دنیا

347

اشیاء کی پسند اور خریداری کا عالمگیر اصول ہے: شے پائیدار ہو۔ خوب صورت ہو اور کم قیمت ہو۔

دنیا میں شاید ہی کوئی ہوگا جو پائیدار کے مقابلے پر ناپائیدار کو پسند کرے۔ خوب صورت کے مقابلے پر کم صورت یا بدصورت کو گلے لگائے اور کم قیمت پر مہنگی شے کو ترجیح دے۔

خوب صورتی کا اصول بہت اہم ہے۔ کچھ لوگ خوب صورتی کو پائیداری پر ترجیح دیتے ہیں لیکن یہاں بھی خوب صورتی اور پائیداری میں ایک نسبت ہوتی ہے۔ خوب صورت شے بالکل بھی پائیدار نہ ہو تو اسے پسند کرنے والا شاید ہی کوئی ہو۔

دنیا کے بعض ملکوں میں تربوز کے چھلکوں کے جوتے بنتے ہیں۔ اتنے خوب صورت کہ بہت سے لوگوں کا دل انہیں پہننے کے ساتھ انہیں کھانے کو مچل جائے۔ ان جوتوں کی قیمت بھی کم ہوتی ہے لیکن یہ جوتے بہ مشکل ایک ڈیڑھ گھنٹہ چل پاتے ہیں اور انہیں تفریح یا ’’FUN‘‘ کے لیے پہنا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر جوتے کا معاملہ یہ ہے تو زندگی کا معاملہ کیا ہوگا؟ یا اسے کیا ہونا چاہیے؟

اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ عارضی کو دائمی پر‘ ناپائیدار کو پائیدار پر‘ کم خوب صورت کو زیادہ خوب صورت پر اور گراں قیمت کو کم قیمت پر فوقیت دینے کا مرض عام ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال دنیا اور آخرت ہیں۔ آخرت دائمی ہے‘ دنیا عارضی ہے‘ مگر آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ آخرت حسین و جمیل ہے‘ دنیا کا حسن و جمال اس کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں‘ مگر ہم دنیا کو گلے سے لگاتے ہیں اور آخرت کو ’’تصور‘‘ کی سطح پر رکھتے ہیں۔ غور کیا جائے تو آخرت کی قیمت کچھ بھی نہیں لیکن اس کے خریداروں کی تعداد بہت کم ہے‘ اور دنیا جو اپنے حاصل کرنے والے سے سب کچھ لے لیتی ہے اُس کے خریدار اربوں میں ہیں… آخر کیوں؟

دنیا اور آخرت کی بحث ’’مذہبی‘‘ ہے لیکن دائمی کی عارضی پر فوقیت کی بحث ’’عقلی‘‘ بھی ہے۔ اسی طرح زیادہ حسین و جمیل اور کم حسین و جمیل کی بحث بھی عقلی ہے۔ قیمت کا معاملہ بھی عقل سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔ آخر ہم میں سے کون ہے جو بازار جائے اور اس کی عقل اس سے کہے کہ دائمی کو چھوڑ دو‘ عارضی کو اٹھا لو۔ پائیدار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو‘ البتہ ناپائیدار کو فوراً خرید لو۔ آخر اتنا کم عقل کون ہوتا ہے جو کہ معیار کی کم اچھی نظر آنے والی چیز زیادہ دام دے کر خرید لے اور خود کو عقل مند سمجھے؟ لیکن دنیا اور آخرت کے سلسلے میں تو یہی ہوتا ہے‘ یہی ہورہا ہے اور یہی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

یہ فقرہ کئی لوگوں سے منسوب ہے: ’’دنیا نقد ہے آخرت ادھار‘‘۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نقد اور ادھار میں قطرے اور سمندر کی نسبت ہے‘ مگر اس نسبت کا شعور اور احساس بھی ضروری ہے‘ اس کے بغیر نسبت کا وجود ہی نہیں ہوگا۔

شعور اور احساس کا مسئلہ ’’تعلق‘‘ سے متعلق ہے۔ عام تجربے کی بات ہے‘ دن نکلتا ہے تو اس کے ساتھ ہی شعور کی کائنات اور حسّیات کا سارا سلسلہ بدل کر رہ جاتا ہے۔ دن روشنی ہے‘ سر گرمی ہے‘ ہنگامہ خیزی ہے۔ دن کی کیفیات ہی الگ ہوتی ہیں۔ کیفیات الگ ہوتی ہیں تو زبان اور بیان بھی الگ ہوجاتے ہیں۔ دن کی قربت‘ اس سے اتصّال‘ اس کا تجربہ ہر چیز کو بدل دیتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کا ایک شعر ہے:

ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

جوش کو کہنے والوں نے ان کی شاعری کے مواد کی بنیاد پر منکرِ خدا بھی کہا ہے۔ اگرچہ اس شعر کے ’’ہم ایسے اہلِ نظر‘‘ کے ٹکڑے میں جوش کی انانیت چنگھاڑتی ہوئی دکھائی ہی نہیں‘ سنائی بھی دے رہی ہے۔ لیکن بہرحال صبح کے تجربے نے جوش سے ایک ایسا شعر کہلوا لیا جو ان کی عام فکری کائنات سے مطابقت نہیں رکھتا۔

رات کا تجربہ دن کے تجربے کے برعکس ہے۔ رات میں اسرار ہے‘ خاموشی ہے۔ دن میں سورج ہے تو رات میں چاند اور ستارے ہیں‘ کہکشاں ہے‘ چراغ ہے‘ پروانہ ہے‘ محفل ہے‘ نیند ہے‘ خواب ہیں‘ سائے ہیں۔ سایہ تو دن میں بھی ہوتا ہے لیکن رات کا ’’سایہ‘‘ اصل سے بھی زیادہ زندہ محسوس ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رات کی کائنات ہی الگ ہے اور اس کا قرب‘ اس سے اتصال اور اس کا تجربہ ہر چیز کو بدل دیتا ہے۔ دنیا اور آخرت کا معاملہ بھی یہی ہے۔

آدمی دنیا سے متعلق ہوجاتا ہے تو دنیا قطرہ ہونے کے باوجود سمندر بن جاتی ہے اور آخرت کا سمندر‘ سمندر ہونے کے باوجود انسان کو قطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

اس ضمن میں اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہر چیز ’’اصل‘‘ کی نقل کرتی ہے۔ دنیا ناپائیدار ہے مگر وہ آخرت کی پائیداری کی نقل کرتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ تو شعور ہی کا ہے۔

ہمارے مذہب کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ جب خدا انسان سے پوچھے گا کہ تم کتنے دن دنیا میں رہے‘ تو وہ کہے گا کہ ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ۔ یعنی پچاس کیا‘ سو سال کی زندگی کا تجربہ ایک دن کے تجربے کے برابر ہوجائے گا۔ مگر ایسا کیونکر ہوگا؟

ظاہر ہے جب انسان سے یہ سوال پوچھا جائے گا تو اُس کا شعور آخرت سے زیادہ مربوط و منسلک ہوچکا ہوگا اور اس کے شعور میں دنیا سے بُعد یا فاصلہ پیدا ہوچکا ہوگا۔ آخرت اُس کے سامنے ہوگی اور دنیا اُس کو ماضی کی بات محسوس ہوگی۔ اسے لگے گا کہ اس سے خواب و خیال کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔ تعلق اور عالم کے بدلنے سے احکامات ہی نہیں کیفیات بھی بدل جاتی ہیں۔ انسان دنیا میں جذب ہوتا ہے تو اسے آخرت دور‘ بعید اور خواب و خیال محسوس ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے دنیا آخرت سے زیادہ حسین و جمیل بھی ہے‘ سستی بھی اور زیادہ باقی رہنے والی بھی۔ لیکن دنیا یہ دھوکا کس طرح تخلیق کرتی ہے؟

یہاں ہم نقل کے اصول کی طرف پھر پلٹ کر دیکھتے ہیں۔ لفظ دنیا جتنا سادہ نظر آتا ہے اتنا سادہ ہے نہیں۔ آخرت جنت کا وعدہ کرتی ہے اور دوزخ سے ڈراتی ہے تو کیا ہے‘ دنیا بھی ٹھیک یہی کام کرتی ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ دنیا کی اپنی جنت ہے‘ اس کے اپنے حدود وقیود ہیں اور اس کا اپنا جہنم اور اس جہنم کے اپنے طبقات ہیں۔ ان طبقات کے عذاب و ثواب بھی درجوں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ کیا ہم سیاسی و سماجی اور اقتصادی و مالیاتی زندگی کے مختلف دائروں کو سیاسی و سماجی اور اقتصادی و مالیاتی جنت اور دوزخ کی طرح نہیں لیتے؟

انگریزی کا فقرہ ہے “The Devil is in detail” یعنی شیطان تفصیلات میں چھپا ہوتا ہے۔ آخرت سے دنیا کا بُعد اسے شیطان میں تبدیل کردیتا ہے۔ مگر یہ شیطان صرف تفصیلات میں پوری طرح آشکار ہوپاتا ہے۔ یعنی صرف لفظ دنیا استعمال کرنے سے بات نہیں بنتی۔ بظاہر دیکھا جائے تو خوفناک بیماریوں کے نام بھی ’’معصوم‘‘ سے لگتے ہیں مگر ان کے مضمرات کی تفصیلات سامنے آتی ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اہلِ فرانس نے 1950ء کی دہائی میں ’’تیسری دنیا‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی۔ا س سے اُن کی مراد دنیا کا وہ علاقہ تھا جس پر دنیا کی دو بڑی طاقتیں تسلط کے لیے باہم دست و گریباں تھیں۔ لیکن تیسری دنیا دیکھتے ہی دیکھتے زمین کا اقتصادی و سماجی جہنم محسوس ہونے لگی۔ اب تو خیر چوتھی دنیا بھی وجود میں آچکی ہے۔ یہ گویا دنیوی اعتبار سے اسفل السافلین کا رہائشی علاقہ ہے۔ یہ تقسیم اور اس تقسیم کے نام دنیا کے دھوکے کو منطقی بنیاد فراہم کرنے یا اسے Logicalize کرنے کی صورتیں ہیں۔

حصہ