسئلہ بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ Settlerسیٹلر استعماریت تاریخ کی ایسی بدترین شکل ہے جو صرف نسل کشی پر کھڑی ہوتی ہے۔صنعتی دور کا اعلان کرنے کے بعد یورپ اپنے بنائے نظام میں پوری دنیا کوشامل کرنا چاہتا تھا ۔ دنیا تو مختلف مذاہب، ثقافتوں، معاشرت میں بستی تھی اس لیے سب کو ایک طرح سے اپنے فولڈ میں شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے لیے ہر خطے کے لیے الگ استعماری پالیسی بنی ۔اس میں سیٹلر کولونیل ازم استعماری تاریخ کی ایک اہم شکل ہے جو اپنے نفوذ میں باقی استعماری ترتیب سے مختلف نظر آتی ہے۔ سترہویں اٹھارہویں صدی سے شروع ہونے والے کولونیل ازم کی دنیا میں مختلف شکلیں رائج رہی ہیں ۔ فرانس، برطانیہ، اسپین ، پرتگال ،امریکہ ،روس سمیت سب کے استعماری ماڈل آپ کو مختلف ملیں گے۔ہندوستان میں شکل کیسی تھی؟ ہندوستان میں یہ استعمار استحصالی صورت میں مسلط رہا ۔ اِس کی شکل ایسی تھی کہ آپ کو وہ معاشی طور پر لوٹتا رہا اور یہ سب وہ آپ کے ساتھ رہ کر آپ کے علمی، ثقافتی ،سیاسی اِستحصال کے ساتھ کرتا رہا، اسکو زمین سے مطلب نہیں ہوتا ۔ 1793 پرمننٹ سیٹلمنٹ ایکٹ نافذ کرکے برطانوی استعمار نے اپنے وجود کو استحکام دیاتھا۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں ریونیو کلکٹر کو پراپرٹی کا لارڈ بنا ڈالا۔ زمینیں ان کے حوالے کرنے سے وہ کلکٹر ایک جاگیردار بن گیا ، یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ یہ سب کے سب ہمیشہ انگریزوں کے وفادار غلام ہی نظر آتے ہیں ۔

اصلی سیٹلر استعماری کون ہے؟
سیٹلر استعماری طرزمیں زمین زبردستی چھینی جاتی ہے۔ایسا کرنے پر رد عمل ختم کرنے کے لیے نسل کشی ہوتی ہے۔ فرانسسکو ڈی وٹوریا ( اسپین) سے لیکر جان لاک تک سب یہ نظریات ٹھونستے آئے ہیں کہ ’’زمین اس سے ملکیت رکھتی ہے جو اس سے سرمایہ دارانہ قدر پیدا کرے۔اس پر کھیتی باڑی کرنے والا تو قابض کہلائے گا چاہے صدیوں سے کیوں نہ ہو۔‘‘ فرانسسکو تو مشہور ہی Just War theory کی بنیاد پرہوا،جس میں اس نے جنگ کو ہر قسم کا جواز فراہم کیا۔اندازہ کرلیں کہ یہ فلسفی جب یورپ کے لیے نظام تشکیل دیں گے تو وہ کیوں کر نسل کشی سے پاک ہوگا۔ ڈرک موسز نے تو اس عنوان پر پوری کتاب لکھ ڈالی ’نسل کشی اور سیٹلر سوسائٹی ‘۔استعماری تاریخ پر اگر آج نظر ڈالیں تو آپ کو دُنیا کی سب سے وحشی، درندہ صفت،بدترین نسل کشی کرکے بننے والے ممالک میں کینیڈا،امریکہ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ارجنٹائن صف اول پر ہونگے۔دو سال قبل کینیڈا میں زیر زمین کسی اسکول کا کھنڈر و مبینہ 200لاشوں کی خبر اسی تناظر میں سامنےا ٓئی تھی کہ اس جدید ترقی کے پیچھے کتنی بڑی نسل کشی کا ماضی موجود ہے۔سیٹلر استعماریت میں ’’لاجک آف ایلیمینیشن ‘‘ ہی واحد اسٹرکچر ہوتا ہے ۔

(حوالہ:Settler Colonialism: A Theoretical Overview، لورینزو ویراسنی۔ )بس یہ جان لیں کہ اب سیٹلر استعمار کا آخری کچرہ اسرائیل ہے ۔ مگر اس کے پیچھے عوامل میں سلطنت عثمانیہ کے ریاستی ڈھانچے میں ڈھلنے سے پیدا شدہ رستے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ میں اس کا آغاز 1858 کے لینڈ کوڈ نفاذ سے سے ہوا ۔ جب سلطنت نے مزید وسائل و ٹیکسز کی خاطر زمین کی ملکیت پانے کے رستے کھول دیئے ۔ٹیکسز کے لیے روایتی طریقے کے بجائے انگریز کے بتائے طریقے اپنائے تو بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔زائنسٹ آرگنائزیشن نے خوب زمینیں خریدیں اور دھڑا دھڑ لوگ بسائے ۔ ( بحوالہ : لینڈ لیبر اینڈ اوریجن آف اسرائیلی فلسطین کنفلکٹ ۔ از گیرشن شیفر)۔ہمیں یہ نہیں بھولنا ہوگا کہ برطانیہ نے جنگ عظیم دوم کے بعد دو معاہدے کیے ایک تو حسین شریف کو مکہ دلانے اور دوسرا یہودیوں کو اسرائیل دلانے کا ۔ یہ وعدہ اُس نے پورا کرا ،بلکہ اُس کی حفاظت کے لیے آج دنیا کی تمام نسل کش سیٹلر قوتیں اُس آخری ساتھی کے ساتھ ہی کھڑی نظر آتی ہیں۔دوسری جانب مزاحمت کی ایک طویل داستان ہے ۔لوگ پوچھ رہے ہیں اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ میں صرف یہ تجزیہ کرتا ہوں کہ جو بھی نتیجہ ہو مگرمزاحمت ختم نہیں ہونی چاہیے ،مزاحمت ہی میں زندگی ہے، ایمانی حرارت بھی اور تصور غلبہ دین بھی ۔

حصہ