سیرت کا پیغام

337

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کو اجاگر کرنے، آپؐ کے دامن سے ازسرِ نو وابستہ ہونے، آپؐ کی سنتوں کو اپنانے اور آپؐ کی شریعت ِمطہرہ کو جدوجہد کا عنوان بنانے کے لیے پوری اُمت شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً تحرک اور سرگرمی کا عنوان دکھائی دیتی ہے۔

کسی معاشرے میںنبی کی بعثت نظاموں کی کش مکش کو جنم دیتی ہے۔ موجود نظام اور قائم شدہ معاشرہ جہالت، شرک و بت پرستی اور ظلم کے ہر عنوان کو اپنے اندر سموئے ہوتاہے، جب کہ نبی بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف بلانے کی دعوت پیش کرتا ہے۔ اس طرح نظاموں کی یہ آویزش دور و نزدیک، ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پرانا نظام اپنے تحفظ اور بقا کی جنگ ہر مورچے اور ہرمحاذ پر لڑتا ہے، اور نبی کا پیش کردہ نظام نعرے کے مقابلے میں نعرہ، فلسفے کا متبادل فلسفہ، نظریے کا توڑ نظریہ، جدوجہد کے مقابلے میں جدوجہد، نیز استقامت، اولوالعزمی اور صبر و حوصلے کے چراغ روشن کرتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس معاشرے میں بعثت ہوئی وہ معاشرہ اُن تمام خرابیوں اور برائیوں کی آماج گاہ تھا جس کا تصور انسان ہونے کے ناتے کیا جاسکتا ہے۔ آپؐ کی مخالفت کرنے والے آپؐ کی ذات سے تو تعلق رکھتے تھے اور نباہ بھی کرنا چاہتے تھے، صادق و امین کہتے تھے، لیکن وحی الٰہی کی بنیاد پر آپؐ جس تبدیلی اور تزکیے کی طرف بلارہے تھے وہ پرانے آباو اجداد کے دین اور ہر رسم و رواج کو نگل جانے والا نظام تھا، لہٰذا جو لوگ آپؐ کی مخالفت کررہے تھے، سوچ سمجھ کر کررہے تھے، جانتے بوجھتے ایسا کررہے تھے اور اپنے نظام کے ٹمٹماتے چراغ کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتے تھے۔ اسی طرح جو آپؐ کے ہم نوا بن کر اٹھے اور آپؐ پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے جلو میں چلنے والے قرار پائے وہ بھی دل کی گہرائی سے اس کش مکش کو مول لے رہے تھے۔ تبھی تو یہ ممکن ہوسکا کہ انھیں آگ کے انگاروں پر لیٹنا بھی گوارا تھا۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظاموں کی کش مکش میں قائم شدہ نظام کا دفاع کرنے والوں کو بھی ایک ٹیم اور معاشرے کی پشتیبانی درکار ہوتی ہے، اور نیا نظام جن دعووں، مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھا ہو، اسے بھی اپنی تائید اور اپنے مؤقف کو واشگاف کرنے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہر نبی پرانے انسانوں میں سے نئے انسان تلاش کرتا ہے، پرانے معاشرے میں سے نئے معاشرے کو اٹھاتا ہے، اور پرانے عمر بن خطاب میں سے نئے حضرت عمر فاروق ؓجنم لیتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے نتیجے میں جو نئے انسان دریافت ہوئے، پرانے اور بوسیدہ معاشرے ہی سے تازہ ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوئے، گویا

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

تبدیلی و انقلاب کی یہ لہر جس نے پرانے سانچوں کو توڑ پھوڑ دیا، جاہلیت کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی، افراد کی سطح پر نقطۂ نظر بدلا، سوچ کے زاویے بدلے، زاویۂ ہائے نگاہ بدلے، زندگی اور اس کی ترجیحات بدلیں، اس کے ساتھ اجتماعیت کے اسلوب بدلے۔ دعوت اور طریقِ دعوت نے تربیت اور تعمیر سیرت کے نئے چراغ روشن کیے۔ آپؐ نے گئے گزرے اور ان پڑھ و ان گڑھ لوگوں کو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کا رہنما اور ان کے کردار اور سیرت کو تاریخ کے ہر دور کے لیے روشنی کا مینار بنادیا۔ قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپؐ کی طبیعت کی نرمی اور گداز اور آپؐ کے اسلوب کی خیر خواہی محیط تھی انسانوں کو انسانیت کُش راہوں سے روکنے، آگ میں گرنے والے لوگوں میں فلاحِ اُخروی کا تصور جاگزیں کرنے، اور انھیں ایک بڑے مقصد کے لیے آمادہ و تیار کرنے کے لیے۔ قرآن پاک ایک طرف یہ بتاتا ہے کہ آپؐ کس طرح قرآن پاک کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے، نفوس کا تزکیہ کرتے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے رہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (آل عمران3 :164) ”درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔“

دوسری طرف قرآن پاک گواہی دیتا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران3 : 159) ”(اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔“

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ خاص سے آپؐ کے اندر نرمی ڈال دی تھی جو لوگوں کی توجہ کا مرکز اور انھیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزارنے کا باعث بنی۔

مکہ میں اگر آپؐ کی دعوت کا محور ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور توحید و رسالت تھا اور بحیثیت داعیِ الی اللہ آپؐ گتھیوں کو سلجھانے، ایمان کی دعوت دل نشیں پیرائے میں دل میں اتارنے اور قلب و نظر کی دنیا کو فتح کرنے میں مصروف تھے، تو مدینہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے ذریعے حکومتِ الٰہیہ کے قیام سے اسلام کو مقتدر اور فرماں روا بنانے کی جدوجہد میں سراپا متحرک نظر آتے ہیں۔ مکہ میں اگر توحید پر مرمٹنا، احد احد پکارنا اور اسی پر جم جانا دعوت تھی، تو مدینہ میں اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام اور اسی کا نظام دعوت قرار پایا تھا۔ (للّٰہ الواحد القھار)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخرالزماں ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا۔ اب کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لیا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت بھی محفوظ ہے۔ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقام ہے۔ فرمایا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران3 : 110) ”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانیت کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس مشن کو لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اس کو اعلیٰ ترین صورت میں پورا کیا، پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ اس مشن کی علَم بردار بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس لوٹے۔ حضرت فاطمہ ؓنے بڑھ کر دروازہ کھولا، آپؐ کی پیشانی کو بوسا دیا، آپؐ کو لے کر بیٹھ گئیں اور آپؐ کا سر دھونے لگیں تاآنکہ نبی اکرمؐ کو احساس ہوا جیسے فاطمہ ؓ رو رہی ہیں۔ آپ ؐاٹھ کر بیٹھ گئے اور پوچھا: فاطمہؓ کیا بات ہے، کیوں روتی ہو؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کے بالوں کو دھول میں اٹا ہُوا دیکھتی ہوں، آپؐ کے بدن پر پیوند لگے کپڑے اور وہ بھی گرد آلود دیکھتی ہوں، آپؐ کے چہرئہ انور پر تھکن کے آثار دیکھتی ہوں، بیٹی ہوں رونا آگیا۔ نبی اکرمؐ نے یہ سنا تو فرمایا: فاطمہؓ! گریہ و زاری نہ کر، اس لیے کہ تیرے باپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسے منصب پر مامور کیا ہے، ایک ایسا مشن اس کے حوالے کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ دین وہاں وہاں پہنچے گا جہاں جہاں سورج کی کرنوں کی پہنچ ہے، اور یہ دین غالب ہوکر رہے گا خواہ کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غلبۂ دین کی بشارت بھی سنا رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اپنی امت کو جدوجہد و کش مکش مول لینے کا خوگر بھی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا اقامتِ دین یا غلبۂ دین کے اس مشن کو لے کر اٹھنا، دعوتِ الی اللہ کا سراپا بننا، اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ان کے رب کی طرف بلانا… یہی راستہ ہے جو ایمان کی پکار پر لبیک کہنے کا راستہ ہے اور ظلم و جور اور ناانصافی کی طویل رات کو سحر کرنے کا راستہ ہے۔

نبی کریمؐ کے مشن اور غلبۂ دین کی اس جدوجہد نے بیسویں صدی میں اس وقت ایک منظم اور ہمہ جہت جدوجہد کی صورت اختیار کرلی جب برعظیم پاک و ہند میں سید مودودی علیہ الرحمہ کی امارت میں اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی، اور دوسری طرف عالمِ عرب میں حسن البنا کی قیادت میں اخوان المسلمون کی صورت میں اسلامی تحریک کو منظم کیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات و افکار اور نبی کریمؐ کی دعوت کو قرآن و سنت کی روشنی میں علمی استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مغرب کی طرف سے اُمتِ مسلمہ کو درپیش چیلنج کا کسی مرعوبیت کے بغیر نہ صرف سامنا کیا گیا بلکہ مغرب کے سحر کو توڑتے ہوئے اسلام کو ایک متبادل نظریے اور مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ علمی و فکری محاذ کے ساتھ ساتھ اُمتِ مسلمہ کی اصلاح اور اُمت کو اس کے فرضِ منصبی اور شہادتِ حق کی ادائیگی کے لیے دعوتِ دین کی بنیاد پر تحریکِ اسلامی کی صورت میں ایک منظم قوت میں بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کیا گیا۔ الحمدللہ! آج تحریکِ اسلامی کی صورت میں اُمتِ مسلمہ نہ صرف ایک منظم قوت کی شکل اختیار کرچکی ہے بلکہ تحریکِ اسلامی اُمتِ مسلمہ کے روشن اور تابندہ مستقبل کی نوید ہے۔

حق و باطل کا یہ معرکہ برپا ہے۔ اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور تہذیبی و نظریاتی سطح پر مغرب کو عملاً شکست ہوچکی ہے۔ اشتراکیت، سرمایہ داری، لادینیت یا کوئی بھی نظام دنیا کو ایک منصفانہ اور متوازن نظام پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دُنیا چار و ناچار اسلام کی راہِ اعتدال کو اپنانے پر مجبور ہے۔ نبی کریمؐ کے مشن کے مصداق بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی کی طرف بلا رہے ہیں اور ظلم و ناانصافی کو مٹاکر عدل وانصاف اور امن کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔ گویا عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک لہر پائی جاتی ہے، اور اسلامی تحریکیں اس کا ہراول دستہ ہیں، اور نبی کریمؐ کا مشن ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد اور قربانیاں رنگ لاکر رہیں گی اور نبی اکرمؐ کی بشارت کے مطابق یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا اور پوری دنیا پر دین غالب ہوکر رہے گا، ان شاء اللہ!

؎شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

حصہ