عوامی احتجاج اور حکمرانوں کی بے حسی کا آخری انجام

362

دنیا جب سے قائم ہوئی ہے انبیائے کرام اور رسولوں، خلفائے راشدین اور انصاف پرور بادشاہوں کے ادوارِ حکومت کے سوا عوام کو کبھی انصاف اور سُکھ چین میسر نہیں ہوا۔ ظالم بادشاہوں نے طویل مدت تک دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ نمرود، فرعون، شداد، چنگیز خان اور ہلاکوخان۔ سب کا دورِ اقتدار ظلم و سفاکی کا دور تھا۔ انقلابِ فرانس اور یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد عیسائیت سے مذہب بے زاری پیدا ہوئی۔ کلیسا اور پوپ کے جبر کے سامنے بادشاہوں کی بھی حیثیت ثانوی تھی۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ عوام ظلم اور جبر سے تنگ آکر مسلح بغاوت کرتے تھے جس میں کبھی کامیابی ملتی اور کبھی ناکامی کے بعد کشت و خون کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ آج بھی عرب دنیا میں بادشاہت قائم ہے جہاں عوامی تحریک اور احتجاج کا تصور نہیں ہے۔

مگر انقلابِ فرانس کے بعد عوامی تحریک اور احتجاج نے ایک نیا رخ اپنایا جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں اور جمے جمائے صدیوں کے بادشاہی ظلم کا خاتمہ ہوا۔ پھر 1917ء میں کمیونسٹ انقلاب اور زارِ شاہی بادشاہت کا خاتمہ، پھر مائوزے تنگ کے برپا کیے ہوئے کمیونسٹ انقلاب نے دنیا کا رنگ ہی بدل دیا۔ دنیا دو قطبی ہوگئی، ایک طرف اشتراکی نظریات پر مبنی سرکاری یک جماعتی حکومت، دوسری جانب سرمایہ دارانہ جمہوری نظامِ حکومت۔ یہ سب عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوا۔ اور اب چین اور عرب خلیجی ریاستوں کے سوا ہر جگہ جمہوری نظام حکومت قائم ہے جس میں عوام کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے پُرامن احتجاج کرنے کی اجازت ہے۔

1970ء کی دہائی میں ایران کا انقلاب جو عوامی تحریک کے نتیجے میں آیا، اس میں ایک سال چار ماہ لگے۔ یہ انقلاب 1978ء سے شروع ہوا جو امام خمینی کی قیادت میں ہزار سالہ پہلوی بادشاہت کا خاتمہ کرگیا۔ اس میں لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ مگر امریکا، یورپ، ساؤتھ ایسٹ ایشیا، افریقی براعظم، بھارت اور پاکستان میں جو جمہوری حکومتیں ہیں ان میں بھی عوامی احتجاج کی اب حکمرانوں کے سامنے وہ حیثیت نہیں، بلکہ وہ اس کو پولیس اور ریاستی طاقت کے ذریعے نہ صرف کچل دیتے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر گرفتاری کرکے عوامی مطالبات کو ماننے سے انکار بھی کردیتے ہیں۔ یوں تو کہا جاتا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے۔ وہاں کبھی بھی فوجی مداخلت نہیں ہوئی، لیکن ایک سیکولر ملک ہونے کے باوجود مسلمانوں اور دلتوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔

عراق پر حملے کے بعد شروع میں تو جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے امریکی اور یورپی عوام کی اکثریت اس کے حق میں تھی مگر بعد میں جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ برطانیہ اور امریکا کی جارحیت ہے تو اس حملے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے، مگر اس کا اثر وہاں کی حکومتوں پر نہیں ہوا۔ نتیجتاً عراق مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور صدام حسین کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ چین کے اندر تیان من اسکوائر کے لاکھوں انسانوں کے مہینوں پر مشتمل مظاہرے کو چینی حکومت نے نہایت سفاکی سے ٹینکوں کے ذریعے کچل دیا جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں، جسے دنیا کے جمہوریت پسند عوام اور انسانی حقوق کے ادارے ابھی تک نہیں بھولے۔ برما کے فوجی حکمرانوں کی دہائیوں پر محیط عوامی تحریک کو کچلنے کی روایت ابھی تک برقرار ہے اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و سفاکی روا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہوکر بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت کی مشرقی ریاستوں آسام، تری پورہ، منی پور، ناگالینڈ میں ناانصافی اور استحصال کی وجہ سے آج علیحدگی کی تحریکیں مسلح بغاوت کی صورت اختیار کررہی ہیں۔ سب سے بڑی تحریک مشرقی پنجاب میں خالصتان تحریک ہے جو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی سربراہی میں شروع ہوئی اور اندرا گاندھی کے گولڈن ٹیمپل آپریشن کے بعد ہزاروں سکھ مارے گئے جس کے ردعمل میں ستونت سنگھ اور بینت سنگھ نے اندرا گاندھی کو قتل کیا۔ پھر کیا تھا، بھارت کے ہر شہر بالخصوص دہلی میں سکھوں کا قتل عام اسی طرح شروع ہوا جیسا کہ 1947ء میں مسلمانوں کے خلاف شروع ہوا تھا۔ مگر آج بھی خالصتان کی تحریک جاری ہے، کیوں کہ سکھوں کا یہ کہنا ہے کہ نہرو اور پٹیل نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے بجائے ہمارا استحصال ہورہا ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں مسلمانوں کے خلاف شہریت کا جو قانون پاس کیا گیا اس کے خلاف ہندوستان کی تمام جامعات میں طلبہ نے احتجاج کیا جس کو پولیس نے آر ایس ایس کے غنڈوں کے ساتھ مل کر کچلا۔ شاہین باغ میں خواتین کا بے مثال دھرنا جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی، اس کو دہلی میں ہندو مسلم فسادات کے ذریعے ختم کیا گیا۔ چند ماہ پہلے جب بھارت کے تمام کسانوں نے سرکاری منڈی کے بجائے اڈانی کی نجی منڈی میں اجناس بیچنے کے خلاف احتجاج شروع کیا جو کئی مہینوں تک چلا، حتیٰ کہ کسانوں نے لال قلعہ پر قبضہ کرکے ترنگا اتار پھینکا، مگر یہ تحریک بھی مودی نے ریاستی جبر اور ہتھکنڈوں سے ختم کردی۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی جابرانہ اور بھارت نواز حکومت کے خلاف بنگلہ دیش کے حریت پسند عوام مسلسل تحریک چلا رہے ہیں، جہاں حسینہ واجد کے سب سے زیادہ جبر اور ریاستی تشدد کا سامنا جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان کررہے ہیں۔ اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید کیے جا چکے ہیں اور کئی ہزار پابندِ سلاسل ہیں، ان میں بڑی تعداد چھاترو شبر کے طلبہ وطالبات کی ہے۔ مرکزی قیادت کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر الحمدللہ تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا ہورہی ہے۔ میں اب پاکستان کے اندر برپا ہونے والی تحریکوں اور احتجاج کے عوامل اور نتائج پر مختصراً روشنی ڈالوں گا۔

پاکستان کی 76 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں عوامی مطالبات اُس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک حکمرانوں کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک شروع نہ ہو۔ ملک پر سول حکمرانی کا سب سے زیادہ دورانیہ مسلم لیگ اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کا رہا ہے۔ اسکندر مرزا، اور ایوب خان کی مارشل لا حکومت میں قراردادِ مقاصد کی تحریک کے روحِ رواں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی رہی، اُسی تحریک کا ثمر ہے کہ پاکستان آج ایک اسلامی مملکت ہے ورنہ اس ملک کے سیکولر عناصر کب کا اسے سیکولر ملک بنا چکے ہوتے۔ اس کے بعد ایوب کے زمانے میں ہی فتنۂ قادیانیت کے خلاف ایک تحریک برپا ہوئی جس میں سیکڑوں فدائیانِ مصطفیؐ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور مولانا مودودیؒ کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی جو مسلم دنیا کے رہنماؤں کے دباؤ پر واپس لی گئی۔

ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایوب خان نے عنانِ حکومت یحییٰ خان کے حوالے کی جو ایک بدترین فاسق و فاجر آمر ثابت ہوا۔ 1970ء میں جماعت اسلامی کی شوکتِ اسلام تحریک نے مشرقی و مغربی پاکستان میں ایک ایسی فضا قائم کر دی جس سے لگا کہ اب پاکستان کی تخلیق کے مقاصد پورے ہونے والے ہیں، مگر 1970ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن قوتوں کی ملی بھگت سے جماعت اسلامی پورے ملک میں شکست سے دوچار کردی گئی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کو جتوایا گیا، اور اقتدار کے ہوس پرستوں نے ملک کو دو لخت کر دیا۔ بھٹو کو اقتدار تو ملا مگر اس نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ملک میں سیاسی رواداری اور جمہوریت کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا۔ مگر اسی دوران قدرت نے اپنا فیصلہ نافذ کیا اور تحریک کے نتیجے میں نہ صرف 1973ء کا اسلامی آئین منظور ہوا بلکہ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم بھی قرار دیا گیا۔

بھٹو کی فسطائیت کے خلاف تحریک اور احتجاج جاری رہے، مگر بھٹو نے 1977ء میں قبل از وقت انتخابات کروانے اور زبردست دھاندلی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جیتی ہوئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، مگر ان دھاندلی زدہ انتخابات کو کسی نے تسلیم نہیں کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ PNA کی تحریک نے پورے ملک میں ایسی فضا پیدا کردی کہ بھٹو مجبور ہو کر دوبارہ انتخابات کروانے پر ابھی راضی ہی ہوا تھا کہ ضیا الحق نے اس کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا لگا دیا اور آخرکار بھٹو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

ضیاالحق نے ایم آر ڈی کی پُر تشدد تحریک کو سختی سے کچلا اور اس کے جواب میں بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے ’’الذوالفقار‘‘ نامی دہشت گرد تنظیم قائم کی اور پاکستان کے طیارے کو بھی اغوا کیا۔ افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت کے باعث ملک کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا اور روس کے خلاف پوری دنیا سے مجاہدین لڑنے کے لیے آنے لگے۔ گو کہ پوری مسلم دنیا امریکا کی سرپرستی میں اس جنگ کی پشت پناہی کررہی تھی اور پاکستان بیس کیمپ بنا ہوا تھا، جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور روس، اسرائیل اور بھارت نے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا اور جگہ جگہ بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور آخرکار روس کی پسپائی کے بعد ضیا الحق کو بھی بڑے فوجی جرنیلوں کے ساتھ آج سے 35 سال قبل 17 اگست 1988ء کو طیارے کے پر اسرار حادثے میں مروا دیا گیا۔

انتخابات ہوتے رہے، سول حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، احتجاج کا سلسلہ کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔ اکتوبر 1999ء میں نوازشریف کی حکومت ختم کرکے جنرل پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو مغربی تہذیب و ثقافت کے حوالے کردیا۔ اس ظالم شخص نے مغربی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے جامعہ حفصہ اور لال مسجد اسلام آباد میں فوجی آپریشن کے دوران سیکڑوں طلبہ وطالبات کو شہید کیا اور نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی مداخلت کے لیے اپنے ملک کے فضائی اور زمینی راستے نہ صرف امریکا کے حوالے کیے بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال کر ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو امریکا کے حوالے کیا۔

مختصر یہ کہ 76 سال کے بعد بھی عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ٹرائیکا نے ’’عمرانی پروجیکٹ‘‘ کو لانچ کرکے بچے کھچے پاکستان کو خطرے میں ڈال دیا اور یہ خطرات مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور آئی ایم ایف کے قرض نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے۔ جماعت اسلامی ملکی اور عوامی امنگوں، پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے حوالے سے مسلسل تحریک چلا رہی ہے مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چند ماہ بعد پھر انتخابات ہونے والے ہیں، دیکھیے عوامی بصیرت کیا گل کھلاتی ہے۔

بجھے چراغ لٹی عصمتیں چمن اجڑا
یہ غم جس نے دیے ہیں کب خوشی سے جائے گا
اے روحِ عصر جاگ کہاں سو گئی ہے تُو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

حصہ