پربت کی رانی قسط4

237

جمال اور کمال کو اپنے خیمے میں داخل ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ خیمے کے دروازے کا پردہ سرکا اور انسپکٹر حیدر علی نہایت بے آواز طریقے سے خیمے میں داخل ہوئے۔ ان کو اندر آتا دیکھ کر جمال اور جمال نہ صرف اٹھ کر بیٹھ گئے بلکہ جمال اور کمال خود ایک ہی بیڈ پر آکر بیٹھ گئے اور دوسرا بیڈ حیدر علی کے لیے خالی کر دیا۔ حیدر علی نے خیمے میں داخل ہو کر دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا کہ ہم در اصل ایک خاص مہم پر جا رہے ہیں جس کا اندازہ تم دونوں کو بخوبی ہو گیا ہوگا۔ تم دونوں کی ذہانت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بتانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ہم صرف تفریح حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ کسی اہم مقصد کو پانے کے لیے بھی رواں دواں ہیں۔ کل کے بعد کیونکہ ہم اپنی منزل سے چند کلو میٹر کی دوری پر رہ جائیں گے اور ایک حیران کر دینے والے تفریحی مقام کی جانب روانہ ہونگے اس لیے ضروری ہے کہ تمام ایسی باتیں جو جواب طلب ہیں ان کو تم دونوں کے سامنے رکھ دیا جائے کیونکہ باقی فیصلے وہاں پر سب کو الگ الگ ہی کرنے ہونگے۔ الگ الگ سے میرا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں بلکہ یہ ہے کہ سب کے سب کسی ایک جگہ جمع ہو کر کسی جرگے کی صورت میں مشورہ نہیں کریں گے۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ تم دونوں کا خیمہ سب خیموں سے خاص فاصلے پر رکھنے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان ہونے والی گفتگو کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ بے شک میرے ساتھ جو بھی لوگ ہیں یہ سب ہمارے خاص محکمے کے ہی ہیں لیکن آج کل کسی کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون ملک و قوم سے مخلص ہے کون نہیں، اس لیے گفتگو جتنی بھی محدود ہو بہتر ہی ہے۔ تمہارے ذہن میں یقیناً یہ بات ہوگی کہ ایسی مہم میں حقیقی فیمیلیاں ہی کیوں ضروری تھیں تو جواب یہ ہے کہ جہاں جا رہے ہیں وہاں ایک بڑی درگاہ بنائی جا چکی ہے اور اس درگاہ پر کسی پیر کا نہیں، پیرنی کا حکم چلتا ہے۔ یہ پیرنی “پربت کی رانی” کے نام سے مشہور ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے ذرائع کے مطابق وہ نہایت حسین عورت ہے۔ اس کی آواز میں ایسا جادو ہے کہ جو اس کو سنتا ہے اسی کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے علاقے کی حدود میں کسی کو بھی بنا حقیقی فیملی داخل نہیں ہونے دیتی اور اگر کوئی چور راستوں یا چھپ چھپا کر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دیوانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ حد یہ کہ کچھ لوگوں نے غیر فطری فیملیوں کے ہمراہ داخل ہونے کی کوشش کی تو وہ بھی دیوانگی کا شکار ہوئے البتہ ان کے ساتھ جو خواتین تھیں ان کو پربت کی رانی نے اپنا بنا لیا۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ جو خاندان بھی جاتا ہے اور پربت کی رانی کی وادی میں دو تین دن قیام کر لیتا ہے وہ وہاں سے واپس ہی نہیں آتا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پربت کی رانی کے پاس نہ صرف بے پناہ وسائل ہیں بلکہ وہ پُر اسرار قوتوں کی مالک بھی ہے۔ قدرتی حسن جیسے اس کی وادی میں آسمان سے اترا ہوا ہے۔ ہر جانب اتنے دلکش مناظر، درخت، انواع و اقسام کے پھل، پھول اور پودے ہیں کہ لوگ انھیں دیکھ کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام کیونکہ ہمارے اور دوپڑوسی ملکوں کے سنگم پر ہے اس لیے اس ہماری توجہ کبھی اس جانب نہیں گئی۔ ویسے بھی یہ سارا علاقہ نہایت سنگلاخ اور جھلسی ہوئی پہاڑیوں اور چٹانوں پر مشتمل تھا۔ یہاں دور دور تک سیاہ چٹانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا لیکن سننے میں آیا ہے کہ چند ہی برس قبل یہاں سب سے بلندی پر اچانک میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ وادی جنت نظیر بنتی چلی گئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پربت کی رانی اللہ کی جانب سے بھیجی گئی ہے جس کی وجہ سے ہماری وادی کشمیر کی وادیوں کو بھی شرمانے لگی ہے۔ اب پربت کی رانی کا حلقہ تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور جو جو قبیلے اس کی اطاعت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں وہ سبزہ زار بنتے جا رہے ہیں۔ بس یہی وہ اطلاعات ہیں جن کی تصدیق بھی کرنے کا حکم ملا ہے اور پربت کی رانی کی حقیقت بھی جاننے کے لیے کہا گیا ہے۔ میری باتیں سن کر تم دونوں کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مہم کتنی اہم اور پر خطر ہو سکتی ہے۔ اگر یہاں پربت کی رانی کی بجائے معاملہ “راجا” کا ہوتا تو شاید ہم اسے “دجال” کا نام دے دیتے کیونکہ دجال کے متعلق ہی اس قسم کی پُراسرار قوتوں کا ذکر سنا گیا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ