کامیاب شخصیت

411

تمثیلات خلیل جبران میں ہے کہ ’’تالاب میں پتھر گرا‘ پانی میں لہریں اٹھیں اور دْور چاروں طرف کناروں سے ملنے لگیں۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا‘ اسے بھی جوش آیا‘ اس نے بھی تالاب میں ایک پتا گرا دیا۔ لیکن نہ شور ہوا اور نہ تالاب میں لہریں پیدا ہوئیں۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بے وقوف! دنیا میں وہی ہلچل مچا سکتے ہیں جو اپنے اندر وزن رکھتے ہیں‘‘۔

یہ ایک تمثیل ہے مگر ایک حقیقت بھی۔ تالاب میں مزید پتے گرا کے بھی اتنی ہلچل پیدا نہیں ہو سکتی تھی جتنی ایک پتھر کے گرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ بس یہی حال ہمارے اداروں کا بھی ہے۔ بعض اوقات افراد کے آنے کے ساتھ ہی تنظیم اور طریق کار میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ انتظام صحیح چل رہا ہے اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے‘ جب کہ دوسری طرف افراد ہی کے باعث ادارے غیر موثر ہو جاتے ہیں اوران کی تباہی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ صاحب منصب افراد پتوں کی طرح تنظیم کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں مگر شخصیت میں وزن اور کردار میں پختگی نہ ہونے کے باعث اپنے وجود کا کوئی فائدہ تنظیم‘ ادارے‘ افراد اور اپنی ذات کونہیں پہنچا سکتے۔

کامیاب شخص:
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک ہی دفتر یا ادارے میں ایک ہی وقت میں دو افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ انھیں اہداف (targets)‘ افراد اور اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے متعلقہ شعبے میں ہر دلعزیز بن جاتا ہے‘ افراد اس کے لیے وقت دیتے ہیں اور اس کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ شخص دفتر میں اتنا وقت بھی نکال لیتا ہے کہ افراد اور ساتھیوں سے ذاتی اور ترقیاتی معاملات پر گفتگو کر سکے ‘ اور اپنے فیصلوں میں ان کی مشاورت بھی لے سکے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہاں ایک موثر ٹیم بن جاتی ہے جو ادارے کے مسائل اور وسائل کو اپنے ہی مسائل و وسائل محسوس کرتی ہے اور پھر اجتماعی جدوجہد سے ادارہ اور اس کے متعلقہ امور اور کاروباری معاملات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ وہ فرد سپروائزر‘ پھر مینیجر‘ اس کے بعد منیجر سے ایگزیکٹو اور پھر لیڈر بن جاتا ہے اور لوگ اسے دل سے چاہتے ہیں۔ کامیابی اس فرد کو تلاش کرتی ہے۔ وہ مصروف ترین فرد ہونے کے باوجود مختلف کاموں کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔

وہ فرد اور اس کی ٹیم ہر مشکل کو کامیابی کا موقع سمجھتے ہیں۔ وسعتیں ان کے قریب آجاتی ہیں اور وہ اپنی ذات ‘ اپنی ٹیم‘ اپنے ادارے اور مجموعی طور پر ملک و قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں خیر الناس من ینفع الناس (تم میں بہتر وہ ہیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں) بن جاتے ہیں۔ اس فرد کے ساتھی افراد جو قانوناً ماتحت ہوتے ہیں‘ ٹیم بن کر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے فرد ہیں اور پھر کسی بھی صورت میں ادارے کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ناکام شخص:
اسی مشاہدے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوسرا شخص اپنے متعلقہ شعبے میں اپنے ماتحت افراد کے مذاق کا شکار ہو جاتا ہے‘ نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے نہ لوگوں سے کوئی کام لے سکتا ہے۔ وہ ہدایت اور حکم دیتا ہے اور لوگ اسے انجانے بن کر ٹال دیتے ہیں۔ اس کے ماتحت افراد کام نہ کرنے کے سیکڑوں بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس شعبے میں ہر فرد دوسرے کو اور بالآخر اپنے متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بے وقوف بنانے کا فن سیکھتا ہے۔ بالآخر وہ شخص بھی‘ اس کا شعبہ بھی‘ اور اس کے متعلقین بھی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں‘ بدنام ہوتے ہیں اور شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ چند افراد کا اخراج ہوتا ہے ‘ دوسرے افراد اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور ایک بہت بڑے آپریشن کلین اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔

موثر شخصیت اور شخصی کردار – کلید
کاروبار ہو یا دفتری زندگی‘ آپ منتظم ہوں یا ماتحت‘ غرض آپ جس حیثیت میں ہوں اور زندگی کے کسی بھی میدان عمل میں ہوں‘ کامیابی کے لیے موثر شخصیت اور شخصی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق تکنیکی صلاحیت صرف15فی صد کردار ادا کرتی ہے‘ جب کہ فرد کی شخصی خصوصیات کا کردار 85فی صد ہوتا ہے۔

ایسا شخص افراد کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ اور کل کے لیے لوگوں کو آج سے تیار کر لیتا ہے جس کے باعث لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخصی کردار کے مثبت ہونے اور مقبول ہونے کے باعث فرد نہ صرف خود خوش رہتا ہے بلکہ اس کے افسران‘ اس کے ماتحت اور اس کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے مقاصد اور اہداف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے عموماً کام کرنے والے لوگ اور ساتھ دینے والے ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب اور مقبول کردار کے باعث اپنے لیے ایک مخلص ٹیم بنا لیتا ہے۔ وہ ٹیم کی کامیابی‘ اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ وہ ٹیم اس پر جان نثار کرتی ہے اور اسے پرندوں کی طرح طوفان اور بارش کا پتا بھی دیتی ہے‘ اور خطرے کے وقت ایک مضبوط قوت مدافعت بن جاتی ہے۔ آخرکار نتائج سامنے آنے لگتے ہیں اور بہت جلد آتے ہیں۔ اداروں کی کارکردگی اور کامیابی میں توقع سے زیادہ پیش رفت ہوتی ہے۔ کارکردگی بڑھنے کے باعث پیداوار بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں منافع میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث مجموعی قومی پیداوار اور آمدنی میں خوش آیند اضافہ ہوتا ہے۔

بحرانی شخصیت:
فرد اگر صحیح نہ ہو‘ یا اس کی شخصیت میں خامیاں ہوں‘ یا اس کا شخصی کردار غیر معروف اور غیر مقبول ہو تو ادارے میں عموماً بحران کی کیفیت ہوتی ہے۔ کام عموماً افراتفری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ افراد کو عموماً دفتر کے اوقات کے بعد بھی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ذہنی کیفیت اور انتشار کا عالم یہ ہے کہ 10 ہزار روپے کے اضافی منافع کے لیے30 ہزار روپے کی اضافی لاگت آجاتی ہے۔ نفع‘ نقصان کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا‘ انگلیاں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں۔ دوسروں کی طرف ایک انگلی اٹھتی ہے لیکن درحقیقت اس کے ساتھ ساتھ اپنی طرف تین انگلیاںاٹھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا اور بحران بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا ذمہ دار وہ فرد ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔

تصویر ٹھیک کیجیے ‘ نقشہ ٹھیک ہو جائے گا:
وہ مثال بار بار ذہن میں آتی ہے کہ ایک صاحب اپنے گھر میں مطالعہ کررہے تھے۔ ان کا بچہ… چھوٹا سا بچہ… بار بار ان کے مطالعے میں مخل ہو رہا تھا۔ ان صاحب نے بچے کو بہت سمجھایا‘ کھلونے دیے مگر اس نے سمجھ کر نہ دیا۔ بالآخر ان صاحب کو ایک ترکیب سوجھی کہ بچے کو بلایا اور اسے دنیا کا ایک نقشہ دکھایا اوراس میں بچے کو مختلف مقامات کی نشان دہی کی کہ یہ پاکستان‘ یہ ہمالیہ‘ یہ امریکہ‘ یہ سعودی عرب وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نقشے کے ٹکڑے کیے اور بچے کو دے دیے کہ بیٹا پھر سے اسے بنا کر لائیں۔ ابا جان سوچ رہے تھے کہ تین چار گھنٹے کے لیے فراغت ہوئی مگر بچہ تو آدھے گھنٹے ہی میں آگیا اور کہنے لگا: ابو‘ ابو! دنیا کا نقشہ بن گیا۔ ابا جان نے دیکھا سب مقامات اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ بچے کی طرف دیکھا‘ ذہانت پر تعجب ہوا۔ پوچھا ’’بیٹے یہ کارنامہ تم نے کیسے انجام دیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ابو! جب آپ نقشے کے ٹکڑے کر رہے تھے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ بس میں نے اس تصویر کو ٹھیک کر لیا۔ دنیا کا نقشہ خود بخود ٹھیک ہو گیا‘‘۔

ہم اپنے اداروں اور دفاتر‘ کاروبار اور گھر کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ان کا نقشہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بچے کی طرح تصویر ٹھیک کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے یہ تصویر ہماری اپنی ہی ہو۔ ہمیں اس تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرنا ہے‘ اسے سمجھنا ہے‘ اس کے ٹکڑوں کو منظم کرنا ہے اور اسے بہت جلد صحیح کرنا ہے تاکہ ہمارے معاشرے اور اجتماعی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں آجائیں۔

شخصیت کی تعمیر کے مقاصد:
اب ہم شخصیت کے موضوع پر گفتگو کریں گے کہ کس انداز سے ہم دفاتر‘ اداروں‘ کاروبار‘ گھر اور معاشرے میں کام کریں کہ:

جو کام کرنا چاہتے ہیں ‘ وہی کریں۔

جو کام کرنا ہے‘ اسے بہتر طریقے سے اور مستعدی کے ساتھ کریں۔

افراد اور معاشرے کے دیگر عناصر کی اس انداز سے تربیت کریں کہ ادارے صرف ہمارے وجود کے محتاج نہ رہیں بلکہ ایک نظام کے تحت چلتے رہیں۔ اس انداز سے ترتیب‘ تنظیم اور تربیت کریں کہ نتائج بہت جلد اور بہتر انداز سے سامنے آئیں۔

آپ اتنے کامیاب ہوں کہ اپنی زندگی اور کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی تعمیر‘ ترقی اور خوش حالی پر بھی توجہ دے سکیں اور انھیں جہنم کی آگ سے بچا سکیں۔ اگر آپ افسر ہیں تو ماتحت آپ سے خوش ہوں‘ اور ماتحت ہیں تو آپ کے ساتھی اور افسر دونوں خوش ہو سکیں۔

آپ کے معاملات اتنے صاف ہوں کہ آپ اضطراب کا شکار نہ ہوں اور ذہنی دبائو سے متعلق بیماریاں آپ کے راستے میں نہ آئیں۔ آپ نہ صرف اپنی اور دوسروں کی دنیا بنائیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی آخرت بھی سنواریں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ساتھ ساتھ ادا ہوتا رہے۔

اب ہم شخصیت کی تعریف اور تصورات پر بات کریں گے۔ اس کے بعد شخصیت کے حوالے سے مختلف موضوعات اور متعلقہ عناصر پر گفتگو کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی شخصیت کی تشکیل ہو جو کہ ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ بات کمر باندھنے کی ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے:’’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے‘ وہ داخل ہو ہی جاتا ہے‘‘۔

شخصیت اور اوصاف کی تعریف:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہے۔ جو تم میں زمانہ جاہلیت میں بہترین اوصاف کے مالک تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں۔ یہ اچھے اوصاف انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز اور ذریعہ بھی۔مختلف ماہرین نے شخصیت کی جو تعریفیں پیش کی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

انسانی ’’وجود‘‘ کے علاوہ شخصیت چلتی پھرتی عادتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ زندگی میں اس کی شخصیت کی تقویم و تعین ان ہی عادات کی وجہ سے آشکارا ہوتی ہے۔ اس میں لباس میں پاکیزگی‘ گفتار میں نرمی‘ کھانے پینے کے آداب ‘جسمانی ضرورت کے سلسلے میں روزانہ ورزش و غسل کی جانب توجہ اور عقل کی تہذیب و تربیت کی جانب توجہ‘ حالات و ضروریات کے مطابق مطلوبہ صلاحیت اور سبقت کے تقاضے پورے کرنے کی آگہی‘ شعور‘ اہلیت اور قوت عمل شامل ہیں۔

تمام ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی شخصیت‘ نفسیاتی اور بدنی دونوں حصوں سے مرکب ہے۔

شخصیت ایک نفسیاتی اور بدنی وحدت ہے جہاں جذباتی اور بدنی سطحات کے واقعات مختلف طریقوں سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو کچھ ایک فرد ہے اور جو کچھ وہ تجربہ کرتا ہے اگر سب کو وحدت سمجھا جائے تو یہی اس کی شخصیت ہے۔ شخصیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو انفرادیت سے کہیں وسیع تر ہے کیونکہ اس میں فرد سے متعلق تمام نفسیاتی اعمال اور کیفیات کا ترتیب شدہ مجموعہ شامل ہے۔

اب ہم درج ذیل موضوعات اور عناصر پر گفتگو کریں گے:
٭ شخصیت کے تخلیقی عناصر
٭شخصیت کے ذہنی‘ تصوراتی و تخیلی عناصر‘
٭شخصیت کے اخلاقی عناصر‘
٭شخصیت کے معاشرتی‘ معاملاتی اور استحکامی عناصر‘
٭شخصیت کے انتظامی عناصر‘
٭شخصیت کے ارتقائی عناصر‘
٭شخصیت کے منفی و تخریبی عناصر‘
٭شخصیت‘دین و دنیا اور آخرت۔

ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔

ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔

تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اْس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔

بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔

ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔

ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

-1 ٹھوس نظریہ حیات: آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اْبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔

-2 اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجائش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان 2×6 فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔

-3اخلاص نیت اور اخلاص عمل: منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔

ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔
(جاری ہے)

حصہ