پربت کی رانی قسط3

311

جیپ سے باہر آکر انھیں احساس ہوا کہ دن بھر کی گرمی کا اثر اب بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ جیپ میں اے سی کی وجہ سے گرمی کا احساس نہیں ہو رہا تھا لیکن باہر آکر علم ہوا کہ یہاں اب تک چاروں جانب تپش موجود ہے۔ ان کے رکتے ہی خیموں کے پردے سرکنا شروع ہو گئے اور تین فیملوں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا جن میں دو کے ساتھ چھے چھے سات سات سال کی عمرکے دو دو بچے اور بچیاں بھی شامل تھے۔ ایک اور خیمے سے برآمد ہونے والی فیملی کو دیکھ کر جمال اور کمال کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ یہ انسپکٹر حیدر علی اور ان کی وائف تھیں۔ دونوں کے منہ سے سلام کے بعد ہیلو انکل اور آنٹی نکلا۔ دیگر فیملیوں کے متعلق جمال اور کمال کی کوئی واقفیت نہیں تھی البتہ والد اور والدہ صاحبہ کا رویہ بتا رہا تھا کہ شاید ان کی ملاقات یہاں آنے سے قبل بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوئی ہے۔

رات کا کھانا جلد ہی کھا لیا گیا تھا جس کا مقصد جلد سونا تھا تاکہ دن بھر کی تھکن اتار کر اگلی صبح طلوع ہونے سے قبل سفر کا آغاز کیا جا سکے۔ پروگرام کے مطابق سب اپنے اپنے خیموں میں جا چکے تھے۔ ہلکے گرم اور خشک ہوا کے جھونکے کافی ناگوار گزر رہے تھے لیکن انسپکٹر حیدر علی نے بہت سوچ سمجھ کر ان سب خیموں کو ٹھنڈا رکھنے کا خوب انوکھا انتظام کر رکھا تھا۔

قریب ہی برساتی تالاب تھا جس سے کافی مقدار میں پانی اسٹور کر لیا گیا تھا۔ یہاں کئی خدمت گار اہل کار پہلے سے ہی موجود تھے جو خیموں کی چھتوں اور دیواروں کے پردوں پر وقفے وقفے سے چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ اگر ہوا گرم اور خشک ہو تو عملِ تبخیر کی مدد سے بہت اچھی ٹھنڈ حاصل کی جا سکتی ہے اسی لیے خیموں کے اندر کا ماحول باہر کے ماحول کے مقابلے میں بہت ہی اچھا اور خوشگوار تھا۔ جمال اور کمال کے والدین کو ایک الگ خیمہ دیا گیا تھا جبکہ جمال اور کمال کے لیے ایک بالکل الگ خیمہ۔ خصوصی بات یہ تھی کہ جمال اور کمال کا خیمہ دوسرے خیموں سے کسی حد تک فاصلے پر تھا۔ جمال اور کمال کے لیے یہ بات بھی بہت غور طلب تھی۔ یہاں انسپکٹر حیدر علی سے ملاقات تو ضرور ہو گئی تھی لیکن جمال اور کمال اب تک اس مہم کا مقصد نہیں سمجھ پائے تھے۔ یہ بات بھی عجب تھی کہ نہ تو اب تک انسپکٹر حیدر علی نے جمال اور کمال کو کچھ بتایا تھا اور نہ ہی جمال اور کمال نے خود سے کریدنے کی کوئی ضرورت محسوس کی تھی۔ دونوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ جب تک انسپکٹر حیدر علی کچھ نہیں بتائیں گے اس وقت تک وہ خود بھی ان سے کچھ دریافت نہیں کریں گے۔ اس بات کا تو انھیں احساس ہو ہی گیا تھا کہ یہ محض تفریحی مہم نہیں ہے۔ تفریحی مہم نہ تو اس انداز میں کی جاتی ہے اور نہ ہی پولیس کے عملے کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ بظاہر کوئی بھی فرد اس بات کو نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ محکمہ جاتی مہم ہے کیونکہ نہ تو جیپوں پر کوئی علامتی نشانات تھے اور نہ ہی کوئی وردی میں ملبوس تھا۔ ویسے بھی شاید ہی کوئی خفیہ کا محکمہ بیوی بچوں کے ساتھ کسی سرکاری مہم کے لیے نکلتا ہو۔ یہ حکمت عملی جمال اور کمال کو بہت اچھی لگی۔ اب تک کے انتظامات دیکھ کر جمال اور کمال کو پولیس ڈپارٹمنٹ کا یہ نیا انداز بہت ہی اچھا لگا ورنہ پولیس تو بس اچانک کسی مشکوک جگہ پر چڑھائی کرکے معاملہ ختم کرنے کی عادی ہوتی ہے۔ جمال اور کمال کو اس بات کا تو پختہ یقین تھا کہ یہ مہم ہے تو کسی خاص معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے لیکن وہ معاملہ کیا ہے، اس کا علم انسپکٹر حیدر علی ہی جانتے ہونگے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی جمال اور کمال کے لیے دلچسپی کا باعث تھی کہ اس سرکاری مہم میں خود ان کی شرکت کو ضروری کیوں سمجھا گیا۔ یہ بات بھی بہت اہم اور غور بلب تھی کہ جو لوگ بھی ہمراہ تھے ان کے ساتھ ان کی فیملیوں کا ہونا کیوں ضروری ہے۔ (جاری ہے(

حصہ