پربت کی رانی قسط5

226

جمال اور کمال انسپکٹر حیدر علی کی باتوں کو بہت غور اور حیرت کے ساتھ سن رہے تھے۔ درمیان میں کوئی سوال اس لیے نہیں اٹھائے کہ انھیں اپنے ذہن میں ابھرنے والے ہر سوال کا جواب ملتا جا رہا تھا۔

جمال نے کہا کہ انکل! ویسے تو ہمیں اپنے ذہن میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب مل چکا ہے، بس آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا پولیس کے محکمے کے کچھ افراد اپنی فیملیوں سمیت یہاں آچکے ہیں اور یہ بھی کہ جو یہاں آئے ہیں کیا وہ سب کے سب لوٹ بھی گئے ہیں یا وہ یہیں رکے رہ گئے ہیں۔

انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ تم یہ سوال ضرور اٹھاؤ گے۔ تشویش کی بات یہی ہے کہ یہاں جو جو افراد بھی جس جس محکمے سے یہاں آئے تھے وہ آج تک واپس نہیں جا سکے۔ پولیس کے محکمے سمیت سارے اہم محکمے پہلے تو یہی سمجھتے رہے کہ شاید یہ سب افراد اغوا برائے تاوان کے سلسلے میں دہشتگردوں نے اٹھا لیے ہوں لیکن ایک تو طویل عرصے تک کسی جانب سے کوئی مطالبہ نہ آنا پھر پورے پورے خاندان ہی کا غائب ہوجانا بہت عجیب اور حیران کن بات تھی دوئم یہ کہ کہیں سے کسی کا مردہ جسم بھی نہ ملنا بھی ایک معما سا بن گیا۔ جب غیر ملکی ذرائع سے اس علاقے کی خبر نشر ہوئی تو ہمارے ایک انسپکٹر جن کا نام سبطین ہے، وہ اپنی فیملی کے ساتھ اس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور بقول ان کے وہ صرف ایک رات گزار کر واپس آ گئے۔ اس ایک رات میں انھیں دوچار اہم آفیسروں کی شکلیں نظر آئیں جن کو انھوں نے وہاں بہت ہی خوش و خرم اور مطمئن پایا۔ ان میں سے ایک فرد سے واپس جانے کے متعلق پوچھا تو اسے اس کا جواب سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے کہا کہ کیا کوئی جنت چھوڑ کر جہنم میں جانا پسند کر سکتا ہے۔

انکل کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری جیپ جو فرد ڈرائیو کر رہے تھے وہ انسپکٹر سبطین ہی تھے۔ یہ بات سن کر جیسے انسپکٹر حیدر علی سکتے کے عالم میں آ گئے۔ کہنے لگے کہ تم نے انھیں کیسے پہچانا، جبکہ وہ اعلیٰ قسم کے میک اپ میں تھے اور میری یاد داشت کے مطابق میں نے تم سے انھیں کبھی ملوایا بھی نہیں۔

انکل آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے انسپکٹر سبطین سے ہمیں کبھی نہیں ملوایا تھا لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ آپ نے ایک کیس کے سلسلے میں انسپکٹر لہرسپ سے ملنے کے لیے کہا تھا۔ وہیں انسپکٹر سبطین سے ایک دو لمحے کی ملاقات ہوئی تھی۔ بے شک وہ بہت اعلیٰ میک اپ میں ہیں لیکن وہ اپنی کچھ عادات اور آنکھوں کی بناوٹ کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کو اپنے ساتھ دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم محض تفریحی مہم پر نہیں جا رہے ہیں۔

انسپکٹر حیدر علی کا حیرت اور خوشی سے جیسے برا حال تھا، میرے محکمے کے اعلیٰ حکام نے واقعی تم دونوں کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ بہت ہی سوچ سمجھ کر کیا ہوگا۔ ہاں وہ انسپکٹر سبطین ہی ہیں اور وہ ہی ایک ایسے فرد ہیں جو واپس آنے میں کامیاب ہو سکے تھے شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گئے ہی اس نیت سے تھے وہاں کے حالات کی معلومات جمع کر سکیں۔

انکل ایک سوال اور اور وہ یہ ہے کہ آپ نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس کی رائے آپ کو کس نے دی تھی۔

یہ رائے کسی نے بھی نہیں دی تھی بلکہ اس راستے کو اختیار کرنے کا حکم انٹیلی جنٹنس ادارے کی جانب سے ملا تھا، انسپکٹر حیدر علی نے جواب میں کہا۔ ممکن ہے کہ جو افراد ہمارے لیے راستے کی آسانیاں فراہم کر رہے ہیں ان کا تعلق خفیہ سے ہو کیونکہ میں اپنے ادارے کے سارے افراد سے تو واقف نہیں۔ بہر حال جہاں ہمیں جانا ہے وہاں آپس میں اگر کوئی مشورہ بھی کرنا ہو تو بہت دیکھ بھال اور ہر قسم کا جائزہ لینے کے بعد ہی کرنا ہوگا ورنہ اپنے تئیں خود کوئی مناسب قدم اٹھانا ہوگا۔

پوری رات بہت ہی پر سکون انداز اور بھرپور نیند کے ساتھ گزری تھی۔ گرمی کے باوجود خیمے اندر کے ماحول کو ٹھنڈا کئے رہے۔ اہلکار وقفے وقفے سے پانی کی پھواروں سے خیموں کو گیلا کرتے رہے اور گرم و خشک ہوا کے جھونکے عمل تبخیر کے ذریعے اندر کی فضا کو خنکی پہنچاتے رہے۔ (جاری ہے)

حصہ