سیرتؐ کے موتی

1100

پڑاؤ کی جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سوتے ہوئے پاکر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جو کسی کام کے سبب قافلے سے پیچھے تھے، بآواز بلند پریشانی کے عالم میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی پیچھے رہ گئی ہیں۔

آواز سے آنکھ کھلتے ہی فوراً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کرلیا۔

صفوان رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری بٹھائی جس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سوار ہوگئیں۔ جب صفوان رضی اللہ عنہ اونٹ کی نکیل تھامے قافلے کے پڑاؤ کی جگہ پہنچے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی۔

یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پڑاؤ کے دوران حوائجِ ضروریہ کے سلسلے میں پڑاؤ سے دور چلی گئی تھی، واپس آئی تو دیکھا کہ گلے میں ہار نہیں ہے، ہار تلاش کرکے واپس لوٹی تب تک قافلہ جا چکا تھا۔ یہ سوچ کر وہیں بیٹھ گئی کہ ہودج میں مجھے نہ پاکر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرنے واپس آئیں گے۔

اس واقعے پر بہتان طرازی شروع ہوگئی جس کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کوئی خبر نہ تھی، کیوں کہ سفر سے آتے ہی وہ بیمار پڑ گئی تھیں۔

لیکن ایک بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے محسوس کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خیریت تو دریافت فرماتے ہیں مگر لطافت و شفقت کا پہلا سا معاملہ نہیں فرماتے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اصل معاملے کی خبر ہوئی تو بے حد روئیں۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی پریشانی کے عالم میں تھے۔ اس دوران نہ وحی آئی اور نہ ہی جبرائیل علیہ السلام آئے تھے۔

معاملے نے جب طول پکڑا، انتظار کی شدت کے ساتھ آپ ؐ کی تکلیف اور بے چینی بھی شدت اختیار کر گئی تب آپؐ نے کہا بھی تو انتہائی تحمل مزاجی سے صرف اتنا کہ میں نے اپنی گھر والی میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور صفوان کے بارے میں بھی خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا۔

آپؐ نے قریبی حضرات اور خادمہ سے بھی تحقیق فرمائی۔ انہوں نے بھی خیر ہی کی گواہی دی۔ پھر آپؐ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جو بیماری اور نقاہت کے سبب اپنے والد کے گھر تھیں اور یہ خبر سن کر شدتِ جذبات سے نڈھال ہوگئی تھیں۔ آپؐ نے اُس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو باتیں کہیں انتہائی عظیم انسان ہی سے یہ رویہ متوقع ہوسکتا ہے۔

آپؐ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا ’’عائشہ! مجھے تمھارے بارے میں یہ اور یہ بات پہنچی ہے۔‘‘

پھر آپؐ نے رجوع الی اللہ کی طرف راغب فرمایا کہ انسان کیسی بھی غلطی کر بیٹھے، اس کا تدارک ممکن ہے۔

آپؐ نے فرمایا ’’اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تمہاری بے گناہی ثابت فرما دے گا۔ اور اگر تم سے گناہ ہوگیا ہے تو اللہ سے توبہ کرو اور اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ بندہ جب گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘

آپؐ نے ایسی نازک صورتِ حال میں بھی خود کو کنٹرول کیے رکھا۔ نہ ہی بہتان طرازوں سے الجھاؤ میں پڑے اور نہ ہی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سختی کا معاملہ فرمایا، بلکہ سوچ بچار اور انتظار فرمایا۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے بات کی تو امید افزا اور توبہ کی بات کی۔ حُسنِ معاملہ کی اس سے بہترین مثال ملنا یقینا ممکن نہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو کے بعد آپؐ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس کے بعد آپؐ نے جو پہلی بات فرمائی مسکراتے ہوئے فرمائی۔

فرمایا ’’عائشہ خوش ہوجاؤ۔ اللہ نے تمہاری بے گناہی (برات) اتاری ہے۔‘‘ آپ ؐ کی مسکراہٹ نے کئی دنوں کی کلفت مٹا دی تھی۔ آپؐ کی پوری زندگی تحمل مزاجی، وسعتِ نظری ، حسنِ معاملہ سے عبارت تھی۔ آپؐ کبھی بھی چھوٹی موٹی باتوں پر ناراض نہ ہوتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا، نہ کبھی کسی عورت یا غلام کو اپنے ہاتھ سے مارا، اِلاّ یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں ہوں۔ ہاں اللہ کے محترم میں سے کسی شے کی بے حرمتی کی جاتی تو آپؐ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے۔‘‘

آپؐ انتہائی فراخ دل تھے۔ ایک شخص نے آپؐ سے مال کا تقاضا کیا۔ آپؐ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان چرتی بکریوں کا ریوڑ عطا کیا۔

وہ شخص اپنی قوم کے پاس پہنچا اور کہا ’’میری قوم کے لوگو! مسلمان ہوجاؤ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اس آدمی کی طرح عطا کرتے ہیں جو فاقے سے نہیں ڈرتا۔‘‘

کوئی شخص آپؐ کے پاس مال کی غرض سے آتا مگر کچھ وقت کی صحبت سے ہی اسے دینِ اسلام دنیا و مافیہا سے عزیز ہوجاتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپؐ معمولی سے معمولی شخص کو اہمیت دیا کرتے، اس کی بات غور سے سنتے، جواب دیتے۔ اس کی خوشیوں پر خوش ہوتے۔ اسی اخلاقِِ حسنہ کا کمال تھا کہ صحابہ کرامؓ آپؐ سے دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر محبت کیا کرتے تھے۔

حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی جب توبہ قبول ہوئی تو آپؐ سے ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ بے اندازہ خوش تھے، آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ دن تمھاری زندگی کا سب سے اچھا دن ہے۔‘‘ یعنی آپؐ اپنے الفاظ سے محبت اور لگاؤ کا اظہار کرتے اور موقع کی اہمیت کا احساس دلاتے۔

آپؐ نے اپنی زندگی میں کوئی مشکوک یا مبہم سرگرمی نہ کی جس سے آپؐ کے بارے میں کوئی غلط گمان کیا جا سکتا۔ اگر ایسا موقع محسوس فرمایا تو فوراً اس کی وضاحت بھی فرما دی۔

ایک بار دورانِ اعتکاف آپؐ کی زوجہ آپؐ سے ملنے آئیں، آپؐ انہیں لے کر نکلے تو صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ یہ میری زوجہ تھیں جو مجھ سے ملنے آئی تھیں۔ سیرتِ مبارکہ کے اس پہلو میں کتنی آسانی اور کلیئرٹی ہے کہ انسانی معاملات نازک اور اہم ہیں۔ ان میں کسی رخنے کی گنجائش نہیں۔ شخصیت اور کردار کی حفاظت اہم ترین ہے کہ جہاں خدشے کا مقام ہو وضاحت کردی جائے۔

آپؐ انتہائی شفیق تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ جنہیں اُن کی والدہ نے خدمتِ اقدس میں دیا تھا، وہ اکثر کام بھول کر کھیلنے لگ جاتے، مگرآپؐ نے انہیں نہ کبھی ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا۔

آپؐ نرم دل تھے، دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس کی ماں کے خیال سے نماز میں جلدی کرتے کہ وہ بچے کے رونے سے پریشان ہوگی۔

آپؐ اپنے اصحاب سے حال احوال دریافت فرمایا کرتے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر زعفران لگا دیکھ کر استفسار فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ انصار کی ایک عورت سے شادی کی ہے۔

آپؐ نے ان کی خوشی میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہی ہو۔ اور پھر آپؐ نے ان کے مال و کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی قدردانی فرماتے۔ ایک حبشی عورت مسجد میں بڑے ذوق و شوق سے جھاڑو لگایا کرتی۔ آپؐ اس کے ذوق و شوق سے خوش ہوتے۔ ایک دن وہ نظر نہ آئی تو دریافت فرمایا۔

لوگوں نے بتایا کہ وہ وفات پا گئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے بتایا کیوں نہیں؟ اور پھر آپؐ نے اس کی قبر پر جاکر اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

آپؐ درگزر فرمانے والے، معاف کرنے والے، انتہائی شفیق، دوسروں کو ترجیح دینے والے، رب کریم سے ہر لمحہ رجوع کرنے والے تھے۔ طائف میں جب لوگوں کے پتھراؤ سے آپؐ زخمی ہوگئے اور فرشتے نے آپؐ سے اجازت طلب کی کہ دو پہاڑوں کے درمیان انہیں پیس دے۔ ایسی صورت میں بھی آپؐ غصے اور ناراضی کے زیر اثر نہ آئے۔ تب بھی پُرامید تھے کہ ان کی نسلوں میں اسلام کے محافظ پیدا ہوں گے۔

آپؐ جس سے ملتے وہ محسوس کرتا کہ آپؐ سب سے زیادہ اسی سے محبت کرنے والے ہیں۔ زبردستی کسی سے بات نہ منواتے۔ جانوروں تک کا خیال رکھتے۔ سہل پسندی اور آسائشات سے دور غوروفکر کی عبادت کیا کرتے۔ توبہ، دوسروں کی خیر طلبی، سلام میں پہل، اور کسی سوالی کو خالی ہاتھ لوٹانے والے نہ تھے۔ معاونت پر ہر لمحہ تیار، عورت کے ادب و احترام میں چادر بچھا دینے والے، ناگواریت پر چشم پوشی اور اچھائی پر حوصلہ بڑھانے والے، حُسنِ ظن، اپنا کام اپنے ہاتھوں انجام دینے والے، محنت میں عظمت بتانے والے، سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے والے ایک ایسے عظیم انسان تھے کہ دنیا ایسی مثال پیش کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے گی۔ آج بھی ان نقوش پر زندگیاں مرتب کی جائیں تو ایک بڑے اور مثبت انقلاب کی نوید بنیں گی۔

حصہ