قیصروکسریٰ قسط(122)

301

فسطنیہ نے کہا۔ ’’راہبہ بننے کا ارادہ توڑنے کے بعد میں اپنے دین کی مجرم بن چکی ہوں۔ اب میرے لیے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ تمہارا مذہب کیا ہے اور میرے نزدیک اس وقت بھی اس سوال کی کوئی اہمیت نہ تھی جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ میں صرف یہ جانتی ہوں کہ تم جو کچھ بھی ہو میرے ہو اور تمہاری موجودگی میں مجھے کوئی ڈر یہاں تک کہ کلیسا کا ڈر بھی محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن شادی کے لیے ہمیں یہاں کے قانون کے تقاضے پورے کرنے پڑیں گے۔ اس کے راہبوں کی نگاہوں سے بچنے کے لیے مجھے قسطنطنیہ چھوڑنا پڑے گا۔ انطونیہ یہ کہتی تھی کہ مجھ سے راہبہ بننے کا مطالبہ کرنے والوں کو دولت کا لالچ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کے سپہ سالار کی بیٹی کوئی بہت بڑا خزانہ اپنے ساتھ لائی ہے۔ میں اپنی ماں کی موت کے چند دن بعد اپنی ساری پونجی ایک خانقاہ کو پیش کرنا چاہتی تھی۔ لیکن انطونیہ نے میرے ہیرے اور زیورات چھین کر اپنے پاس رکھ لیے تھے اور وہ یہ کہا کرتی تھی کہ تمہاری شادی تک یہ امانت میرے پاس رہے گی۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ تم ضرور آئو گے۔ پھر میں یہ سوچا کرتی تھی کہ اگر تم واقعی واپس آگئے تو میری پونجی تمہارے کام آئے گی۔ چنانچہ ایک دن چوری چھپے خانقاہ جانے سے پہلے میں نے انطونیہ سے یہ وعدہ لیا کہ اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آگیا تو وہ میرا سرمایہ تمہارے حوالے کردے گی۔ جب میں دو دن کے لیے خانقاہ میں گئی تھی تو بشپ بار بار مجھ سے یہ کہتا تھا کہ اگر تم اپنی کوئی چیز پیچھے چھوڑ آئی ہو تو اس کا یہ مطلب ہوگا۔ تم نے ابھی تک دنیا سے اپنے تعلقات قطع نہیں کیے۔ مجھے مجبوراً یہ وعدہ کرنا پڑا کہ راہبہ بننے کا آخری حلف اٹھانے سے پہلے میں اپنی ساری پونجی یہاں لے آئوں گی۔ پھر میں وہاں سے بھاگ آئی۔ اس کے بعد وہ کئی بار کلاڈیوس کے گھر آکر مجھے ملامت کرچکا ہے۔ انطونیہ نے یہ کہہ کر بڑی مشکل سے میرا پیچھا چھڑایا تھا کہ فسطنیہ کا ایک عزیز ایرانیوں کی قید میں ہے۔ اور اس کی واپسی تک یہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ وہ انطونیہ پر بھی بہت برہم ہوتا۔ لیکن جب میں نے یہ وعدہ کیا کہ اگر عاصم زندہ واپس آگیا تو میں راہبہ بننے کا وعدہ پورا کروں گی تو اس کا غصہ جاتا رہا۔

اس کے بعد بشپ بذاتِ خود کلاڈیوس کے گھر نہیں آیا۔ لیکن وہ ہر مہینے دو تین مرتبہ ایک راہبہ کو میرے پاس ضرور بھیج دیتا ہے۔ خدا معلوم قسطنطنیہ کی دو اور خانقاہوں کے راہبوں کو میرے حالات کا کیسے علم ہوگیا کہ چند ماہ سے وہ بھی میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ہر خانقاہ کے مبلغ میرے پاس ااکر جس جوش و خروش کے ساتھ اپنے اپنے پیشوائوں کے معجزات بیان کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ وہ دوسری خانقاہوں کے راہبوں کی مذمت کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات سن کر مجھے تعجب ہوتا ہے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں آج ہی یہاں سے بھاگنے کی فکر کرنی چاہیے۔ ورنہ یہ عجب نہیں کہ قسطنطنیہ کی تمام خانقاہوں کے راہب جمع ہوجائیں اور کلاڈیوس کا گھر ان کی جنگ کا اکھاڑہ بن جائے‘‘۔

فسطنیہ نے کہا۔ ’’نہیں، تمہیں اس قدر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری شادی کی مخالفت میں کوئی طوفان نہیں اُٹھے گا۔ بشپ سائمن جو تمہارے ساتھ دست گرد گیا تھا، مجھ پر بہت مہربان ہے۔ اس کی نگاہ میں میرے والد عیسائیت کے بہت بڑے محسن تھے۔ اس نے کئی بار کلاڈیوس کے گھر آکر مجھے تسلی دی ہے کہ ایک دن وہ شہنشاہ کا تحریری فرمان لے کر آیا تھا۔ جس کی رو سے میں دمشق میں اپنے نانا کی ساری جائیداد کی وارث ہوں۔ اور اس نے مجھے یہ کہا تھا کہ اگر تم وہاں جانا چاہتی ہو تو میں تمہارے لیے جہاز کا انتظام کرسکتا ہوں۔ وہ تمہاری بھی بے حد عزت کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ان کے پاس چلے جائیں تو وہ ہماری شادی کے لیے یہ پوچھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کریں گے کہ تمہارا مذہب کیا ہے۔ لیکن راہبہ بننے کے متعلق میرے عزائم اس قدر مشہور ہوچکے ہیں کہ ہمارے لیے قسطنطنیہ میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ میں اپنے لیے نہیں، لیکن آپ کے لیے ان راہبوں کی بددعائوں سے ضرور ڈرتی ہوں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’فسطنیہ جب تک تم میرے ساتھ ہو میرے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم قسطنطنیہ میں رہتے ہیں یا دمشق میں۔ اگر سائمن زندہ ہے تو میں اس کی شرافت پر اعتماد کرسکتا ہوں۔ اب چلو۔ ہمیں شادی سے پہلے بہت کچھ کرنا ہے‘‘۔

بشپ سائمن جوڑوں میں درد کے باعث بستر پر لیٹا کراہ رہا تھا۔ ایک نوکر کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا۔ ’’مقدس باپ! چند آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔

سائمن نے جھلا کر کہا۔ ’’بیوقوف تم نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ مقدس باپ اس وقت نزع کے عالم میں ہے‘‘۔

’’جناب میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ آپ بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ آپ کو دیکھنے پر مصر ہیں میں نے انہیں ملاقات کے کمرے میں بٹھادیا ہے‘‘۔

’’خدا تمہیں غارت کرے وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں بستر پر آرام سے لیٹا ہوا ہوں‘‘۔

’’جناب میں نے انہیں یہ بھی سمجھایا تھا کہ آپ کو سخت تکلیف ہے۔ لیکن وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کا کوئی دوست جسے دست گرد میں گرفتار کیا گیا تھا واپس آگیا ہے۔ اس کا نام عاصم ہے جب میں نے یہ کہا کہ اس وقت ملاقات نہیں ہوسکتی تو وہ یہ کہتے تھے کہ اگر آپ کا دوست آپ سے ملے بغیر واپس چلا گیا تو آپ بہت خفا ہوں گے‘‘۔

سائمن نے جلدی سے اُٹھ کر اپنی لاٹھی سنبھالی اور باہر نکلتے ہوئے کہا۔ ’’خدا کی قسم! اگر وہ ملے بغیر چلا جاتا۔ تو میں تمہاری کھال اُتروا دیتا‘‘۔

وہ ملاقات کے کمرے میں داخل ہوا۔ کلاڈیوس، ولیریس اور عاصم اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ سائمن نے اپنی لاٹھی ایک طرف پھینک دی اور عاصم سے بغلگیر ہو کر کہا۔ ’’میرے لیے تمہاری آمد کی خوشی قیصر کی آمد کی خوشی سے کم نہیں۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ولیریس تمہیں اتنی جلدی واپس لے آئے گا‘‘۔

ولیریس نے کہا۔ ’’مقدس باپ یہ مجھے انطاکیہ سے چند منازل دور راستے میں مل گئے تھے‘‘۔

وہ بیٹھ گئے اور جب عاصم نے سائمن کے سوالات کے جواب میں مختصراً اپنی سرگذشت بیان کردی تو اس نے کہا۔ ’’میں بیمار تھا۔ لیکن اب مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میں قیصر کا جلوس نہیں دیکھ سکا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ ہم نے آپ کو بے وقت تکلیف دی‘‘۔

’’نہیں نہیں، میرے لیے اس سے بڑی راحت کیا ہوسکتی ہے۔ ایک لمحہ پیشتر میں درد سے کراہ رہا تھا۔ اور اب مجھے اس کا احساس بھی نہیں رہا۔ اب بتائو میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں میں نے تیس سالہ پرانی شراب کا ایک مٹکا سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اور تم اور تمہارے دوستوں سے زیادہ اس کا کوئی اور حق دار نہیں ہوسکتا‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں شراب نہیں پیتا۔ اور میرے دوستوں کی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ وہ ایک دن کی ضرورت سے زیادہ پی چکے ہیں‘‘۔

’’اُف مجھے یہ بات یاد نہیں رہی کہ تم شراب ترک کرچکے ہو۔ اچھا یہ بتائو۔ میں اس وقت اور کیا خدمت کرسکتا ہوں‘‘۔

عاصم نے کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور اُس نے کہا۔ ’’مقدس باپ! عاصم کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اس کی شادی کی رسومات آپ کے گرجے میں ادا ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے آپ علیل ہیں‘‘۔

سائمن مسکرایا۔ ’’اگر کسی اور کی شادی کا مسئلہ ہوتا تو میں یہ جواب دیتا کہ میں قریب المرگ ہوں۔ لیکن عاصم کا معاملہ مختلف ہے۔ پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’بیٹا اگر میں غلطی پر نہیں، تو تمہاری دلہن سین کی بیٹی ہے۔ وہ کلیسا کا ایک بہت بڑا محسن تھا۔ اور اس کی بیٹی کی شادی کی رسومات ادا کرنا میں اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ سمجھوں گا۔ تم کل صبح ہوتے ہی میرے گرجے میں پہنچ جائو۔ اگر میں زندہ ہوا تو وہاں مجھے موجود پائو گے۔ مجھے فسطنیہ کی الجھنوں کے متعلق کچھ علم ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ تم آگئے ہو‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’آپ کو تکلیف ہوگی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم صبح یہیں حاضر ہوجائیں‘‘۔

’’نہیں، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ اور اگر تم کوئی اور خدشہ محسوس کرتے ہو تو میں تمہیں یہ تسلی دے سکتا ہوں کہ میرا گرجا میرے گھر سے کم محفوظ نہیں‘‘۔

اگلی صبح سائمن کے گرجے میں عاصم اور فسطنیہ کی شادی کی رسومات ادا ہورہی تھیں۔ اور اس رات کلاڈیوس کے گھر میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام ہورہا تھا۔ جب کوئی دو سو مہمان ایک وسیع دستر خوان پر بیٹھ گئے تو ایک بگھی مکان کے دروازے پر رُکی۔ دو آدمیوں نے لکڑی کا ایک بھاری مٹکا بگھی سے اُتارا اور اُسے اُٹھا کر صحن میں داخل ہوئے۔ پھر بگھی سے ایک پادری اُترا اور لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا ان کے پیچھے ہولیا۔ یہ سائمن تھا۔ کلاڈیوس نے جلدی سے اُٹھ کر اس کا خیر مقدم کیا۔ سائمن نے دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے کلاڈیوس کے باپ سے کہا۔ ’’مرقس تمہارے دسترخوان پر کسی چیز کی کمی نہیں۔ لیکن پرانی شراب کا یہ مٹکا میں نے تیس سال سے کسی اہم موقع کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اور میرے نزدیک اس مٹکے کو کھولنے کے لیے اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ ہم جس شخص کی شادی کی دعوت کررہے ہیں وہ ایک عرب ہونے کے باوجود شراب نہیں پیتا۔ لیکن مجھے اُمید ہے کہ اس کے مہمان مجھے مایوس نہیں کریں گے‘‘۔

رومی سینٹ کے ایک رکن نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’مقدس باپ! اگر اس مٹکے میں پانی نہیں تو ہم یقینا آپ کو مایوس نہیں کریں گے‘‘۔

آدھی رات کے قریب کلاڈیوس کا گھر مہمانوں سے خالی ہوچکا تھا۔ اور تھوڑی دیر بعد عاصم بالا خانے کے ایک کمرے میں فسطنیہ سے کہہ رہا تھا۔ ’’فسطنیہ ہم زندہ ہیں۔ ماضی کے آلام و مصائب کی چکی میں پسنے کے باوجود ہم زندہ ہیں‘‘۔

اور فسطنیہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آج ہمیں ماضی کے متعلق نہیں سوچنا چاہیے۔ ہم اس گردان سے نکل چکے ہیں۔ اور ہمیں مستقبل کے متعلق بھی سوچنے کی ضرورت نہیں‘‘۔

’’مجھے کل اور آج کے تمام واقعات ایک خواب محسوس ہوتے ہیں‘‘۔

’’یہی ایک خواب ہماری زندگی کا حاصل ہے۔ کاش زمانے کی گردش تھم جائے اور ہم کبھی اس خواب سے بیدار نہ ہوں‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ